متبنی (کسی کو منہ بولا: بیٹا ) بنانے کا حکم
سوال: ایک سائلہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک شادی شدہ عورت ہے ، لیکن اللہ کی مشیت نہیں ہے کہ اس کے ہاں اولاد پیدا ہو ، کیا اس کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی بچے کو بیٹا بنا کر اپنے اور اپنے خاوند کی طرف منسو ب کر لے؟ اور جب یہ جائز ہے تو جس بچے کو متبنی بنایا جا رہا ہے اس کی صفات کیا ہوں ، اس معنی میں کہ اس کے والدین معروف ہوں لیکن وہ فوت ہو چکے ہوں ، مثلاً جیسے یتیم ہے ، یا جس کے والدین معروف نہ ہوں وغیرہ اس کاکیا حکم ہے؟
جواب: زمانہ جاہلیت میں کسی کو متبنی بنانے کا عمل موجود تھا مگر اسلام نے اس کو باطل قرار دیتے ہوئے اس سے منع کر دیا ۔ وہ بچہ جس کو بیٹا بنایا گیا ہے وہ بیٹا بنانے والے کے لیے اجنبی ہی ہے ، اس لیے اس کو اس کے حقیقی والدین کی طرف منسوب کیا جائے گا نہ کہ ان کی طرف جنھوں نے اس کو بیٹا بنایا ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ﴿٤﴾ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ [الأحزاب: 14,5]
اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنایا ہے ، یہ تمھارا اپنے مونہوں سے کہنا ہے اور اللہ سچ کہتا ہے اور وہی (سیدھا ) راستہ دکھاتا ہے ۔ انہیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو ، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے ۔
پس مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس خطرناک فعل سے پرہیز کریں جس کو اسلام نے باطل قرار دیا ہے اور ایسا کرنے سے منع کر دیا ہے ۔ مگر اس میں کوئی رکا وٹ نہیں ہے کہ مسلمان یتیم کے ساتھ اور ایسے چھوٹے بچے کے ساتھ حسن سلوک کرے جس کا کوئی ولی نہیں ہے جو اس کی پرورش کر سکے ، لہٰذا اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی بہت بڑی فضیلت ہے لیکن وہ اس کو متنبی نہ بنائے ۔