لین دین کے دوران تحریری معاہدے کی اہمیت
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

لین دین کرتے وقت لکھنے کا حکم
اگر ادھار خرید و فروخت کی جائے، جسے ادا کرنا ایک مقررہ مدت تک کسی کے ذمے واجب الادا ہو، تو اللہ تعالیٰ نے اسے لکھنے اور اس پر گواہ مقرر کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ بھول اور نسیان کا سدباب ہو سکے۔
سورۃ بقرہ کے آخر میں آیت دین میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا» [البقرة: 282]
اور اس سے مت اکتاؤ وہ چھوٹا (معاملہ) ہو یا بڑا کہ اسے اس کی مدت تک لکھو، یہ کام اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والا اور شہادت کو زیادہ درست رکھنے والا ہے اور قریب ہے کہ تم شک میں نہ پڑو۔“
یعنی گواہی لکھ لینا عدل کے زیادہ قریب، زیادہ محفوظ و مضبوط، زیادہ درست اور شک و شبہے سے بہت دور ہے۔ جب ضرورت پیش آئے تو ’’ لکھا ہو“ کاغذر پیش کر دیں جس میں ہر چیز لکھی ہوئی ملے گی، لہٰذا لکھنا حقیقت میں حقوق کو محفوظ کرنا ہے۔
رہا سوال نقد لین دین کا جسے لوگ فورا نپٹا دیتے ہیں، جس میں کوئی قرض ہوتا ہے نہ کوئی مقررہ مدت تو اسے نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً کسی نے گاڑی خریدی، موقع پر اس کی قیمت ادا کی اور چل دیا، کوئی عبایا (برقعہ) خریدی، اس کے پیسے ادا کیے، اور چلا گیا، یا کوئی برتن خریدا، اس کے پیسے ادا کیے اور چلتا بناء تو ان تمام صورتوں میں لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن جو لین دین واجب الادا ہو، اسے لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بھول نہ جائیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ» [البقرة: 282]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب آپس میں ایک مقرر مدت تک قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور ایک لکھنے والا تمہارے درمیان انصاف کے ساتھ لکھے۔“
کیونکہ لکھنے سے حقوق محفوظ ہو جاتے ہیں۔ [ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 34/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے