مباشرت سے قبل طلاق
تحریر:حافظ ندیم ظہیر

                                                                        
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَکَحۡتُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقۡتُمُوۡہُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡہُنَّ فَمَا لَکُمۡ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ عِدَّۃٍ تَعۡتَدُّوۡنَہَا ۚ فَمَتِّعُوۡہُنَّ وَ سَرِّحُوۡہُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا ﴿۴۹﴾ ﴾
          اے ایمان والو! جب  تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں چھونے سے قبل طلاق دے دو تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدت نہیں ہے جس کے پورا ہونے کا تم مطالبہ کر سکو لہٰذا (اسی وقت) انہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کردو۔ (الاحزاب : ۴۹)
فقہ القرآن:
اس آیت میں مسائلِ طلاق میں سے ایک مسئلے کا بیان ہے اور اسی مسئلے کے چند پہلو مندرجہ ذیل ہیں:
←      امام بخاریؒ مذکورہ آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"لا طلاق قبل النکاح” نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہے ۔ (صحیح بخاری بعد ح ۵۲۶۸)
←      مباشرت سے قبل طلاق دینا جائز ہے ۔
←       اگر ہمبستری سے پہلے طلاق دے دی جائے تو عورت پر کوئی عدت نہیں ہے ۔ عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ طلاق کے فوراً بعد جس سے چاہے نکاح کرلے ۔
←      اگر مباشرت سے قبل طلاق دی ہے اور حق مہر بھی مقرر تھا تو اس میں سے نصف کی ادائیگی ضروری ہے ۔ دیکھئے سورۃ البقرۃ : ۲۳۷

"بھلے طریقے سے رخصت کردو” سے مراد یہ ہے کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف و اذیت دینے سے احتراز کیا جائے ۔ سیدنا ابو اسیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امیمہ بنت شراحیل سے نکاح کیا تھا پھر جب وہ آپ کے ہاں لائی گئی تو آپ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے اس نے ناپسند کیا ۔ اس لئے آپﷺ نے ابو اُسید سے فرمایا : اس کا سامان تیار کردو اور رازقیہ (ٹسر/کچے ریشم) کے دو کپڑے اسے پہننے کے لئے دے دو۔  (بخاری: ۵۲۵۶)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!