مضمون کے اہم نکات:
قادیانیت:
یہ مرزا غلام احمد قادیانی کی جماعت ہے جنہیں مرزائی کہا جاتا ہے اور یہ اپنے آپکو احمدی کہتے ہیں ان کے چند خاص عقائد ذکر کر کے رد کیا جاتا ہے۔
عقیدہ ختم نبوت کا انکار
سلف سے لیکر خلف تک مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ چلا آ رہا ہے کہ محمد کریم ﷺ اللہ تعالی کے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ کے آنے سے نبوت کا سلسلہ ختم اور منقطع ہو گیا ہے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آیا اور نہ تا قیامت آئے گا، جو بھی کسی نئے نبی کے آنے کو جائز سمجھے یا کسی کو نبی کہے یا سمجھے تو ایسے شخص کو کافر کہنے کے بارے میں اب تک دو مسلمانوں نے بھی آپس میں اختلاف نہیں کیا ہے۔ ( الفصل في الملل والاهواء و النحل لابن حزم ۲۲۹/۳ ) اور جو کوئی رسول اللہ ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ جھوٹا اور دجال ہے۔
ان تصریحات کے باوجود چند ایسے جھوٹے شخص پیدا ہوئے جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور خوب مکر و فریب سے کام لیا، مگر بالآخر بموجب (إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا) وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچے۔ تقریباً ایک صدی پہلے متحدہ پنجاب کے شہر قادیان ضلع گورداسپور میں مرزا غلام احمد نامی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ وہ بھی بالآخر اپنے بد ترین انجام سے دو چار ہوا۔ شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسر ؒ نے اپنے اخبار ’’اہلحدیث ‘‘ امر تسر میں اس کی خوب تردید کی اور اس کے خیالات کی تکذیب ثابت کرتے رہے ثابت کرتے رہے اور اس کی حقیقت منکشف کرنے کیلئے متعدد کتابیں تصنیف کیں۔
مباہلہ کے ذریعے عبرتناک انجام
بالآخر مرزا نے تنگ آکر ایک اشتہار شائع کیا جس نے حق اور باطل کو ثابت کر کے رکھ دیا، یہاں بطور عبرت و موعظت مرزا قادیانی کا مذکورہ اشتہار من و عن تحریر کیا جاتا ہے۔
’’مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ ‘‘
بسم الله الرحمن الرحيم نحمدہ ونصلى على رسوله الكريم وَ یَسْتَنْۢبوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ۔
بخدمت مولوی ثناء الله صاحب۔ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ۔ مدت سے آپ کے پرچہ اہلحدیث میں میری تکذیب و تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ آپ مجھے اپنے اس پر چہ میں مردود، کذاب ، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری اور دجال ہے اور اس شخص کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا سراسر افتراء ہے۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ میں حق پھیلانے کے لئے مامور ہوں اور آپ بہت سے افتراہ میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف کرنے سے روکتے ہیں اور مجھے ان گالیوں اور تہمتوں اور ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہو سکتا۔ اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں، جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں، تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی عمر نہیں ہوتی۔ اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی نا کام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہے، تا کہ خدا کے بندوں کو ہلاک نہ کرے۔ اور اگر میں کذاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اللہ کے موافق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے، جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی الہام یا وحی کی پیش گوئی نہیں، بلکہ محض دعا کے طور پر ہیں۔ میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے، جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے۔ اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک! میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے آمین! مگر اے میرے کامل و صادق خدا! اگر مولوی ثناء اللہ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے، حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر ، مگر نہ انسانی ہاتھوں سے ، بلکہ طاعون وہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے، بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بد زبانیوں سے تو بہ کرے، جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے۔ آمین یارب العالمین۔ میں ان کے ہاتھوں بہت ستایا گیا اور صبر کرتارہا۔ مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بد زبانی حد سے گذر گئی۔ وہ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بد تر جانتے ہیں، جن کا وجود دنیا کے لیے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انہوں نے ان تہمتوں اور بد زبانیوں میں آیت لا تقف مالیس لک بہ علم پر بھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بد تر سمجھ لیا اور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلادیا کہ یہ شخص در حقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے۔ سواگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بداثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ ان ہی تہمتوں کے ذریعے سے میرے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے ، اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے اے میرے آقا! اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے، اس لئے میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیرے جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اللہ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے، اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھالے یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو، مبتلا کر۔ اے میرے پیارے مالک! تو ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ آمین۔ بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ میرے اس مضمون کو اپنے پر چہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں۔‘‘
الراقم عبدالله الصمد مرزا غلام احمد مسیح موعود عافاه الله وایده مر قوم یکم ربیع الاول ۱۳۲۵ ه ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء ( تاریخ مرزا، از شیخ الاسلام امرتسریؒ ص ۶۷، مجموعہ اشتہارات ج ۳ ص ۵۷۸ مطبوعہ ربوہ)
بعد ازاں قادیانیوں کے اخبار ’’ بدر ‘‘ قادیان میں مرزا کی روزانہ کی ڈائری اس طرح شائع ہوئی ہے:
ثناء اللہ کے متعلق جو لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں، بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ ایک دفعہ ہماری توجہ اس کی طرف ہوئی اور رات کو توجہ اس کی طرف تھی اور رات کو الہام ہوا کہ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ ۔ صوفیاء کے نزدیک کرامت استجابت دعا ہی ہے ، باقی سب اس کی شاخیں ہیں۔
( بدر، قادیان مورخه ۱۲۵ اپریل ۱۹۰۷ء)
قارئین ! ظاہر ہے کہ مرزا نے اللہ تعالی سے اس فیصلہ کن امر کے بارے میں دعا مانگی تھی اس لئے اللہ تعالی نے فیصلہ بھی فرمادیا ، چناچہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے دشمن شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کی زندگی ہی میں مورخہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء بمطابق ۲۴ ربیع الاول ۱۳۲۶ ھ دستوں کی بیماری میں آں جہانی ہو گیا ( ضمیمہ اخبار قادیان الحکم مورخہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء) جب کہ شیخ الاسلام فاتح قادیان مولانا شاء اللہ امرتسری رحمہ اللہ اس کے بعد چالیس سال تک مزید اسلام کی ترویج واشاعت کرتے ہوئے ایک قابل رشک زندگی گزارنے کے بعد سن ۱۹۴۸ء بمطابق ۱۳۶۷ ھ سرگودھا شہر میں فوت ہوئے۔
لکھا تھا کہ کاذب مرے گا پیشتر
کذب میں پکا تھا ، پہلے مر گیا
آیات میں معنوی تحریف
مرزا کاذب کے حواریوں نے اس مشہور اور مسلمہ اسلامی عقیدے کو مٹانے کیلئے بڑے بڑے مکرو فریب کئے اور عقیدہ ختم نبوت کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے جاری رکھنے کے لئے قرآن و حدیث میں معنوی تحریف کی ناپاک جسارت کی، قرآن مجید کی چند آیات کو خصوصی طور پر ہدف بنایا، ان آیات کا تفصیلی جواب ان شاء اللہ ہماری تفسیر بدیع اتفاسیر میں اپنے موقع پر دیا جائے گا۔ یہاں بتلانا یہ مقصود ہے کہ سورۃ فاتحہ کی اس آیت ( صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ – – – ) سے یہ لوگ معنوی تحریف کرتے ہوئے استدلال کرتے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے : ’’ انعام یافتہ گروہ کی چار قسمیں ہیں، نبی، صدیق، شہید اور نیک صالح لوگ۔ اس دعا میں ہم اللہ سے اس چیز کی درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں بھی انعام یافتہ لوگوں میں شامل فرما تو اس کا مطلب ہے کہ نبوت کا سلسلہ جاری ہے وگرنہ دعامانگنا کار عبث ہے‘۔
انبیاء کی جماعت میں شامل ہونے کا ذکر نہیں
الجواب:- اولاً:-
یہاں اس جماعت میں شامل ہونے کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس جماعت کے ساتھ ہونے یعنی ان کی معیت کا ذکر ہے۔ اس دعا میں تو ان کے راستے پر چلنے کی توفیق مانگی گئی ہے، نایہ کہ نبی بننے کی درخواست کی گئی ہے بنا بریں یہ راستہ تو اللہ کا ہی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
وَ اِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(52)صِرَاطِ اللّٰهِ الَّذِیْ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ (الشوری: ۵۲-۵۳ )
اور بے شک آپ ﷺ ( صراط مستقیم کی رہنمائی کر رہے ہیں ، اس اللہ کی راہ کی جس کی ملکیت میں ہے جو کچھ آسمانوں و زمیں میں ہے:
وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا (الانعام : ۱۵۳)
’’اور بے شک یہی میرا سیدھا راستہ ہے ‘‘ پھر کیا اس دعا میں یہ بھی درخواست ہے کہ ہمیں الوہیت عطا کی جائے ؟ حا شاء وکلا۔
ثانیاً:
بلکہ اللہ تعالیٰ راستہ مقرر فرمانے والا ہے اور اس کا پتہ چلانے والے انبیاؑ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ختم کر دیا ہے۔
انبیاء کے ساتھ معیت قیامت میں حاصل ہوگی
ثالثاً:
جس آیت میں انعام یافتہ جماعتوں کا ذکر ہے، یعنی:
فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا (النساء: ٢٩)
وہ ان لوگوں کے ساتھ ہونگے جن پر اللہ نے انعام کیا ، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین‘‘ ۔ تو یہ معیت تو قیامت میں حاصل ہو گی اور وہاں کسی نئی نبوت کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
انبیاء ؑ اس دنیا میں آئے اس لئے اس آیت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ محض مرزائیوں کا مغالطہ اور دھوکہ ہے۔
نبوت کا حصول دعاؤں و التجاؤں سے نہیں ہے
رابعاً:
نبوت کا حاصل ہونا دعائوں اور التجائوں پر نہیں رکھا گیا ہے بلکہ خود نبی کو اپنے بارے نبی ہونے کا وہم و گمان نہیں ہوتا ہے اور نہ امید و آسرا ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:
وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ (القصص: ۸۲ )
آپ (ﷺ) کو تو کبھی اس کا خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ کی طرف کتاب نازل کی جائے گی‘‘۔ اس لئے یہ استدلال بالکل غلط ہے۔
خامسًا:
دراصل یہ کافروں کا کہنا تھا کہ ہم نبی کو تب مانیں گے جب ہمیں بھی وہ کچھ ملے جو ان کو ملا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا کہ یہ بات تمہاری مرضی کے مطابق نہیں ہے مگر پروردگار خود جس کو اس قابل سمجھے اسے نبوت عطا کرتا ہے:
قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰى نُؤْتٰى مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰهِ ﲪ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗؕ (الانعام: ۱۲۴)
’’وہ کہتے ہیں کہ ہم ہرگزایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ہمیں بھی ایسی چیز نہ دی جائے جو رسولوں کو دی جاتی ہے، اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اس نے رسالت کہاں سونپنی ہے‘‘ تو جب اللہ تعالٰی نے نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا تو پھر کس بات کی تمنا یا اس کے لئے دعا !!! وہو السادس۔
تين سلسلوں کا جاری رہنا
سابعاً:
اللہ تعالٰی نے اس کے علاوہ تین قسم کے سلسلوں کے باقی رہنے کا ذکر فرمایا ہے۔ جیسے ارشاد ہے:
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَ الشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْؕ (الحديد: ١٩)
’’الله اور اس کے رسول پر جو ایمان رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں‘‘ ۔
نیز فرمایا:
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِى ٱلصَّٰلِحِينَ (العنكبوت: ٩)
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے انہیں میں اپنے نیک بندوں میں شمار کر لوں گا‘‘۔
معلوم ہوا کہ صدیق، شہید اور صالح اس امت میں ہوتے رہیں گے مگر نبوت کیلئے ایسا نہیں کہا بلکہ فرمایا کہ:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ (الاحزاب : ۴۰)
’’(لوگو! ) محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں‘‘۔
ادعیه بے شمار ہیں
ثامناً:
اگر ان سارے جوابات سے اغماض کیا جائے تو بھی اتنا کافی ہے کہ قرآن کریم میں اور احادیث مبارکہ میں بیشمار دعائیں ہیں، ہر چھوٹے اور بڑے مطلب کیلئے دعا کا ذکر ہے۔ کسی نے علم مانگا ہے تو کسی نے بادشاہی، کسی نے اولاد تو کسی نے بیماری سے شفاء‘ کسی نے ہدایت طلب کی ہے، کسی نے دشمن سے پناہ مانگی ہے، کسی نے مشکل کا حل طلب کیا ہے، کسی نے مصیبت سے خلاصی مانگی ہے۔ مگر کسی نے بھی نبوت نہیں مانگی ہے۔ پھر جب کہ خود انعام یافتہ لوگوں نے یہ چیز طلب نہیں کی تو دوسروں کیلئے وہ مراد لینا کس طرح صحیح ہو گا؟۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی نبوت فاتحہ کے نزول سے پہلے ہے
تاسعاً:
سورۃ فاتحہ کے نزول سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو نبوت مل چکی تھی، پھر اگر اس دعا میں نبوت طلب کی جارہی ہے تو پھر آپ ﷺ نے کس چیز کی دعا مانگی اور ایسا کہنا بھی صحیح نہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مجھے نبوت پر قائم رکھ۔ کیو نکہ اللہ تعالی کسی کو نبوت دے کر پھر واپس نہیں لیتا اور واپس اس سے لی جاتی ہے جو نالائق ثابت ہو اور یہ اللہ تعالٰی کے علم کے خلاف ہے کہ وہ ایسے شخص کو نبوت دے کہ بعد میں اس کے نااہل ہونے کی خبر ہو۔ اور نہ ہی ایسا کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ یا کسی دوسرے نبی کو نعوذ باللہ کوئی اپنے بارے میں شک تھا کہ کہیں بعد میں نبوت نہ چھین لی جائے، حاشاللہ
الحاصل:
رسول اللہ ﷺ کو نبوت بغیر دعا مانگنے کے ملی اور اس دعا سے مراد نبوت مانگنا نہیں ہے، وہو العاشر
کیا یہ دعا مانگنے والے سب نبی ہیں؟
والحادی عشر:
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ، چاروں خلفاء اور دوسرے سارے صحابہ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے اور یہ دعا مانگتے رہے مگر ان میں سے کوئی بھی نبی نہیں ہوا ثابت ہوا کہ اس میں نبوت کیلئے دعا نہیں مانگی جارہی بلکہ نبی ﷺ کے طریقے پر چلنے کیلئے دعامانگی جاری ہے۔ بنا بریں انہیں واقعی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایسی نعمت علیٰ وجہ التمام حاصل تھی اور بصورت دیگر مرزائیوں کے کہنے کے مطابق اس میں اگر نبوت کا طلب کرنا ہے پھر سوچنے کی بات ہے کہ جب ایسی دعا صحابہ کی قبول نہیں ہوئی تو مرزا قادیانی اور اس کے حواری ایسا خواب کس طرح دیکھتے ہیں ؟ بلکہ اگر ایک صحابی کی دعا قبول نہ ہوتی تو دوسری بات تھی، بلکہ صحابہ کی پوری جماعت کی دعا قبول نہ ہو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں عطائے نبوت کیلئے دعا نہیں مانگی گئی ہے اور نہ صحابہ کرام نے ایسی کوئی دعامانگی ہے۔ حاشا ہم اللہ من ذالک اور نہ ہی یہ دعامانگنے جیسی ہے۔ کیونکہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ وہو الثانی عشر،
یه دعا مانگنے والی عورتیں بھی نبی ہیں؟
والثالث عشر :
اس امت میں سلف سے لیکر خلف تک، زمانہ نبوت سے آج تک مسلمان عورتیں بھی یہی دعا پڑھتی رہتی ہیں اور نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھتی ہیں مگر اب تک کوئی بھی عورت نبوت کے درجے پر فائز نہیں ہوئی ہے۔ ثابت ہوا کہ یہ صرف مرزائیوں کی من گھڑت دلیل ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
مرزا کی آدھی دعا مردود!
والرابع عشر:
جس طرح نبوت ایک نعمت ہے اسی طرح بادشاہت اور حکومت بھی نعمت ہے پھر گراس دعا میں مطلوب نعمت سے مراد دوسری نعمتوں کے ساتھ ساتھ نبوت بھی ہے اور مرزا قادیانی نے بھی یقیناً یہی دعا پڑھی ہو گی تو اس طرح مرزا کی آدھی دعا قبول ہوئی اور آدھی مردود ہوئی۔ کیونکہ اس کے اسد گمان کے مطابق اس کو نبوت ملی اور بادشاہت نہیں ملی، وہ تادم آخر انگریزوں کا غلام ہی رہا۔
نبوت کی ضرورت ہی نہیں ہے
والخامس عشر:
نبوت نعمت ہے تو نبوة مع الشریعتہ ڈبل نعمت ہے اور مرزائی یہ کہتے ہیں کہ مرزا قادیانی، صاحب شریعت نبی نہیں بلکہ ظلی، بروزی اور شریعت محمدی کی تکمیل اور توضیح کرنے والا نبی ہے۔ پھر مرزا قادیانی کیو نکر اس ڈبل نعمت سے محروم رہا۔ اگر کہیں گے کہ شریعت تو قرآن کریم کی تکمیل کے ساتھ ہی مکمل ہو گئی ہے اس لئے اس کے بعد دوسری شریعت کی ضرورت نہیں ہے تو پھر ہم کہیں گے کہ جس نبی کی شریعت مکمل ہے ان کے بعد دوسرے نبی کی ضرورت بھی نہیں۔ قرآن مجید کی جامعیت اور اس کے مضامین سے بھی ظاہر ہے اس کو نازل کرنے والا رب العالمین جو تمام حمد و ثناء کا لائق ہے اس نے کس طرح ایسا قانون بھیجا جس کے بعد کسی دوسرے قانون یا نبوت کی ضرورت محسوس ہوئی ؟ اس لیئے نئی نبوت یا رسالت کا علم بلند کرنا قانون الاہی سے سراسر بغاوت اور مالک یوم الدین کا کفر ہے۔
والسادس عشر:
ان سارے جوابات سے ہم صرف نظر کریں تو بھی مرزائیوں کا یہ استدلال نص نہیں ہے، نہ استنباط نہ عبارة النص‘ نہ دلالتہ انص‘ نہ اشارة النص‘ نہ اقتضاء النص۔
والسابع عشر:
اگر لغایتہ ہم اتنا قبول کریں تب یہ استنباط ہے مگر نص (دلیل) تو ہر گز نہیں ہے اور ختم نبوت جیسے عقیدے کی بابت صریح اور روشن نصوص موجود ہیں اور خود مرزا قادیانی ’’ازالہ اوہام‘‘ ص ۳۰۷ میں آیت خاتم النبیین کی معنی میں لکھتا ہے کہ ” ختم کرنے والا نبیوں کا۔ اور نص کے مقابلے میں استنباط مردود اور نا قابل قبول ہے۔
یه دعا کسی خاص فرد کے لیئے نہیں ہے
والثامن عشر:
یہ دعا کسی خاص فرد کیلئے نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان پڑھتارہتا ہے حتی کہ گنہگار اور فاسق فاجر سب پڑھتے رہتے ہیں، پھر کیا سارے ہی نبی ہونگے ! جب سارے ہی نبی ہونگے تو پھر امتی کون ہو گا؟
والتاسع عشر:
ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے:
التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ »ٍ. (جامع ترمذی کتاب البیوع باب ما جاء فی التجار و تسمیتہ النبی ﷺ ایا ہم : ۱۲۰۹)
یعنی سچا اور امانتدار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا اور اس آیت میں بھی ہے کہ :
فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ (النساء:۲۹)
پھر مرزائیوں کے استدلال کے مطابق آج تک کوئی بھی تاجر نبی نہیں ہوا ہے۔ ثابت ہوا کہ مرزائی استدلال غلط ہے۔
کلمه ’’مع‘‘ سے دھوکا
الموفى للعشرين:
در اصل مرزائی کلمہ ’’ مع ‘‘ سے دھوکہ دیتے ہیں مگر صاف سمجھنا چاہئے کہ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ وہ نبیوں کے درجے کو پہنچ جائینگے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کی رفاقت میں رہیں گے۔ خود آیت میں اس کی تشریح کی گئی ہے کیونکہ سورۃ النساء والی سابقہ آیت میں مزید اس طرح ہے کہ : ’’وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاﭤ‘‘ اور ان لوگوں کی رفاقت بہترین ہے ۔
الحاصل:
مرزائیوں کا استدلال انتہائی بودا اور فرسودہ ہے۔ خود مرزا قادیانی بھی یہ معنی نہیں لیتا، چنانچہ اپنی کتاب ’’ تحفہ گولڑویہ ص ۱۲۳ میں لکھتا ہے کہ :
پس جب تم نماز میں یا خارج نماز کے یہ دعا پر ھو : اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ عَلَيْهِم تو دل میں یہی ملحوظ رکھو کہ میں صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت کی راہ طلب کر تاہوں۔‘‘ ثابت ہوا کہ ، مرزا قادیانی نے بھی ایسا معنی مراد نہیں لیا جو اس کے اندھے پیش روؤں نے کیا ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ :
جسے نواسہ سمجھا وہ نا نا نکلا
یہ مرزائیوں کی اپنی ذہنی اختراع تھی جس کی حقیقت واضح کی گئی۔ والله الموفق والهادي إلى سواء السبيل
مرزا قادیانی کو نبی ماننا
اس فرقہ کے لوگ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں اوپر مذکور عقیدہ کی تردید سے اس کی بھی تردید ہو گئی۔ ثانیا مرزا قادیانی سے بعض ایسے امور سرزد ہوئے جنہیں ایک نبی تو کیا بلکہ ایک شریف آدمی بھی تسلیم نہیں کر سکتا مثلاً: جھوٹ بولنا:
مرزا قادیانی کے صریح جھوٹ
شہادت الملهمین ص ۳۴ میں مرزا لکھتا ہے کہ :
دیکھو! خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں صاف فرمایا ہے کہ جو میرے پر افتراء کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں۔ اسکو مہلت نہیں دیتا‘‘۔
یہ واضح جھوٹ ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہیں بھی اس طرح نہیں فرمایا بلکہ مفتری کے لیئے مہلت کا ذکر فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہے:
قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ (69) مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ (70) (يونس)
آپ کہہ دیجئے کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ افترا کرتے ہیں وہ کامیاب نہ ہوں گے۔ یہ دنیا میں تھوڑا سا عیش ہے پھر ہمارے پاس ان کو آنا ہے پھر ہم ان کو ان کے کفر کے بدلے عذاب چکھائیں گے۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی پر افتراء کرنے والے کو وہ دنیا میں مہلت دیتا ہے۔
ازالہ اوہام ص ۲۵۲ طبع اول۔ ص ۰۳ اطبع دوم میں لکھتا ہے کہ :
آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی تو آپ نے فرمایا کہ آج کی تاریخ سے سو برس سے تک تمام بنی آدم پر قیامت آجائے گی‘‘
یہ بھی سفید جھوٹ اور رسول اللہ ﷺ پر بہتان ہے کسی بھی حدیث میں یہ الفاظ موجود نہیں۔ مرزا قادیانی اربعین ص ۲۲-۲۳ میں لکھتا ہے:
’’انبیاء گذشتہ کے کشوف نے اس بات پر مہر لگادی ہے کہ وہ (مسیح موعود) چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہوگا اور نیز یہ کہ پنجاب میں ہوگا‘‘ یہ بھی کھلا جھوٹ ہے کسی نبی سے اس طرح کا کشف مروی نہیں ہے۔
شهادة القرآن ص ۲۰ طبع اول۔ ص ۲۱ طبع دوم میں لکھتا ہے کہ :
”بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس (مسیح موعود خلفیہ) کے لیے آواز آئے گی ھذا خلیفة الله المهدی‘ یہ بھی قطعی طور پر جھوٹ ہے صحیح بخاری اول تا آخر پوری پڑھ لیجئے اس میں ایسا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔
نصرة الحق ضمیمه ص ۳۳۴ طبع اول ص ۲۳۰ طبع دوم میں کہتا ہے کہ :
’’ تفسیر ثنائی میں لکھا ہے کہ ابوہریرہ فہم قرآن میں ناقص تھا اور اسکی روایت پر محدثین کو اعتراض ہے ابو ہریرہ میں نقل کرنے کا مادہ تھا اور دروایت اور فہم سے کم ہی حصہ رکھتا تھا۔
یہ بھی عظیم جھوٹ ہے تفسیر ثنائی میں ایسی کوئی عبارت موجود نہیں ہے۔
مرزا حقیقۃ المہدی ص ۸ میں لکھتا ہے کہ :
’’ تین ہزار یا اس سے بھی زیادہ اس عاجز کے الہامات کی مبارک پیشگوئیاں جو امن عامہ کے مخالف نہیں پوری ہو چکی ہیں‘‘
راقم الحروف کہتا ہے کہ یہ کتاب حقیقۃ الوحی نہ ۱۸۹۹ء میں چھپی ہے اور اس سے تقریباًدء میں رسالہ ’’ایک غلطی کا ازالہ“ ص ۷ میں لکھتا ہے کہ :
پس میں جبکہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیش گوئی کے قریب خدا کی طرف سے پا کر بچود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہو گئیں‘‘
ناظرین:
غور کریں کہ یہاں مرزا خود ہی اپنا جھوٹ ظاہر کر رہا ہے اب دیکھیں مرزا خود جھوٹے شخص کے لئے کیا کہتا ہے؟ چنانچہ چشمہ معرفت ص ۲۲۲ میں کہتا ہے:
’’ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا“
حاشیہ اربعین ص ۴۴ میں لکھتا ہے:
جھوٹ بولنامرتد ہونے سے کم نہیں“ اور حقیقۃ الوحی ص ۲۰۶ میں کہتا ہے:
’’جھوٹ بولنا اور گوھ کھانا ایک برابر ہے
" نصرة الحق ص ۱۰ میں شعر لکھتا ہے کہ
لعنت ہے مفتری خدا کی کتاب میں
عزت نہیں ہے ذرہ بھی اسکی جناب میں
قارئین:
غور فرمائیں کہ مرزا اپنے ہی فیصلے کے مطابق مغضوب علیہم کی جماعت میں شامل ہےچجائیکہ اسے ایک شریف انسان یانبی قرار دینا تو دور کی بات ہے۔
مرزا قادیانی کی اسلام کے خلاف صریح کفریہ باتیں
اس کے علاوہ مرزا قادیانی کی صریحا اسلام کے خلاف باتیں بھی ہیں چنانچہ
انجام آتھم ص ۱۷۶‘‘ میں لکھتا ہے کہ :
اعلموا ان فضل الله معى وان روح الله ينطق فى نفسی ”
جان لو کہ اللہ ، فضل میرے ساتھ ہے اور اللہ کی روح میرے نفس میں بولتی ہے “
اربعین ص ۳۴ حاشیہ ۴ میں اپنا الہام لکھتا ہے کہ :
” انت منی بمنزلة اولادی، یعنی تم میرے نزدیک میری اولاد کی طرح ہو
” آئینہ کمالات ص ۵۹۵ لکھتا۔ ہے کہ:
"میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں میں نے یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں“
اور خطبہ نہ الہامیہ ص ۲۳“ میں لکھتا ہے کہ :
” اعطیت صفة الاحياء والاقتناء من الرب الفعال،
یعنی مجھے اللہ تعالی کی طرف سے مارنے اور زندہ کرنے کی صفت عطا کردہ ہے۔
حقیقۃ الوحی ص ۲۳ “ میں لکھا ہے کہ :
’’اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْــٴًـا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ‘‘
یعنی اے مرزا تیری تو یہ صفت ہے کہ جس چیز کا توارادہ کرے کہ وہ ہو جائے تو تیرے لفظ کن کہنے سے وہ ہو جائے گی۔ وغیرہ وغیرہ
یہ تمام کفریہ عقائد ہیں جو کسی بھی مسلمان کے نہیں ہو سکتے تو پھر ایک ایسے عقیدے کا حامل شخص نبی کیسے بن سکتا ہے ؟ حالانکہ رب العالمین کی ربوبیت میں مارنا اور زندہ کرنا شامل ہے جس میں اسکا کوئی بھی شریک نہیں وہ سب کا مالک ہے باقی سب اسکی ملکیت اور اس کے بندے ہیں تو ایک بندے میں خدائی صفات کیسے ہو سکتی ہیں اور وہ اپنے اندر ایسی صفات کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے ؟ جبکہ خود مرزا اللہ تعالی کے حکم کن سے پیدا ہوا تو پھر وہ ایسا دعویٰ کیسے کر رہا ہے۔
مرزا کی بدزبانی اور بدکلامی
نیز مرزا قادیانی کی بدزبانی اور بد کلامی سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک با اخلاق انسان بھی نہ تھا تو وہ نبی کیسے بن سکتا ہے؟
چنانچہ آئینہ کمالات ص ۵۹۷ طبع اول ص ۴۳۵ طبع دوم میں مرزا کہتا ہے کہ :
كل مسلم يقبلنی في ويصدق دعوتی الاذرية المغایا۔
یعنی کنجریوں کی اولاد کے علاوہ باقی سب مجھے قبول کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں۔
’’ نجم الہدی ص ۱۰‘ میں لکھتا ہے:
ان العدى صار و خنازير الفلاة ونسائهم من دونهن الاكلب۔
یعنی میرے تمام مخالفین جنگل کے خنزیر اور ان کی عور تیں ان سے بد ترکتیاں ہیں
’’ضمیمہ انجام آتھم ص ۵۸‘‘ لکھتا ہے کہ :
بدبخت مفتریو! یہ وحشی فرقہ کیوں شرم و حیا سے کام نہیں لیتا مخالف مولویوں کا منہ کالا‘‘۔
’’ضمیمه نصرة الحق ص ۱۲۰‘ میں لکھتا ہے:
’’ بعض نادان صحابی ‘‘
’’اعجاز احمد‘‘ ص ۷۱ میں لکھا ہے:
ابو ہریرہ غبی تھا درایت اچھی نہیں رکھتا تھا‘
مولانا نذیر حسین محدث دہلوی کے بارے میں ’’انجام آتھم‘‘ ص ۳۰ میں نالائق اور ’’مواہب الرحمان ص ۱۲۷‘‘ میں ”مات ضال ھائما‘‘ یعنی گمراہ ہو کر مر گیا لکھا ہے۔
مولانا ثناء اللہ صاحب کو ’’ تتمہ حقیقۃ الوحی‘‘ ص ۲۶ میں ابو جہل اور ’’ حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ‘‘ ص ۲۵ ’’کتے مردار خور ‘‘ کہتا ہے۔
اسی طرح مولوی سعد اللہ لدھیانوی کے متعلق ’’ ضیاء الحق‘‘ ص ۳۰ میں ہند وزادہ اور انجام آتھم ص ۸۲۔۲۸۱ میں :
غول لتیم فاسق، شیطان ملعون، نطفہ سفاء، خبیث، مفسد ، مزور، منحوس، لکھا ہے اور مولانا محمد حسین بٹالوی کے بارے میں ”ضیاء الحق” ص ۱۳۳ میں کہتا ہے
’’ پلید ، بے حیاء، اور مولوی عبد الحق عزنوی کے متعلق ضمیمہ انجام آتھم ص ۵۸ میں شیطان کے بندے‘‘ لکھا ہے ، اس طرح کی کئی مثالیں مزید بھی ہیں۔
تو اتنا سخت بد گوء انسان جو کسی اچھی محفل میں بیٹھنے کے بھی لائق نہیں ہے وہ اللہ کا نبی کیسے بن گیا بلکہ یہ راستہ صراط مستقیم سے ہٹ کر ہے، انعمت علیہم کی تفسیر میں مولاناثناء اللہ امرتسری کے مقابلے میں جس اشتہار کاذکر ہوا جسمیں اس نے اپنے لیٔے اللہ تعالی کے غضب کی دعا کی اور بالآخر اسکا شکار بھی و چکا جس سے صاف ظاہر ہوا کہ مرزا مغضوب علیہم میں داخل ہے پھر اس کے حواری اور جماعتی اسکی نبوت کا خواب کیسے دیکھ رہے ہیں؟
مرزائیوں کا ایک عذر
مرزائی یہاں ایک عذر پیش کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی الگ سے صاحب شریعت نجا نہ تھا بلکہ اس شریعت کا اظہار اور تشریح کرنے والا ہے۔
اولاً:
مرزا سے پہلے کئی صدیاں گذر چکیں مسلمان شریعت پر عمل کرتے رہے اگر شریعت ظاہر نہ ہوتی اور اس میں کسی قسم کی تشریح کی ضرورت ہوتی تو وہ کس طرح عمل کرتے ؟ ثابت ہوا کہ یہ مرزائیوں کا ڈھونگ، مکر اور قریب ہے جس کا صراط مستقیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ثانیاً:
یہ بات بلکل واضح ہے کہ اللہ تعالٰی نے رسول اللہ ﷺ کے ذریعے شریعت کی تشریح کو بھی مکمل کر دیا ہے تو مرزا صاحب کی یہ تشریح در حقیقت تحریف اور مالک یوم الدین سے کھلی بغاوت ہے۔
حیات عیسیٰ علیہ السلام کا انکار
مرزائیوں کا یہ مشہور عقیدہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور دوبارہ دنیا میں تشریف نہیں لائیں گے۔
اولاً:
جس چیز کی اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور رسول اللہ ﷺ کی زبانی احادیث میں تصریح فرمادی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوۓ بلکہ زندہ ہیں اور دو بارو دنیا میں تشریف لائیں گے اس تصریح کے بعد بھی اس کے خلاف عقیدہ رکھنا اور مخلوق خدا کو اسکی دعوت دینا اللہ تعالی کی قدرت کاملہ میں شک کرنا ہے جس سے نظام ربوبیت و مالکیت پر حرف آتا ہے اور مالک یوم الدین سے بغاوت ہے
ثانیا:
حیات عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے اس لیئے اس کے خلاف عقیدہ رکھنا مغضوب علیھم اور الضالین کی راہ ہے۔
عقیدہ حیات مسیح علیہ السلام کی مکمل تفصیل ہم نے اپنی تفسیر بدیع التفاسیر میں سورۃ آل عمران، النساء اور المائدہ کی تفسیر میں ذکر کر دی ہے۔
(ماخوذ من بدیع التفاسیر )