لڑکی اور اس کے باپ (ولی) کی رضامندی کافی ہے
فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال :

میں اپنی ایک مشکل کا حل چاہتی ہوں، بات یہ ہے کہ میری عمر اس وقت چوبیس سال ہے، میرے لئے ایک ایسے نوجوان نے منگنی کا پیغام دیا جو یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم مکمل کر چکا ہے اور ایک دیندار خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پر میرے والد نے اپنی موافقت کا اظہار کر دیا اور نوجوان کو دیکھنے کے لئے مجھے بیٹھک میں آنے کو کہا : ہم نے ایک دوسرے کو دیکھنے کے بعد ایک دوسرے کو پسند کر لیا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ دین حنیف نے شادی سے قبل ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ جب میری والدہ کو معلوم ہوا کہ یہ نوجوان ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے تو اس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور قسم کھائی کہ کسی بھی صورت میں یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی، میرے باپ نے بڑی کوشش کی مگر ناکامی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آ سکا۔ کیا ان حالات میں مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں شریعت سے اپنے مسئلے میں مداخلت کا مطالبہ کروں ؟

جواب :

بصورت صحت سوال لڑکی کی والدہ کو اس بارے میں اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں بلکہ اس پر ایسا کرنا حرام ہے۔ سائلہ محترمہ ! اس معاملے میں تمہاری ماں کی اطاعت تم پر واجب نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشار مبارک ہے :
إنما الطاعة فى المعروف [متفق عليه ]
”اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔ “
اور نیک رشتے کے پیغام کو رد کرنا نیکی نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه، إلأ تفعلوا تكن فنتة فى الأرض وفساد كبير [ سنن ترمذي بسند حسن ]
”جب کوئی ایسا شخص تمہیں نکاح کا پیغام دے کہ جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اسے رشتہ دے دو اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد کبیر برپا ہوگا۔“
اگر یہ معاملہ عدالت کے سامنے اٹھانے کی ضرورت پیش آئے تو بھی آپ پر کوئی حرج نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے