سوالات کی حد اور سوچ کا زاویہ
مذہب اور سائنس دونوں مختلف فکری سانچوں (paradigms) پر مبنی ہیں، لیکن ایک خاص مقام پر دونوں کا رویہ سوالات کے حوالے سے یکساں ہو جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں مذہب شیطانی وسوسوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور سائنس بعض سوالات کو غیر ضروری قرار دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اگر شیطان تمہارے دل میں یہ وسوسہ ڈالے کہ خدا کو کس نے پیدا کیا، تو فوراً اللہ کی پناہ مانگو اور اس خیال میں غور و فکر نہ کرو۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان وما یقولہ من وجدھا، دار احیاء التراث العربی، بیروت 1/120)۔
اسی طرح مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے کہا کہ "بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟” یہ ایک غیر متعلقہ سوال ہے، کیونکہ وقت اور مکان کا آغاز بگ بینگ سے ہوا۔
((The Grand Design; p.109))۔
لیکن اگر یہی رویہ مذہب خدا کے وجود کے بارے میں اختیار کرے تو اسے غیر سائنسی کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
مذہب اور خدا کے وجود پر دلائل
ملحدین اس بنیادی حقیقت کو سمجھنے میں ناکام ہیں کہ مذہب خدا کے وجود کے لیے تجرباتی شواہد (Empirical Evidence) پیش نہیں کرتا بلکہ دلائل اور فطری شہادتوں کو بنیاد بناتا ہے۔
استنباط کی مثال:
استنباط کا مطلب ظاہر سے مخفی تک پہنچنا ہے، جیسے نیوٹن نے سیب گرنے سے کشش ثقل کو دریافت کیا، حالانکہ کشش ثقل کو براہِ راست دیکھا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح آفاق و انفس کی نشانیاں خدا کے وجود کو ثابت کرتی ہیں، اور یہی استنباط مذہب کی دلیل ہے۔
ایمان بالغیب اور سائنسی نظریات:
آج کی سائنس بھی ناقابل مشاہدہ اشیاء جیسے انرجی، اضافت، اور ویو میکانکس کو تسلیم کرتی ہے، جو براہ راست نظر نہیں آتیں۔ یہ ایمان بالغیب ہی کی ایک قسم ہے، اور مذہب بھی اسی اصول پر ایمان لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
شبہ اور آزمائش
خالق نے اپنی مخلوق کے لیے شبہ کے عنصر کو برقرار رکھا ہے تاکہ انسان کا امتحان اور اختیار قائم رہے۔ اگر ہر شے مکمل واضح ہو جائے تو آزمائش کا مقصد ختم ہو جائے گا۔
حدیث میں شبہ کی مثال:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ یہ سوال کرتے رہیں گے کہ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا، حتیٰ کہ یہ سوال خدا تک جا پہنچے گا۔ لیکن ان وسوسوں سے ایمان کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ یہ تو عین ایمان کی علامت ہیں۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الوسوسۃ فی الایمان، 1/121)
شبہ کا کردار:
شبہ انسان کو سوچنے اور حق کو پہچاننے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جو شخص اس امتحان میں کامیاب ہو جائے وہ مومن کہلاتا ہے، اور جو ناکام ہو وہ ملحد بن جاتا ہے۔
معجزات اور ایمان
قرآن مجید کے مطابق، مشرکین مکہ رسول اللہ ﷺ سے بارہا معجزات کا مطالبہ کرتے رہے، لیکن اللہ نے فرمایا کہ معجزات کا مقصد ایمان لانا نہیں بلکہ آزمائش ختم کرنا ہوگا۔ جیسے اگر فرشتہ یا کوئی غیر معمولی نشان نازل ہو جائے تو انسان کا اختیار ختم ہو جائے گا۔
(سورۃ الانعام)۔
خالق کا ثبوت: مخلوق کی گواہی
خالق کے وجود پر اس کی مخلوق ہی دلالت کرتی ہے، جیسے ایک فن پارہ اپنے خالق پر، اور ایک عظیم عمارت اپنے معمار کی موجودگی پر اشارہ کرتی ہے۔
بدوؤں کی مثال:
عرب کے بدو کہا کرتے تھے کہ جس طرح قدموں کے نشانات انسان کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں، اسی طرح زمین و آسمان خالق کی موجودگی کا ثبوت دیتے ہیں۔
اہلِ مشرق کی ذمہ داری
اہلِ مغرب نے سائنس، سماجیات اور تاریخ کو نظریہ ارتقاء کی روشنی میں مرتب کیا، لیکن اہلِ مشرق پر لازم ہے کہ وہ ان علوم کو نظریہ تخلیق کی بنیاد پر استوار کریں۔