محرم کے لیے اپنا سر اور اپنا بدن دھونا جائز ہے
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ { أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ اخْتَلَفَا بِالْأَبْوَاءِ . فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ . وَقَالَ الْمِسْوَرُ: لَا يَغْسِلُ رَأْسَهُ . قَالَ: فَأَرْسَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ إلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ . فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ بَيْنَ الْقَرْنَيْنِ ، وَهُوَ يُسْتَرُ بِثَوْبٍ . فَسَلَّمْت عَلَيْهِ . فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَقُلْت: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُنَيْنٍ ، أَرْسَلَنِي إلَيْكَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، يَسْأَلُكَ: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟ فَوَضَعَ أَبُو أَيُّوبَ يَدَهُ عَلَى الثَّوْبِ ، فَطَأْطَأَهُ ، حَتَّى بَدَا لِي رَأْسُهُ . ثُمَّ قَالَ لِإِنْسَانٍ يَصُبُّ عَلَيْهِ الْمَاءَ: اُصْبُبْ ، فَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ . ثُمَّ حَرَّكَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ ، فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ . ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْتَسِلُ } .
وَفِي رِوَايَةٍ ” فَقَالَ الْمِسْوَرُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: لَا أُمَارِيكَ أَبَدًا ” .

عبداللہ بن حنین روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ کا ابواء میں اختلاف ہو گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: محرم اپنے سر کو دھوئے گا، لیکن مسور رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ وہ اپنا سر نہیں دھوئے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا تو میں نے انھیں کنویں پر لگی دو لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے پایا اور وہ ایک کپڑے کے ساتھ پردہ کیے ہوئے تھے، میں نے انھیں سلام کہا تو انھوں نے فرمایا: یہ صاحب کون ہیں؟ میں نے کہا: میں عبداللہ بن حسنین ہوں، مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ پوچھنے کے لیے آپ کی طرف بھیجا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں اپنا سر مبارک کیسے دھویا کرتے تھے؟ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ پردے کے لیے لگے ہوئے کپڑے پر رکھا اور اسے نیچے جھکایا، یہاں تک کہ میرے سامنے ان کا سر واضح ہو گیا، پھر آپ نے اس شخص سے جو آپ پر پانی ڈال رہا تھا ، کہا: پانی ڈال، اس نے آپ کے سر پہ پانی ڈالا ، پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کے ساتھ اپنے سر کوحرکت دی اور دونوں ہاتھوں کو (پہلے) سر کے آگے لے کر آئے اور (پھر) پیچھے لے گئے ، پھر فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح غسل کرتے دیکھا۔
ایک روایت میں ہے کہ مسور رضی اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آج کے بعد میں کبھی بھی آپ سے جھگڑا نہیں کروں گا۔
شرح المفردات:
الأبواء: مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔
طاطاه: اسے نیچے جھکایا / واحد مذکر غائب فعل ماضی معلوم، باب فعللہ ۔
شرح الحديث:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے یہ سوال نہیں کیا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت احرام اپنے سر کو دھویا تھا؟ بلکہ انھوں نے سر دھونے کی کیفیت پوچھی ، تاکہ ان کے سوال کے جواب کے ساتھ دھونے کے طریق کار کے علم کا بھی فائدہ حاصل ہو سکے۔ [فتح الباري لابن حجر: 56/4] اور حدیث سے محل استشہاد واضح ہے کہ محرم کے لیے اپنا سر اور اپنا بدن دھونا جائز ہے۔ [كشف اللثام للسفاريني: 352/4]
راوى الحديث:
اس حدیث میں تین اصحاب کا تذکرہ ہوا ہے۔ ایک تو حدیث کے راوی عبد اللہ بن حسنین ہیں۔ آپ ہاشمی تھے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ثقہ تابعین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ یزید بن عبد الملک کو عہدۂ خلافت پر مقرر کرانے کے دنوں میں آپ کی وفات ہوئی۔ دوسرا نام معروف اور جلیل القدر صحابی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے، تیسرے سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ ہجرت سے دو سال بعد مکہ مکرمہ میں آپ کی ولادت ہوئی اور فتح مکہ کے سال ماہ ذوالحجہ میں مدینہ تشریف لائے۔ اس وقت آپ کی عمر چھ برس تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی عمر آٹھ برس تھی۔ ربیع الثانی 74 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی۔
باب فسخ الحج إلى العمرة

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!