سوال:
آج کل مختلف امراض کے لیے ایسے تیل تیار کیے جاتے ہیں جن میں مردہ بچھو یا سانپ وغیرہ کی چربی استعمال کی جاتی ہے۔ کیا ایسے تیل سے مالش کرنا درست ہے؟ کیا یہ تیل نجس ہوگا؟ اگر یہ جسم پر لگا ہو تو کیا نماز پڑھی جا سکتی ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
عمومی رہنمائی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف وسائل اور ذرائع فراہم کیے ہیں، اور شریعت کا حکم ہے کہ مشکوک چیزوں سے اجتناب کیا جائے۔
مشکوک چیزوں سے اجتناب:
- شریعت ہمیں شک اور شبہ والی چیزوں سے دور رہنے کا حکم دیتی ہے۔
- تیل میں جانوروں کی چربی کے متعلق جو دعوے کیے جاتے ہیں، وہ اکثر غیر مصدقہ اور محل نظر ہوتے ہیں۔
تیل کے دعوے:
- یہ بات واضح نہیں ہے کہ کیا یہ تیل واقعی ان جانوروں سے کشید کیا گیا ہے یا نہیں۔
- دعوے کی حقیقت کی تصدیق کیے بغیر ایسے تیل کو رواج دینا درست نہیں۔
شرعی اصول اور احکام
استعمال کا جواز:
اگر یہ تیل واقعی ان جانوروں کی چربی سے بنایا گیا ہے، اور کسی ماہر طبیب نے اسے مرہم یا بیرونی استعمال کے لیے تجویز کیا ہے، تو اس کا استعمال "ایکسٹرنل یوز” کے طور پر جائز ہے۔
تجارت اور رواج دینا:
- ایسے تیل کو تجارت یا صنعت کی شکل دینا اور اس کی خرید و فروخت کو عام کرنا درست نہیں۔
- البتہ ضرورت کے وقت اس کو بنایا یا خریدا جا سکتا ہے، کیونکہ مجبوری کے احکامات شریعت میں الگ ہیں۔
نجاست کے حوالے سے
نجاست کے لیے دلیل ضروری ہے:
کسی چیز کو نجس قرار دینے کے لیے واضح شرعی دلیل کی ضرورت ہے۔
موجودہ حالات میں ان تیلوں کی نجاست کے حق میں کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں۔
ضرورت کے اصول:
اگر ان تیلوں کو نجس مانا جائے تو بھی مجبوری کی حالت میں ان کا استعمال جائز ہوگا، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"فَمَنِ اضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ” (سورۃ البقرہ: 173)
"پھر جو مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔”
اصولی قاعدہ: "الضرورات تبيح المحظورات”
"ضرورتیں ممنوع چیزوں کو مباح کر دیتی ہیں۔”
نماز کے احکام
اگر تیل نجس ہو:
بحالت مجبوری اسے لگانا درست ہے، لیکن نماز سے قبل اس کو جسم سے صاف کرنا ضروری ہوگا۔
اگر تیل نجس نہ ہو:
اگر تیل کو نجس نہیں سمجھا جاتا تو نماز کے لیے اسے صاف کرنا ضروری نہیں اور اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
مزید تفصیل کے لیے
- "بداية المجتهد”
- امام نووی رحمہ اللہ کی "المجموع”