مرزا قادیانی کی زندگی کیسی تھی؟
تحریر: ابو ناصر الدین محمد عمران سلفی، مدرس جامعہ دار الحدیث محمد یہ جلال پور پیر والہ ملتان۔

امت محمد یہ میں اشراط السادۃ کے حوالہ سے فتن کا ظہور بہت بڑا باب ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ میں جہاں کہیں بھی اس کا تذکرہ آیا ہے محدثین کرام نے بڑی عرق ریزی سے ان کو پہچاننے کے بعد ان پر حکم لگایا اور آنے والی امت کو اس فتنہ سے بچانے کی مکمل سعی فرمائی۔
جزاهم الله جزأحسنًا۔
ادیان و مذاہب پر کیا گیا سلف کا کام اس بات پر شاہد ہے کہ بغیر تحقیق کے کسی پر کفر کا فتویٰ لگانا کتنا مشکل کام ہے۔ اس کیلئے محدثین نے اور فکر سلف کے حامل ایک مخصوص طبقہ نے اصول و قوانین وضع کر کے امت کے ہاتھ میں ایک زبر دست ہتھیار تھمایا ہے۔ متقدمین میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے بڑا وقیع کام کیا ہے مگر ان کے جواہران کی کتب میں بکھرے ہوئے ہیں۔ بعد میں بالخصوص ماضی قریب کے امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے تلامذہ نے بھی بہت کام کیا ہے۔اس موضوع پر بہر حال ’’ الفضل للمتقدم“ کے تحت یہ کاوشیں متقدمین کے کھاتے میں جاتی ہیں۔
اس ارض اللہ پر جب کوئی فتنہ رونما ہوتا ہے تو بڑے حیلے بہانے کر کے افراد امت کو گمراہ کرنے کیلئے اس فتنہ کا سر براہ اپناز در صرف کرتا ہے۔ اس کی دعوت کو پہنچاننے کا سب سے بڑا طریق یہ ہے کہ اس کی شخصیت کو جرح و تعدیل کے میزان میں پر کھا جائے کہ واقعتا یہ شخص سچا ہے یا نہیں ؟ اس نے اپنا علم کہاں سے لیا ہے ؟ لوگوں کیساتھ اس کا رویہ کیسا رہا؟ کیا واقعتا اس کی دعوت کچی ہے جسکا یہ مدعی ہے؟ کیا خود اس کی اپنی زندگی پر آثار نمودار ہیں؟ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب المسمی ’’منہاج السنتہ النسبویہ‘‘ میں اسی طریق کو اپنا کر مذہب رفض کا تعارف ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔
دنیا میں جتنے فتنے آئے ہیں ان میں سب سے زہر یلا فتنہ ’’دعویٰ نبوت‘‘ کا ہے۔ یہ سلسلہ خاتم النبیین سیدنا محمد ﷺ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد متصل شروع ہو گیا تھا۔ ہر دور میں اس کا تعاقب ہو تارہا۔ اسی سلسلہ خبیثہ کی ایک کڑی آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی کی ہے کہ جس نے ارض ہند پر نبوت کا دعویٰ کر کے ختم نبوت کے محل پر ڈاکہ ڈالنے کی مذموم سعی کی ہے۔
جن حضرات کا قادیانیت کیسا تھ پنجہ آزمائی کا اکثر موقع رہتا ہے وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے مربی حضرات میں دیگر خامیوں کیساتھ سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان بغرض تحقیق ان کے پاس جاتا ہے تو سب سے پہلے یہ حضرات حیات مسیح کا مسئلہ چھیڑ کر یہ زور لگاتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰؑ اس دنیا سے چلے جاچکے ہیں۔ قرآن و احادیث میں جس عیسیٰؑ کے بارے میں خبر دی گئی ہے اس سے مراد مثل مسیح ہے اور مرزا کی شخصیت سے بالکل کنارہ کشی کرتے ہیں۔ اگر ان کو کہا جائے تو بھی اس موضوع پر گفتگو سے احتراز کرتے ہیں۔ اسکی وجہ خود ان کو معلوم ہے کہ اس مرد باطل میں ایسی صفات پائی جاتی ہیں جو اس کے دجال ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں۔
’’دعوت اہل حدیث‘‘ کے معزز قارئین کیلئے آج کی نشست مرزا کی شخصیتی پہلو کی نذرکی جاتی ہے کہ کیا ان صفات کا حامل نبی ہو سکتا ہے۔

مرزا غلام احمد قادیانی کا چہرہ

انبیائے صادقین کے چہرے :
شریعت ہمیں بتاتی ہے کہ جتنے انبیاء ورسل کو مبعوث کیا گیاوہ اپنے وقت کے سب سے زیادہ صاحب فہم ، صاحب سیرت ، اور خوبصورت انسان تھے۔
خاتم النبيين والمرسلین جناب محمد ﷺ کا چہرہ مبارک اس قدر حسین اور دلکش تھا کہ صحابہ کرامؓ ایک بار نہیں بار بار دیکھنے کے خواہشمند ہوتے۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے جبکہ مرزا قادیانی کا چہرہ ایسا ہے کہ دیکھتے ہنسی آتی ہے کہ اس بد بخت کو کس ظالم نے مشورہ دیا کہ تو نبوت کا دعویٰ کر ، تیرے اندر واقعی ایسی چیز ہے جو نبوت کی متقاضی ہے۔
آج سائنس نے اس بات کی تحقیق کی ہے کہ اگر شخصیت کو پہچاننا ہو تو چہرہ سے پڑھا جا سکتا ہے اور انسان کا چہرہ ذہن کا آئینہ ہوتا ہے۔

مرزا ساده گنوار

مرزائی مفتی محمد صادق لکھتا ہے:
’’میری عمر اس وقت تقریباً تیرہ سال ہو گئی جب میں اپنے ہمجولیوں کے ساتھ حکیم صاحب مرحوم سے ملا اور انہوں نے اثناے گفتگو میں فرمایا کہ قادیان میں ایک مرزا صاحب ہیں جنکو الہام ہوتے ہیں۔ ان کی شکل بالکل سادہ گنواروں کی طرح ہے‘‘
(ذکر حبیب ص: ۲۔ مرزائیہ کے نزدیک اسکی سند بالکل صحیح ہے)

آنکھیں چرانا

(۱) مرزا قادیانی کی عادت تھی کہ ہر کسی سے آنکھیں چرا کر باتیں کرتا تھا۔ اس بات کی شہادت خود مرزا کا بیٹا دیتا ہے۔ ’’مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت صاحب کے مکان پر اوپر کے حصے میں رہتا تھا۔ میں نے ایک دفعہ حضرت صاحب کے گھر کی عورتوں کو یہ باتیں کرتے سنا ہے کہ حضرت صاحب کی تو آنکھیں ہی نہیں ہیں۔۔۔ ان کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ حضرت صاحب آنکھیں ہر وقت پیچی اور نیم بند رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ نیز مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ باہر مردوں میں بھی حضرت صاحب کی یہی عادت تھی کہ آپ آنکھیں ہمیشہ نیم بند رکھتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم ص: ۷۷: مرزا بشیر احمد قادیانی)
(۲) ’’مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب ہمراہ چند خدام کے فوٹو کھنچوانے گئے تو فوٹو گرافر آپ سے عرض کرتا تھا کہ حضور آنکھیں کھول کر رکھیں ور نہ تصویر اچھی نہیں آئے گی اور آپ نے اس کے کہنے پر ایک دفعہ تکلف کیساتھ تو آنکھوں کو کچھ کھولا بھی مگر وہ پھر اسی طرح نیم بند ہو گئیں۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلد ۲ ص: ۷۷ مرزا بشیر احمد قادیانی)

ایک عجیب لطیفہ

شعبان المعظم ۱۴۲۶ھ کا واقعہ ہے کہ راقم، ربوہ ( نیا نام چناب نگر) کی جانب عازم سفر ہوا، تلف قسم کی اشیاء دیکھنے کا موقعہ ملاء دوران مشاہدات ایک عجیب واقعہ رونما ہوا جو ہر وقت ذہن میں ردش کرتارہتا ہے ۔ قارئین کیلئے پیش کرتا ہوں:
ربوہ میں قادیانیت کا سب سے بڑا گمراہ کرنے کا اڈہ ایک ’’دار الضیافتہ ‘‘ نامی جگہ ہے جہاں لوگوں کو ضیافت اور مہمان داری کے نام سے بلا کر اپنے ناکام عزائم کو ان کے سامنے رکھ کر قادیانیت قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس مقام پر اکثر کلمہ طیبہ ’’لا الہ الله محمد رسول الله ‘‘ جگہ جگہ لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ہماری دعوت اس کلمہ کو پھیلانے کی ہے، میں ان کی بات کو سمجھ نہ سکا لیکن ذرا کرید کرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ اس لفظ ’’ محمد ‘‘ سے مراد آنجہانی مرزا اغلام احمد قادیانی مراد لیتے ہیں۔ سخت پریشان دل تھامنے کے بعد اس دارالضیافہ کے مرکزی دفتر اجازت لینے کے بعد اندر گیا تو دفتر کے انچارج ’’ مرزامنور‘‘ نامی ایک ملحد کے سامنے بیٹھ گیا۔ جس مقام پر میں بیٹھا ہوا تھا دائیں جانب مرزا غلام احمد قادیانی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھنے کے بعد مرزا منور سے پوچھا کہ مرزا صاحب کی آنکھ کانی کیوں ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ‘ کانی نہیں ہے یہ عاجزی کا اظہار ہے ‘‘۔ اس کے اس جواب پر مجھے ہنسی آئی اور دل میں سوچا کہ میں نے اس کے نبی کو کانا کہا ہے اور اس کو غصہ بھی نہیں آیا یہی اس کے باطل ہونے کی سب سے بین دلیل ہے۔ واللہ ! اگر یہ ظالم میرے نبی کے بارے میں ایسا کہتا تو اس کی زبان کھینچ لی جاتی۔

مرزا کی غیر متناسب آنکھیں

برسات کے بھیگے موسم میں اگر کسی چار پائی پر تمام رات برکھا برستی رہے۔ تو صبح چار پائی کی جو غیر متناسب حالت ہوتی ہے اسے پنجابی زبان میں کہتے ہیں: ’’ منجی نوں کان پے گئی۔‘‘ بعینہ یہی حالت دجال قادیان کی ہے اس کی تصویر دیکھیے اور یہ مثال سامنے رکھ کر غور کیجئے نتیجہ آپ کے سامنے ہوگا۔

مرزا کا دماغ

مرزا قادیانی کے دماغ کا اندازہ لگائیے کہ کیسی وہ غیر مناسب حرکتیں کرتا تھا۔ مرزا کا بیٹا بشیر احمد قادیانی لکھتا ہے:
(۱) ’’کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کوٹ، صدری، ٹوپی، عمامہ ، رات کو اتار کر تکیہ کے نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو ایک کھونٹی پر ٹانگ دیتے ہیں وہ بستر پر جسم کے نیچے ملے جاتے تھے اور صبح کو ایسی حالت ہو جاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلدادہ اور سوٹ کا دشمن ان کو دیکھ لے تو سر پیٹ لے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد ۲ ص: ۱۷۸- حیات طیبہ ص:۴۷۸)
(۲) قادیانی اخبار الحکم میں لکھا ہے:
’’ شیخ رحمت اللہ صاحب یا دیگر احباب کپڑے کے اچھے اچھے کوٹ بنوا کر لایا کرتے تھے۔ حضور کبھی تیل سر مبارک میں لگاتے تو تیل والا ہاتھ سر مبارک اور داڑھی مبارک سے ہوتا ہوا بعض اوقات سینہ تک چلا جاتا جس سے قیمتی کوٹ پر دھبے پڑ جاتے‘‘۔
(الحکم ۔ جلد نمبر ۳۸ نمبر ۶ مورخه ۲ فروری ۱۹۳۵ء)

بیماری اور مرزا قادیانی

اللہ رب العالمین قرآن مقدس میں فرماتا ہے:
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ
تمہاری ہر مصیبت تمہارے اعمال ہی کا نتیجہ ہے۔ اللہ کا مقدس فیصلہ ہے کہ بدکار نفوس مکافات عمل کی خدائی چکیوں میں ازل سے بلاریب پس رہے ہیں اور ابد تک پستے رہیں گے ، انکا بیماریوں وغیرہ کی دلدلوں سے نکلنا محال ہو گا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَاؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ (العنکبوت: ۴)
کیا بدکار لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے۔ ان کا یہ خیال نہایت خام اور غلط ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا تُصِیْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِهِمْ (الرعد: ۳۱)
کھڑ کھڑاہٹ پیدا کرنے والے حادثے یا تو بد کاروں کو ہمیشہ براہ راست نشانہ بنائیں گے اور یا خوف پیدا کرنے کیلئے ان کے گھروں کے قریب نازل ہونگے۔
قرآن مقدس کے ان احکامات کو مد نظر رکھ کر اللہ کے دین کے دشمن دجال قادیان کا مطالعہ کرتے ہیں۔

مرزا قادیانی دائم المريض

(۱) مرزا خود لکھتا ہے۔
’’ میں ایک دائم المریض آدمی ہوں‘‘
(ضمیمہ اربعین نمبر ۳٫۴ ص: ۴ مصنفہ مرزا قادیانی)
(۲) مزید لکھتا ہے۔
’’ہمیشہ درد سر اور دوران سر اور کمی خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کیساتھ آتی ہے۔ بیماری ذیا بطیس ہے کہ ایک مدت سے دامن گیر ہے‘‘
(ضمیمہ اربعین نمبر ۴‘۳ص:۴)
(۳) مزید لکھتا ہے :
’’ اور بسا اوقات سوسود دفعہ رات کو یادن کو پیشاب آتا ہے ۔ اور اس قدر پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں‘‘۔ (حوالہ ایضاً)
اس مقام پر قارئین کی دلچسپی کیلئے ذرامذ کورہ اقوال کی وضاحت پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
بقول مرزا قادیانی کے دن میں یارات میں سوسو دفعہ پیشاب کرتا ہے۔ اب ذرا یوں سوچئے کہ دن بھی بارہ گھنٹوں کا ہوتا ہے اور رات بھی بارہ گھنٹوں کی۔ بارہ گھنٹوں کے اگر منٹ نکالے جائیں تو ان کی تعداد ۷۲۰ بنتی ہے۔ اگر ۷۲۰ میں سے ۲۰ بیسں منٹ بھی نکال لو تو باقی ۷۰۰ کی تعداد ہمارے پاس رہتی ہے۔ تو اس حساب سے جب سو بار پیشاب کو تقسیم کرتے ہیں تو نتیجہ ہمارے پاس یہ نکلتا ہے کہ مرزا ہر سات منٹ بعد پیشاب کرنے کیلئے بیت الخلاء جاتا تھا۔ اور سارادن یہ سلسلہ جاری رہتا۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ۔

پٹھوں کا کچھاؤ اور سر چکراؤ

’’والدہ صاحبہ فرماتے ہیں اس کے بعد آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ خاکسار (مرزا بشیر) نے پوچھا دوروں میں کیا ہوتا تھا۔ والدہ صاحبہ نے کہا۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے تھے اور بدن کے پٹھے کھنچ جاتے تھے۔ خصوصاً گردن کے پٹھے اور سر میں چکر ہوتا تھا‘‘۔
(سیرت المہدی۔ جلدا ص: ۱۳ مرزا بشیر احمد قادیانی)

مراق، غم اور سوئے ہضم

’’مراق کا مرض حضرت صاحب کو موروثی نہ تھا، بلکہ یہ خارجی اسباب کے تحت پیدا ہو گیا تھا اور اس کا باعث سخت دماغی‘ محنت ، تفکرات، غم اور سوئے ہضم تھا۔ جس کا نتیجہ دماغی ضعف تھا اور جس کا اظہار مراق اور دیگر ضعف کی علامت مثلاً دوران سر کے ذریعہ ہو تا تھا‘‘۔
(رسالہ ریورپو قادیان ص: ۱۰اگست ۱۹۲۶ء)

تنبیہ:

مراق جنون کو کہتے ہیں ۔ دنیا میں جہاں بھی قادیانی ذریت آباد ہے سب سے میرا سوال ہے کہ قرآن مقدس اور احادیث صحیحہ سے کوئی ایک ایسی مثال پیش کریں کہ فلاں سچا نبی جو فلاں علاقہ کا رہنے والا تھا جنون کا مرض اسے لاحق تھا؟

ہیسٹریا

بیان کیا مجھے والدہ صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہیسٹریا کا دورہ بشیر اول کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔ رات کو سوتے وقت آپکو اتھو آیا پھر اس کی طبیعت خراب ہو گئی۔
(سیرت المہدی جلد اص: ۱۳ مرزا بشیر )

خونی قے

’’پھر یک لخت بولتے ہوئے آپکو قے آئی‘ قے آنے سے پہلے ابکائی آئی یہ قے خالص خون کی تھی جس میں کچھ خون جما ہوا تھا اور کچھ بہنے والا تھا۔ حضرت نے قے کر کے سر اٹھا یا رومال سے اپنا منہ پو نچھا اور آنکھیں بھی پونچھیں جو توقے کی وجہ سے پانی لے آئی تھیں‘‘۔
(سیرت المہدی جلد اص: ۱۸۰)

تیس برس سے بیماریوں کی نذر

’’ مجھے دو مرض دامن گیر ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصے میں کہ درد سر اور دوران سر اور دوران خون کم ہو کر ہاتھ پیر سر د ہو جانا نبض کم ہو جانا اور دوسرے جسم کے نیچے کے حصے میں کہ پیشاب کثرت سے آنا اور اکثر دست آتے رہنا۔ یہ دونوں بیماریاں قریب تیس برس سے ہیں‘‘۔
(نسیم دعوت ص: ۷۸ مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی نامرد بھی تھا

یہ ظالم اپنی نامردی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
(۱) ’’ایک اجتلا مجھ کو اس شادی کے وقت یہ پیش آیا کہ باعث اس کے کہ میرادل اور دماغ سخت کمزور تھا اور میں بہت سے امراض کا نشانہ رہ چکا تھا۔ میری حالت مردمی کا لعدم تھی اور پیرانہ سالی کے رنگ میں میری زندگی تھی۔ اس لئے میری شادی پر میرے بعض دوستوں نے افسوس کیا …. کہ آپ بباعث سخت کمزوری کے اس لائق نہ تھے ‘‘۔
(تریاق القلوب ص: ۳۵ مندرجه تذکرہ ص: ۱۲۹ ایڈیشن دسمبر ۱۹۳۵ء)
(۲) ’’جب میں نے شادی کی تھی تو اس وقت تک مجھے یقین رہا کہ میں نامرد ہوں‘‘۔
(خاکسار غلام احمد قادیانی ۲۲ فروری ۱۸۸۷ء مکتوب احمدیہ جلد ۵ ص خط نمبر ۱۴- منقول از نوشتہ غیب خالد وزیر آبادی)

تبصره

مبارک ہو قادیانی امت کو ان کا نامرد (مخنث) نبی !!! مرزا قادیانی کی نامردی پر اسکے اپنے اعتراف اور اس زبردست ثبوت کے بعد قادیانی امت پر یہ قرض ہے کہ وہ محبت کریں کہ مرزا صاحب کی آگے چلنے والی نسل جو آج تک خلافت کی کرسی پر بیٹھ کر یورپ کے مزے اور عیش و عشرت کیساتھ زندگی گزار رہے ہیں ان کا حلالی ہونا مرزا صاحب کے بیان نے مشکوک کر دیا۔ یورپ کے پروردہ اس نبی کی بیوی جو عین شباب کی حالت میں تھی اور حضرت بیماری اور بڑھاپے سے عاجز آچکے تھے تو یہ اپنا وقت کہاں گزارا کرتی تھیں۔ اس کیلئے میرا قلم تو کچھ نہیں کہتا البتہ کتب بتادیتا ہوں دلچسپی لینے والے قارئین ان کا مطالعہ کر لیں یقیناً فائدہ ہوگا۔ (شہر سدوم از شفیق مرزا۔ قادیانیت اس بازار میں۔ از متین خالد )
البتہ ایک مثال پیش کر دیتا ہوں۔ ڈاکٹر بشارت احمد قادیانی لکھتا ہے۔
’’بیوی صاحبہ مرزاجی کے مریدوں کو ساتھ لیکر لاہور سے کپڑے بھی خود ہی لایا کرتی تھیں‘‘
(کشف الظنون مرتبہ ڈاکٹر بشارت احمد لاہور ص: ۸۸)
قادیانی امت بتائے کہ غیر محرم کیساتھ سفر کرنا کیا یہ جائز ہے ؟ جبکہ آج سے ایک صدی قبل کیا سفری سہولیات جو آج موجود ہیں وہ اسوقت تھیں۔ بیوی صاحبہ کسی جگہ رہتی تھیں ؟ کیاد نیا کے اندر کوئی ایسا نبی آیا ہے جو نامرد(مخنث) ہو؟ غیرت بڑی چیز ہے اس جہان تنگ دو میں پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا

دورے کی سختی سے ٹانگیں باندھنا

مرزا بشیر احمد قادیانی لکھتا ہے:
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ اوائل میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کو سخت دورہ پڑا، کسی نے مرزا سلطان اور مرزا افضل کو بھی اطلاع دے دی اور وہ دونوں آگئے۔ پھر ان کے سامنے بھی حضرت صاحب کو دورہ پڑا۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں:
اس وقت میں نے دیکھا کہ مرزا سلطان انہ تو آپ کی چار پائی کے پاس خاموش ہو کر بیٹھے رہے۔ مگر میرزا افضل احمد کے چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا۔ وہ بھی ادھر بھاگتا تھا۔ اور کبھی ادھر کبھی اپنی پگڑی اتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھا اور کبھی پاؤں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے۔
( سیرت المہدی جلد : ص۲۲)

نشان عبرت

انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت اور اسلام کی روشن نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی نبی اور رسول ایسا نہیں گذرا جسکو زندگی میں ایسی بیماری لاحق ہوئی ہو یا اس انداز میں باندھا گیا ہو نیز قرآن مقدس کی سورۃ الحاقہ میں اللہ رب العالمین کا یہ فرمان:
خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ(30)ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْهُ(31)ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْہُ(32) (الحاقتہ )
مرزا قادیانی پر جہاں آخرت میں فٹ آئے گا وہاں اللہ رب العالمین اصل دنیا کو بھی اس کا مشاہدہ دکھا رہا ہے کہ دنیا کے اندر بھی ہم نے اسے عذاب میں مبتلا کر کے دکھلا دیا۔ اے قادیانیو ذرا تو عقل کرو!
دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ سابق حوالہ میں، مرزا سلطان، اور مرزا افضل کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ کون تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی مرزا کے بیٹے ہیں مگر پہلی بیوی سے جب ابھی مرزا مخنث نہیں ہوا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں بیٹے اس کے حلالی ہیں کیونکہ یہ دونوں بیٹے مرزا پر ایمان نہیں لائے جسکا مرزا کو بہت دکھ تھا۔ مرزا سلطان کا مرزا قادیانی کیساتھ رویہ تو سیرت المہدی کے حوالہ سے جو مرزا بشیر احمد نے والدہ نصرت جہاں بیگم کی سند سے بیان کیا وہ آپ نے گذشتہ صفحہ کے اندر پڑھ لیا باقی رہا مرزا افضل اس کے بارے میں عرض ہے کہ یہ مرزا قادیانی کی زندگی ہی میں فوت ہوا۔ اور مرزانے بوجہ اس کے مسلمان ہونے کے جنازہ نہ پڑھا۔ مرزا بشیر الدین محمود لکھتا ہے:
’’آپ (مرزا قادیانی) کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق نمی کرتا تھا، جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار تھا۔ ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا اور شدت مرض میں مجھے غش آگیا جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پاس کھٹرا نہایت درد سے رو رہا ہے۔ آپ یہ بھی فرماتے کہ یہ میری بڑی عزت کیا کرتا تھا۔ لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔ حالانکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی نہ ہونگے ۔ محمدی بیگم کے متعلق جب جھگڑا ہوا تو اس کی بیوی اور اس کے رشتہ دار بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ حضرت صاحب نے اسے فرمایا:
تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ اس نے طلاق لکھ کر حضرت صاحب کو بھیج دی کہ آپ کی جس طرح مرضی ہے اسی طرح کریں لیکن باوجود اس کے جب وہ مرا تو آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔ ‘‘
(انوار خلافت ص: ۹۱ مرزا بشیر الدین)

مرزا صاحب کی نبض بند

’’بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد نے بواسطہ مولوی رحیم بخش ایم۔ اے کے کہ ایک مرتبہ والد صاحب (مرزا قادیانی) سخت بیمار ہو گئے اور حالت نازک ہو گئی اور حکیموں نے نا امیدی کا اظہار کر دیا اور نبض بھی بند ہو گئی مگر زبان جاری رہی۔ والد صاحب نے کہا کیچڑلا کر میرے اوپر اور نیچے رکھو چنانچہ ایسا کیا گیا اور اس سے حالت روبہ اصلاح ہو گئی۔
(سیرت المہدی جلدا۔ ص: ۲۲۱)
قارئین دیکھئے ! اللہ کی طرف سے اتنی آزمائش آنے کے بعد بھی یہ ظالم تو بہ نہ کر سکا نہ جانے کتنی مرتبہ یہ حالت بنی بلکہ الٹاجب حکماء نے علاج کرنے سے بیزاری کا اظہار کر دیا تو مرزا صاحب اپنی امت کے سامنے بحیثیت ایک حکیم الامت بن کر پیش ہوتے اور علاج ایسا تجویز کیا کہ کیا ہی کہنے۔
کیا مرزائی امت بھی اپنے مزعومہ نبی کی پیروی کرتے ہوئے اس علاج کو اپنا کر نئی زندگی حاصل کرتی ہے؟

مرزا صاحب کی مقعد سے خون

(۱) ’’اسی طرح ایک دفعہ زچر اور اسہال خونی سخت بیماری ہوئی۔ ‘‘
( مرزا کا خط حکیم نور الدین کے نام مکتوبات جلد نمبر ۵، نمبر ۲ ص: ۱۱۹)
(۲)’’ میں ایک مرتبہ قولنج ذخیری سے سخت بیمار ہوا اور سولہ دن تک پاخانہ کی راہ سے خون آتارها اور سخت درد تھا جو بیان سے باہر ہے‘‘۔
(حقیقۃ الوحی ص: ۳۳۴ مصنفہ مرزا قادیانی)
قادیانیو! بواسیر جیسے مرض کا لاحق نبی تمہیں ہی مبارک ہو۔

مرزا صاحب دست کی بیماری میں

’’ باوجود یہ کہ مجھے اسہال کی بیماری ہے اور ہر روز کئی کئی دست آتے ہیں مگر جس وقت بھی پاخانے کی حاجت ہوتی ہے تو مجھے افسوس ہی ہوتا ہے کہ ابھی کیوں حاجت آئی۔ اسی طرح جب روٹی کھانے کیلئے کئی مرتبہ کہتے ہیں تو بڑا جبر کر کے جلد جلد چند لقمے کھالیتا ہوں۔ بظاہر تو میں روٹی کھا رہا ہوتا ہوں مگر میں سچ کہتا ہوں کہ مجھے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں جاتی ہے۔ اور کیا کھارہا ہوں میری توجہ اور خیال اسی طرف لگا ہوتا ہے۔ ‘‘
(ارشاد مرزا قادیانی مندرجہ اخبار الحکم قادیانی جلد نمبر ۵ ص:۴۰)
دیکھئے قارئین! مرزا کی جہاں بیماری کا پتہ چلتا ہے وہاں اس کا یہ قول کہ ’’ مجھے پتہ نہیں ہوتا کہ کہاں جاتی ہے ‘‘ بتاتا ہے کہ مرزا قادیانی مخبوط الحواس بھی تھا۔ ایسا مخبوط الحواس نبی مرزائی امت ہی کو مبارک۔ میرا ایمان کہتا ہے کہ اگر مرزا صرف قیامت کی فکر کرتا اور رجوع الی اللہ کا خاصہ ہوتا تو میخانوں کی یلغار سے یقینا وہ نجات پاتا۔
لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْؕ

بالوں کی بیماری

مرزائی مفتی محمد صادق لکھتا ہے :
’’آخری عمر میں حضور کے سر کے بال بہت پتلے اور ہلکے ہو گئے تھے ۔ چونکہ یہ عاجز ولایت سے ادویہ وغیرہ کے نمونے منگوایا کرتا تھا۔ غالباً اس واسطے مجھے ایک دفعہ فرمایا۔ مفتی صاحب ! سر کے بالوں کے اگانے اور بڑھانے کیلئے کوئی دوائی منگوائیں‘‘۔
(ذکر حبیب ص: م ۱۷۳فتی محمد صادق)

مرزا صاحب قليل النظر

’’آپ کی آنکھیں ہمیشہ نیم بند رہتی تھیں اٹھا کر ادھر ادھر آنکھیں دیکھنے کی آپ کو عادت نہ تھی بعض اوقات ایسا ہو تا تھا کہ سیر میں جاتے ہوئے آپ کسی خادم کا ذکر غائب کے صیغہ میں فرماتے تھے۔ حالانکہ وہ آپ کے ساتھ ساتھ جارہا ہوتا تھا اور پھر کسی کے بتلانے پر آپکو پتہ چلتا تھا کہ وہ شخص آپ کیسا تھ ہے۔
(سیرت المہدی جلد ۲ ص ۷۷)
قارئین کرام! مرزا صاحب کی اس عادت سے پتہ چلتا ہے کہ آج کے نابینے حضرات مرزا جیسے بینا سے اچھے ہیں جنہیں ہاتھ ملانے اور پاؤں کی آواز سننے کے بعد پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کون ہے ؟ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کسی نشہ آور چیز کے سونے لگاتا تھا۔

مرض الموت ہیضہ

مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:
’’والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے اور میں بھی سوگئی لیکن کچھ دیر بعد آپکو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک دو دفعہ حاجت کیلئے پاخانہ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو آپ نے ہاتھ سے مجھے جگایا۔ میں اٹھی تو آپکو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چار پائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے بیٹھ گئی۔ اتنے میں آپکو اور دست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جا سکتے تھے۔ اس لئے آپ چار پائی کے پاس ہی بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے … اس کے بعد ایک دست آیا اور پھر آپکو قے آئی۔ جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ پشت کے بل چار پائی پر گر گئے اور آپکا سر چار پائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہو گئی اس پر میں نے گھبرا کر کہا۔ ’’اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے۔‘‘ تو آپ نے فرمایا یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔ خاکسار (مرزابشیر ) نے پو چھا کہ آپ سمجھ گئیں تھیں کہ حضرت صاحب کا کیا منشاء تھا ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ’’ہاں‘‘۔
(سیرت المہدی جلد اص: ۱۱۔۱۲)
مرزا قادیانی کی یہ آخری بیماری تھی جس کے بعد مرزا اس دنیا سے چلا گیا مذ کورہ عبارت سے ہمیں بہت سارے مسائل کا حل ملتا ہے کہ رب العالمین اپنے منکرین کو آخرت تو کجا دنیا کے اندر کیسانشان عبرت ناک ہے۔ اس واقعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب اپنے کپڑوں کے اندر بھی پاخانہ کیا کرتا تھا جس کا ثبوت سیرت المہدی مصنفہ مرزا بشیر احمد سے کثیر مقامات پر ہمیں ملتا ہے اس سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مرزا اتنا غلیظ الفطرت انسان تھا کہ قضائے حاجت کیلئے اسے جہاں جگہ میسر آتی وہاں بیٹھ جاتا۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب مرزا کا سر لکڑی پر لگا تو اللہ کے طرف سے یہ بھی ایک نشان تھا کہ دنیا میں اس کے سر پر لکڑیاں اور بیماریوں کی بھرمار، ذرا آگے تو آئے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ یہ وہ موت تھی جس کی مرزا نے مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے مقابلہ میں آخری فیصلہ کے نام سے دعاء کی تھی رب العالمین نے یہ دعاء ایسی قبول کی کہ مرزا کی موت لیٹرین میں واقع ہوئی۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں اللہ رب العالمین نے مرزا کی کوئی دعاء قبول کی ہو یانہ یہ دعا ضرور قبول کی تھی۔

مرزا قادیانی کا معالج ایک فرشتہ

آخر میں بتاتا جاؤں کہ مرزا قادیانی کے انسانی معالجین کے علاوہ اور بھی تھے۔ وہ کون تھے ؟ اس کیلئے مرزا قادیانی کی مشہور معروف ’’کتاب تذکرہ‘‘ ( یہ مرزا کے الہامات کا مجموعہ ہے اگر زندگی نے وفا کی تو ان شاء اللہ مرزا کے اس مجموعہ کا علمی رد لکھوں گا) کا حوالہ پیش کرتا ہوں جسے مرزائی حضرات ’’ مجموعہ الہامات ‘‘ بھی کہتے ہیں :
’’ مرزا قادیانی کے نار ساذھن نے یہ سوچا کہ مجھے الہام ہو رہا ہے‘‘ پو چھا کون؟ آواز آئی۔ تیرا فرشتہ ٹیچی ٹیچی ۔ پوچھا:
کیسے آنا ہوا؟ کہا:
تجھ پر تیرے رب کی طرف سے وحی لایا ہوں کہ ’’ہم نے تیری صحت کا ٹھیکہ لے لیا ہے‘‘۔
( مجموعہ الہامات ص:۸۰۳ صبح روم مرزا قادانی)
الٹی سمجھ کسی کو ہرگز خدا نہ دے
دے آدمی کو موت مگر یہ بد ادا نہ دے
جیسی روح ویسے فرشتے۔ جیسی نیت ویسی مراد ۔ مرزا بھی ظالم سوچتا ہو گا کہ فرشتہ مجھے وعدہ دے تو گیا ہے لیکن آتا نہیں شفاء لیکر۔ ارے بد بخت ! وہ کہاں سے آتا۔ اے کاش کہ تو نے دعویٰ کرنے سے قبل امام ابن جوزی رحمہ اللہ کی ’’ تلبیسں ابلیس‘‘ یاامام ابن حزم کی ’’ الملل والخل‘‘ کا بنظر غائر مطالعہ کیا ہوتاتو شاید شیطان کے دام فریب میں نہ پھنستا۔
اپنی عمر تمام گلے کا ھار بنائے رکھا انہیں
اس عجب شخص کو بیماریوں سے کتنا عشق تھا

تنبیہ بلیغ

مرزائی یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ دنیا کے اندر جو نیک لوگوں کو بیماریاں پہنچتی ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے۔ کہ جو اللہ کے واقعتا نیک بندے ہوتے ہیں جن کے چہروں پر سجود کے آثار ہوتے ہیں جنکی گفتگو سے مشک کی مہک آتی ہے جن کی جبین صرف اپنے اللہ کے سامنے جھکتی ہے، جو اپنے وجود کو صرف اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کیلئے ہر وقت پابند رکھتے ہیں۔ اگر دنیا کے اندر انہیں کوئی دکھ یا تکلیف پہنچتی ہے تو قرآن مقدس نے ان قدسی صفات لوگوں کیلئے یہ احکامات جاری فرمائے ہیں:
وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (العنكبوت: 7)
وَ یُنَجِّی اللّٰهُ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ٘-لَا یَمَسُّهُمُ السُّوْٓءُ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (61) (الزمر )
ان کا مطالعہ کر لیا جائے اور کتب تفسیر کی طرف مراجعت فرمائی جائے ان شاء اللہ اس سوال کا جواب ضرور مل جائے گا۔ اللہ الحمد

مرزا قادیانی کے جھوٹ

شریعت اسلامیہ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے دیگر احکامات کیساتھ ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ سچ کو رواج دو اور جھوٹ سے اجتناب کرو جیسا کہ اللہ رب العالمین نے قرآن مقدس میں فرمایا ہے:
اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ (النحل: 105)
جھوٹ صرف وہ لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ اصل جھوٹے ہیں۔
احادیث رسول اللہ ﷺ میں یہ چیز کثرت کیساتھ ملتی ہیں کہ جھوٹ سے پرہیز اور سچ کو اپنا دامن بناؤ جیسا کہ الجامع الصحیح البخاری میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
فإن الكذبَ يهدي إلى الفجورِ ، والفجورُ يهدي إلى النارِ ( حديث نمبر ۶۰۹۴)
جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ حق سے ہٹ جانے کی طرف لے جاتا ہے اور حق سے ہٹ جانا آگ کی طرف لیکر جاتا :
اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ اپنی صحیح مسلم باب میں البر والصلۃ کے تحت ایک حدیث لیکر آئے ہیں اور اسی معنی کی حدیث الجامع الصحیح البخاری کے اندر بھی مذکور ہے۔ ’’عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سچ کو لازم پکڑو کیونکہ سچ نیکی کی طرف ہدایت کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف ہدایت کرتا ہے اور آدمی سچ کہتارہتا ہے اور سچ کہنے کی پوری کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اللہ کے ہاں بہت سچا لکھا جاتا ہے۔ اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ برائی کی طرف لے کر جاتا ہے اور برائی آگ کی طرف ہدایت کرتی ہے اور آدمی جھوٹ کہتا رہتا ہے اور جھوٹ کہنے کی پوری کوشش کرتارہتا ہے حتی کہ اللہ کے ہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔
اس قرآنی ہدایت اور نبوی احکام کی روشنی میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جھوٹ انسان کو حق و صداقت کی دلنشین شمعوں اور روحانی منزلوں سے بہت دور لے جاتا ہے۔ ارض ہند کے اس رجال صفت مزعومہ نبی مرزا قادیانی کے مرتد ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ اس نے حق و صداقت کی ضیاء پاشی سے اپنے آپکو دور کر کے جھوٹ کی جبیں بوی شروع کر دی اس وجہ سے یہ ظالم امت مسلمہ کے اجماعی مسئلہ کی روسے کاذب مفتری ٹھہرا۔

جھوٹ نمبرا

’’دیکھ زمین پر ہر روز خدا کے حکم سے ایک ساعت میں کروڑ ہا انسان مر جاتے ہیں اور کروڑہا اس کے ارادے سے پیدا ہوتے ہیں‘‘۔
(کشتی نوح ص: ۳۷ مصنفہ مرزا قادیانی)
اندازہ لگایئے کہ اگر بالفرض مرزا قادیانی کی بات درست ہو بھی جائے ( حالا نکہ ناممکنات میں سے ہے) تو نتیجہ ہمارے پاس یہ نکلتا ہے کہ دو یا تین دن میں یا زیادہ ہی لگا لو تودس دن بنتے ہیں اس عرصہ میں دنیا ختم ہو سکتی ہے۔ اور جو بچے نئے اس دنیا میں آئے ہیں وہ کب بڑے ہونگے ؟ کب تعمیر ملت کا کام کریں گے ؟ اور کیسے مرزا جی کی نبوت کا علم لیکر دنیا میں جائیں گے ؟ سچ کہا کسی نے: دروغ گورا حافظہ نباشد (جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا)۔

جھوٹ نمبر ۲

امیر جی کو دیکھو کہ آنحضرت ﷺ وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہو گیا۔ ‘‘
(پیغام صلح ۲ روحانی خزائن ص: ۶۵ جلد ۲۳ مرزا قادیانی)
مرزا قادیانی جہاں تاریخ دانی سے بچارہ محروم رھا وہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے قرآن مجید کو ہی نہیں پڑھا۔ اللہ فرماتا ہے:
اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰى (الضحیٰ)
تاریخ کا ادنی ترین طالب علم جانتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی پیدائش سے کتنا عرصہ قبل آپ کے والد اس دنیا سے چلے گئے تھے۔

جھوٹ نمبر ۳

’’ تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ ﷺ کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب قوت ہو گئے تھے۔ ‘‘
( چشم معرفت ص: ۲۸۶ روحانی خزائن ص: ۲۹۹ جلد ۲۳)
تاریخ کی تو کسی معتبر کتاب میں یہ بات نہیں اور نہ ہی آپکی سیرت پر لکھی گئی کتب مثلاً امام ابن قیم الجوزیؒ کی ’’ زاد المعاد فی ھدی خیر العباد‘‘ ۔ ابن ہشام کی ’’ سیرت النبی‘‘ وغیرہ میں یہ بات ہے۔ ہاں البتہ یہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ یہ وحی لیکر آنے والا ’’ ٹیچی ٹیچی ‘‘ ہی ہو سکتا ہے۔

جھوٹ نمبر ۴

’’آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا آج کی تاریخ سے سو برسوں تک تمام نبی آدم پر قیامت آجائے گی۔‘‘
(ازالہ اوہام ص: ۲۵۲-۱۰۴)
رسول الله ﷺ سے کسی بھی صحیح حدیث میں یہ بات منقول نہیں ہے۔ مرزا قادیانی نے رسول الله ﷺ پر جھوٹ باندھا ہے اور ہم ان شاء اللہ امید واثق رکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ ’’ جس نے میرے اوپر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنی جگہ جہنم میں بنائے۔ ’’مرزا قادیانی جیسے لوگوں کیلئے ہی کہا گیا ہے مرزا قادیانی کا یہ جھوٹ روایتاً ودرایتاً ہر طرح بعیداز عقل ہے۔
فافهم في هذه المسئله ‘‘

جھوٹ نمبر ۵

’’لیکن ضرور تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی پیشنگوئیاں پوری ہو تیں جس میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہو گا تو :
(۱) اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔
(۲) وہ اس کو کافر قرار دیں گا۔
(۳) اور اس کے قتل کے فتویٰ دیئے جائیں گے۔
(۴) اور اس کی سخت تو ہین ہو گی۔
(۵) اور اسکو دائرہ اسلام سے خارج اور دین کا تباہ کرنے والا خیال کیا جائے گا۔
سوان دنوں میں وہ پیشنگوئی انہیں مولویوں نے اپنے ہاتھوں سے پوری کی۔‘‘
(اربعین جلد ۳ ص: ۱۷ روحانی خزائن جلد جلد ۱۷ص: ۴۰۴)
مرزا کی مذکورہ گفتگو نہ قرآن مقدس میں ہے اور نہ ہی احادیث صحیح میں۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کوئی ضعیف اور موضوع روایت بھی نہیں ہے جس میں مرزا قادیان جیسے دجال وضاع، متروک الحدیث ، اور اکذب الناس کے علاوہ کسی اور نے روایت کیا ہو۔
مرزا قادیانی کی یہ عادت تھی کہ جب وہ اپنے خلاف بنتی ہوئی کوئی فضاد یکھتا تو فوراً کوئی الہام یا پیشن گوئی کر دیتا کہ آنے والے دنوں میں ایسا ہو گا۔ اگر واقعتا ایسا ہو جاتا تو خوشی سے بغلیں بجاتا اوراگر نہ ہو تا تو مؤخر ہونے کا دعویٰ کر کے جان چھڑانا۔ قادیانیت پر مطالعہ رکھنے والے احباب پر مرزا کی یہ عادت مخفی نہیں ہے۔ جیسا کہ مرزا قادیانی کے بیٹے نے سیرت المہدی میں عقیدت کی عینک لگا کر مختلف مقامات پر اس کا تذکرہ کیا ۔ ۔ اور مرزا کے الہام و پیشن گوئیوں کے بارے میں سب سے کاری ضرب شیخ الاسلام مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے اپنے موقر رسالہ ’’ اشارہ السنہ‘‘ میں لگائی اور اپنے اس رسالہ کا نام ہی ” الہای قاتل ‘‘ رکھا۔ قارئین کرام! مرزا قادیانی کا مذکورہ الہام و جھوٹ پڑھ لینے کے بعد آپ کی توجہ ذرا تحریک ختم نبوت کیطرف لیکر آنا چاہتا ہوں کہ مرزا کامذکورہ الہام کن لوگوں پر فٹ آتا ہے ؟ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے مرزا قادیانی کو اتنا تنگ کیا کہ مرزا قادیانی سخت الہام اور جھوٹ بکنے پر مجبور ہوا۔ ارض:ند پر بڑے بڑے علماء موجود تھے جن میں علماء دیوبند ، علماء گنگوہ، علماء سہارن پور، علماء لدھانیه، علماء بریلی، علماء رام پور، اور مولانا شا انور شاہ کشمیری جیسے علماء کا سکہ لوگوں کے دلوں پر جما ہوا تھا۔ لیکن منصف مزاج آدمی جسکو واقعتا ایک محقق کہا جاتا ہے اگر وہ تاریخ کے اس عظیم زادیے کو پڑھے تو یقینا وہ فیصلہ کرے گا کہ یہ لوگ وہ تھے جنکو اہل حدیث کہا جاتا ہے۔
حتٰی کہ بعض علماء نے مثلاً مولانا رشید احمد گنگوہی نے تو مرزا غلام احمد قادیانی کو ’’ رجل صالح‘‘ قرار دیا تھا۔ لیکن بعد میں جب مولانا بٹالوی مرحوم نے ہندوستان کے افق پر نکلنے والے اپنے جریدے ’’ اشارہ السنہ‘‘ میں باقائدہ مرزا کے خلاف ایک مہم چلائی تو پھر سب علماء نے مولانا بٹالوی مرحوم کا ساتھ دیا۔ مولانا گنگوہی سمیت جس کی وجہ سے امت اسلام کے م سنجیدہ فکر علماء نے مولانا بٹالوی مرحوم کے مرتب کردہ اور شیخ الاسلام مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی کے توثیق کردہ فتویٰ پر مہر تصدیق ثبت فرمائی۔
رحمهم الله رحمة واسعة
علماء اہل حدیث کی کاری ضرب کی شاہد مرزا قادیانی کی روحانی خزائن نامی کتاب میں بھی ہے جو چیخ چیخ کر قارئین کو صدائیں دیتی ہے کہ میرے مزعومہ نبوت کے محل پر جس نے سب سے زیادہ گولے برسائے وہ لوگ ’’اہل حدیث ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
میں اپنی اس بات کی توثیق کیلئے صرف ایک قادیانی عبارت پیش کرتا ہوں۔ مشہور قادیانی اخبار ’’ الفضل ‘‘ میں لکھا ہے۔ ’’اگر مولانا محمد حسین بٹالویؒ کو معلوم ہوتا جب ان کا نکاح ہوا تھا کہ مسیح موعود کی حیثیت کیا ہے ؟ اور وہ ہونے والے اپنے اس بچے کے بارے میں جانتے کہ میرا ہو نے والا بیٹا محمد رسول اللہ ﷺ کے ظل اور بروز کے مقابلہ میں وہی کام کرے گا جو آنحضرت ﷺ کے مقابلہ میں ابو جہل نے کہا تھا تو وہ اپنا آلہ تناسل (ذکر) کاٹ دیتا۔
(اخبار الفضل مورخہ ۲ نومبر ۱۹۳۲ء مطابق ۱۱ربیع الاول ۱۳۴۱ھ جلد نمبر ۱۰)
میں اس موضوع پر اپنی گذارشات ختم کرتا ہوں کیونکہ یہ مضمون کافی طوالت کا متقاضی ہے، شائقین ذہبی دوران مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ادام اللہ فیوضہ و برکاتہ کا تحریر کردہ مقدمہ ’’تحریک ختم نبوت‘‘ از محترم ڈاکٹر بہاؤالدین کی جلد اول میں مطالعہ فرمائیں۔
جزاکم اللہ خیراً

جھوٹ نمبر ۶

’’سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا ہے سواس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خداہی سے حاصل کرے گا اور قرآن وحدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا۔ سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی ہے کہ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسر محدث کی شاگردی اختیار کی ہے۔ پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلا واسطہ میرے پر کھولے گئے۔‘‘
اس جاہل مرکب کو کیا معلوم تھا کہ میری زندگی میں تو مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ اور مولانا محمد حسین بٹالوی نے ناکوں چنے چبوائے ، میرے مرنے کے بعد بھی یہ میرا تعاقب نہ چھوڑیں گے اور اپنے روحانی فرزند چھوڑ کر جائیں گے۔ مرزا قادیانی کے اس جھوٹ کا اب خود اسی کے بیان سے دینا مناسب سمجھتا ہوں لکھتا ہے:
’’ جب میں چھ یا سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتا بیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہٰی تھا۔ اور جب میری عمر تقریباً دس سال کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کیلئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا تھا کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف (علم صرف) کی بعض کتا بیں اور قواعد نحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا ان کا نام علی شاہ تھا ان کو میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کیلئے مقر کیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔ ‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ ص: ۱۶۲۔ ۱۶۳ روحانی خزائن جلد ۱۳ ص: ۱۸۰-۱۸۱)

جھوٹ نمبر ۷

’’تفسیر ثنائی میں لکھا ہے کہ ابو ہریرہ فہم قرآن میں ناقص تھا اور اس کی روایت پر محدثین کو اعتراض ہے۔ ابوہریرہ میں نقل کرنے کا مادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا۔ ‘‘
(ضمیمہ نصرۃ الحق ص: ۲۰۴،۲۳۰ مرزا قادیانی)
دنیائے قادیانیت کو چیلنج ہے کہ تفسیر ثنائی میں خواہ وہ کسی بھی سن کی طباعت ہو دکھا دیں منہ مانگا انعام لیں۔ ہم نے مولانا کو اچھی طرح پڑھا ہے لکھنا تو در کنار رب کعبہ کی قسم انہوں نے سوچاتک بھی نہ ہو گا، مولانا ایک منجی انسان تھے اور اس ارض اللہ پر آیت من آیات اللہ تھے۔
۱۴۲۶ھ شعبان المعظم جب میں ربوہ گیا تو وہاں ایک دیوبندی عالم کی تقریر سننے کا موقعہ ملا اس نے دوران تقریر کہا کہ :
’’جب اللہ کی زمین پر فتنہ خلق قرآن عروج پر تھا اگر اللہ رب العالمین امام اہل السنہ جبل استقامت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو پیدا نہ فرماتے تو آج پوری امت فتنہ خلق قرآن میں مبتلا ہوتی۔ اسی طرح جب ہندوستان میں مرزا قادیانی کا فتنہ عروج پر تھا اگر اللہ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ کو پیدانہ فرماتے تو میں اسی رب کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ آج پوری امت فتنہ قادیانیت میں مبتلا ہوتی۔‘‘
میرا اگرچه مسلک سلف الصالحین والا ہے میں اس عالم کی قسم کو شریعت مقدسہ کے خلاف سمجھتا ہوں لیکن اس کے جذبات کا احترام کرتا ہوں کہ حقیقت کی عکاسی صحیح معنوں میں کی ہے۔

جھوٹ نمبر ۸

مرزا قادیانی نے ہندوستان کے کرشن کنہیا کو نبی ثابت کرنے کیلئے رسول ﷺ پر یہ افتراء پر دازی کی کہ آ نحضرت ﷺ یہ فرمایا ہے کہ :
’’كان في الهند نبيا اسود اللون اسمہ کا ھناً‘‘
یعنی ہند میں ایک نبی گزرا ہے جو سیاہ رنگ کا تھا اس کا نام کا نا تھا یعنی جس کو کرشن کہتے ہیں۔
(ضمیمہ چشمہ معرفت ص: ۰ اروحانی خزائن جلد ۲۳ص: ۳۸۲)
اس حدیث کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ اس ظالم نے اپنی جھوٹی نبوت ثابت کرنے کیلئے آنحضرت ﷺ کو بھی نہ بخشا۔

جھوٹ نمبر ٩

’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گذرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکھٹی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچادیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے۔ کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیر خواہ ہو جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں۔ ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔
’’ ( تریاق القلوب ص: ۲۷۔ ۲۸ ، روحانی خزائن ص : ۱۵۵،۱۵۶)
مرزا قادیانی کی پہلے تو اردودانی دیکھو کہ اس میں تکرار ہے، اردوادب سے تعلق رکھنے والے اصحاب دیکھیں تو امید واثق ہے کہ اس دجال پر اجتماعی شکل میں لعنتوں کا ایصال ثواب بھیجیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مرزا نے اپنی مذکورہ گفتگو میں انگریز کی حمایت کی ہے۔ یہ حمایت کیوں نہ کرتا پر وردہ جو اس کا تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ عرب ممالک مصر، شام، روم کی طرف کتب بھیجنا ، اس بات کو ثابت کرنا قادیانی امت پر قرض ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ جہاد کی ممانعت پر اس نے جو مہم چلائی وہ صرف یورپ کو خوش کرنے کیلئے ۔ کیونکہ اس نے اسے اپنا آقا جو تسلیم کیا تھا۔ وہ اس اسلام کا کیوں نہ مذاق اڑاتا جو اس کی خواہشات کے خلاف احکامات جاری کرتا ہے۔

جھوٹ نمبر ۱۰

’’ اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان کے حدیثوں پر عمل کرنا چاہئے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں مثلاً صحیح بخاری کی وہ حد یثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔ خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے۔ کہ آسمان سے اسکی نسبت آواز آئے گی کہ ھذا خلیفہ الله مهدی، اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایا اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے۔ جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے۔‘‘
حدیث دانی تو اہل الحدیث کا کام ہے مرزا جیسے جاہل کا حدیث کیساتھ کیا تعلق؟ یہ حدیث بخاری شریف تو در کنار کتب ستہ یا اس کے علاوہ کسی معتبر کتاب میں بسند صحیح ثابت کر دیں تو مان لیں گے کہ مرزا کبھی سچ بھی بولا تھا ور نہ سمجھیں گے کہ مرزا قادیانی، مجموعتہ الکذب ہے اور حیلے بازی میں شیطان لعین کا باپ دکھائی دیتا ہے۔
تلك عشرتہ كاملة۔
قارئین کی دلچسپی کیلئے بتاتا چلوں کہ جھوٹ کی خود مرزا قادیانی کے نزدیک کیا اہمیت ہے؟
مرزا قادیانی جھوٹ بولنے والوں کے متعلق کہتا ہے:
(۱) ’’ وہ کنجر جو ولدالزنا کہلاتے ہیں وہ بھی جھوٹ بولتے ہوئے شرماتے ہیں‘‘۔
(شحنہ حق : ۲/ ۱۲۰ مرزا قادیانی)
(۲) ’’جھوٹ بولنا اور گھوں (انسانی فضلہ یا کسی جانور کا فضلہ ) کھانا ایک برابر ہے‘‘۔
(حقیقۃ الوحی ص: ۶۰۲ مرزا قادانی)
(۳) ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں‘‘۔
(حاشیہ اربعین ص: ۱۲۴ نمبر ۳)
(۴) جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جاتے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔
(چشمه معرفت ۴ : ۲۲۲ مرزا قادیانی)
(۵)’’ جھوٹ ام الخبائث ہے۔‘‘
(اشتہار مرزا تبلیغ رسالت۔ جلد ۷ ص: ۲۸)
(۶) ’’ جھوٹ بولنے سے بد تر دنیا میں اور کوئی برا کام نہیں۔ ‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ص: ۴۵۹)
(۷) ’’جھوٹ کے مردار کو کسی طرح نہ چھوڑنا یہ کتوں کا طریق ہے نہ انسانوں کا۔ ‘‘
(انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ ص: ۴۳)
(۸) ’’ایسا آدمی جو ہر روز خدا پر جھوٹ بولتا ہے اور آپ ہی ایک بات تراشتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ یہ خدا کی وحی ہے جو مجھ کو ہوتی ہے ایسا بدذات انسان تو کتوں اور سوروں اور بندروں سے بدتر ہوتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ بر اہین احمدیہ روحانی خزائن: جلد ۲۱ص: ۲۹)
یہ تھے مرزا قادیانی کے اقوال اس پر میں کچھ تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ سابقہ دس اقوال کو سامنے رکھ کر اس کی شخصیت کا تجزیہ کریں امید ہے انشاء اللہ الرحمن سمجھ آجائے گا کہ کیا مرزا بھی نبی ہے ؟
قارئین کرام !
سابقہ صفحات میں مرزا قادیانی کے حوالہ سے جتنے بھی حوالہ جات قلمبند کئے گئے ہیں ان کی حیثیت مرزائیوں کے نزدیک بالکل صحیح ہے کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں کہ اس کے رجال میں کوئی نقص یا کلام پایا جاتا ہو۔
رب العالمین کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ ہمیں اس قبیح فتنہ سے بچائے اور جو لوگ اس مذہب باطل کے دام فریب میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو صراط مستقیم دکھائے۔ آمین یارب العالمین
کتابیات قرآن مجید – صحیح بخاری۔ صحیح مسلم۔ صحیح ابن خزیمہ۔ زادالمعاد فی ھدی خیر العباد ۔ منہاج السنہ ۔ الحکم لغير الله ما انزل الله – تلبیسں ابلیس ۔ حیات امام البانی۔ تحریک ختم نبوت اولین فتویٰ تکفیر ۔ فتویٰ علماء لدھیانہ رسائل مولانا ثناء اللہ امر تسری ۔ شہر سدوم۔ ثبوت حاضر ہیں۔ مرزائیت اور اسلام۔ جھوٹے نبی۔ ہندوستان کا نبی۔ آپ بیتی۔ سفر نامہ ۔ سیرت المہدی۔ روحانی خزائن ۔ سیرت نصرت جہاں بیگم۔ تذکرہ لاہوری جماعت۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل