سوال:
بعض مخصوص مہینوں، دنوں اور راتوں میں مخصوص رکعتوں کے ساتھ نماز پڑھنے کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں، جیسے:
◈ جس نے ذوالحجہ میں اتنی رکعت نماز پڑھی، اسے اتنا ثواب ملے گا۔
◈ جس نے محرم میں نماز پڑھی، اس کے لیے اتنا اجر ہوگا۔
◈ جس نے ہفتے کی رات بیس رکعت پڑھی، اس کے لیے مخصوص فضیلت ہے۔
کیا یہ نمازیں مستحب ہیں؟
(اخوکم: نور الحق و شوکت)
الجواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل:
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات میں فرض، سنت اور نوافل سمیت چالیس رکعتیں پڑھتے تھے۔
کبھی کبھار کسی عارضی وجہ سے اس سے زیادہ بھی پڑھتے، لیکن مخصوص مہینوں، دنوں اور راتوں کی نمازوں کا کوئی ثبوت نہیں۔
یہ مخصوص نمازیں بعض جاہل لوگوں کی گھڑی ہوئی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں۔
📖 ابن جوزی رحمہ اللہ "الموضوعات” (3/113) میں فرماتے ہیں:
"یہ سب گھڑی ہوئی روایات ہیں، جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔”
📖 امام ابن قیم رحمہ اللہ "المنار المنیف” (ص:95) میں فرماتے ہیں:
"ان مخصوص دنوں اور راتوں کی نمازوں کی احادیث جھوٹی ہیں، جیسے اتوار کی نماز، پیر کی رات کی نماز، ہفتے کی رات کی نماز، اور رجب کے پہلے جمعہ کی رات کی نماز (صلوٰۃ الرغائب)، یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا گیا ہے۔”
یہ جھوٹی نمازیں کہاں سے آئیں؟
یہ نمازیں امام غزالی نے "احیاء العلوم” اور عبدالقادر جیلانی نے "غنیہ الطالبین” میں ذکر کیں۔
علمائے حدیث نے ان پر رد کیا، جیسا کہ:
◈ ابن جوزی نے "الموضوعات” (3/113، 143) میں۔
◈ ابن حجر نے "تبین العجب بما ورد فی فضل رجب” (ص: 12-19) میں۔
◈ امام سیوطی نے "اللآلئ المصنوعة” (2/290-293) میں۔
◈ ابن عراق نے "تنزیہ الشریعۃ المرفوعہ” (2/90-92) میں۔
◈ مولانا عبدالحی لکھنوی نے "الآثار المرفوعہ” (ص: 290-293) میں۔
◈ شیخ البانی رحمہ اللہ نے "السلسلۃ الضعیفہ” میں۔
نتیجہ:
مخصوص مہینوں، دنوں اور راتوں کی نمازوں کے فضائل گھڑے ہوئے ہیں، ان کا دین میں کوئی ثبوت نہیں۔
مسلمان کو چاہیے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق نوافل ادا کرے اور گھڑی ہوئی نمازوں سے بچے۔
📖 وصلی اللہ علی نبینا محمد وآله وصحبه اجمعین۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔