لے پالک بچے کی شرعی حیثیت: پردہ اور نسب کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث کتاب الصلاۃ جلد 1

سوال

لے پالک بچہ یا بچی جب جوان ہو جائیں تو ان کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟

جواب

لے پالک بچہ یا بچی، اگر غیر محرم ہو اور جب وہ اس عمر کو پہنچ جائیں کہ عورتوں یا مردوں کے معاملات کو سمجھنے لگیں، تو ان سے پردہ کرنا ضروری ہوگا۔ اسی طرح ان کا نسب ان کے اصل والد کے نام سے ہی منسوب کیا جائے گا، نہ کہ لے پالنے والے والدین کے نام سے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"ما جَعَلَ اللَّهُ لِرَ‌جُلٍ مِن قَلبَينِ فى جَوفِهِ ۚ وَما جَعَلَ أَزو‌ٰجَكُمُ الّـٰـٔى تُظـٰهِر‌ونَ مِنهُنَّ أُمَّهـٰتِكُم ۚ وَما جَعَلَ أَدعِياءَكُم أَبناءَكُم ۚ ذ‌ٰلِكُم قَولُكُم بِأَفو‌ٰهِكُم ۖ وَاللَّهُ يَقولُ الحَقَّ وَهُوَ يَهدِى السَّبيلَ ﴿٤﴾ ادعوهُم لِءابائِهِم هُوَ أَقسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَم تَعلَموا ءاباءَهُم فَإِخو‌ٰنُكُم فِى الدّينِ وَمَو‌ٰليكُم ۚ وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ۚ وَكانَ اللَّهُ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا”
(سورۃ الاحزاب: 4-5)
"اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنایا، یہ تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں، اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہ سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ لے پالکوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارو، اللہ کے نزدیک یہی انصاف ہے۔”

اس آیت سے واضح ہے کہ کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی، نہ بیٹا کہنے سے وہ حقیقی بیٹا بن جاتا ہے، اور نہ ہی ان پر شرعی طور پر بنوت کے احکام لاگو ہوتے ہیں۔

وضاحت:

یہ حکم اس لیے دیا گیا کہ جاہلیت کے زمانے میں لے پالک کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا، اور ابتدائے اسلام میں بھی یہ رواج تھا۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام "زید بن محمد” کہہ کر پکارتے تھے جب تک کہ یہ آیت نازل نہیں ہوئی۔

اسی طرح حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں بھی مسئلہ پیش آیا۔ انہوں نے سالم کو بیٹا بنایا تھا، اور جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے منع کر دیا گیا تو حضرت ابوحذیفہ کی بیوی کے لیے سالم سے پردہ واجب ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو حذیفہ کی بیوی کو فرمایا کہ سالم کو دودھ پلا دیں تاکہ وہ رضاعی رشتہ بن سکے اور پردہ لازم نہ رہے۔
(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب رضاعۃ الکبیر؛ ابو داود، کتاب النکاح، باب فیمن حرم بہ)

لہٰذا، لے پالک کو حقیقی بیٹا سمجھنا اور اسے اپنا نسب دینا شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے