مرد کی دیت زیادہ ہونے کا اعتراض اور اس کی وضاحت
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مرد کی دیت کا زیادہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام مرد کو عورت سے افضل قرار دیتا ہے، حالانکہ یہ مفروضہ غلط ہے۔ دیت کا تعلق شرعی یا انسانی فضیلت سے نہیں بلکہ خاندانی نظام کے مالی معاملات اور ذمہ داریوں سے ہے۔
مرد کی دیت زیادہ کیوں ہے؟
◈ اسلامی خاندانی نظام میں مرد کو گھر کی مالی کفالت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
◈ اگر مرد قتل ہو جائے تو اس کے مرنے سے گھر کے مالی معاملات زیادہ متاثر ہوتے ہیں، اس لیے مرد کی دیت زیادہ رکھی گئی ہے۔
◈ یہ اس نقصان کا ازالہ ہے جو خاندان کو معاشی طور پر اٹھانا پڑتا ہے۔
عورت کا خرچ اٹھانے کی صورت میں دیت کا معاملہ
◈ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر عورت گھر کا خرچ اٹھا رہی ہو تو کیا اس کی دیت پوری ہونی چاہیے؟
◈ جواب: شریعت کے مطابق عورت پر گھر کے خرچ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی، چاہے وہ ملازمت کرتی ہو یا نہیں۔
◈ اگر عورت گھر کے اخراجات میں حصہ ڈالتی ہے تو یہ اس کا احسان ہے، اور اس کا ثواب اسے ضرور ملے گا، لیکن شرعی قانون میں یہ بات برقرار ہے کہ مالی کفالت مرد کی ذمہ داری ہے۔
دیت کا حقیقی فائدہ کس کو ہوتا ہے؟
◈ عورت کی دیت پر اعتراض کرنے والوں سے ایک سوال کیا جا سکتا ہے:
◈ جب عورت قتل ہو جاتی ہے اور اس کی نصف دیت دی جاتی ہے تو کیا یہ رقم اس کی قبر میں دفن کر دی جاتی ہے یا اس کے شوہر یا خاندان کو دی جاتی ہے؟
◈ اسی طرح، جب مرد قتل ہوتا ہے اور پوری دیت دی جاتی ہے، تو کیا یہ رقم اس کی قبر میں ڈال دی جاتی ہے یا اس کی بیوہ اور بچوں کو ملتی ہے؟
اصل فائدہ عورت کو ہی پہنچتا ہے
◈ مرد کے قتل کی صورت میں اس کی دیت زیادہ ہونے کا اصل فائدہ بھی اکثر اس کی بیوہ یا خاندان کو ہی پہنچتا ہے۔
◈ اس لیے بظاہر نقصان مرد کو ہوتا ہے لیکن فائدہ عورت یا خاندان کو ہی پہنچتا ہے۔