لونڈیوں سے مباشرت کے اسلامی احکام
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

لونڈیوں سے مباشرت

سوال : کیا لونڈیوں سے مباشرت کے لیے نکاح کرنا ضروری ہے؟ نیز اسلام اس ضمن میں کیا احکامات دیتا ہے وضاحت فرما کر عند اللہ موجود ہوں۔
جواب : اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے درج ذیل آیات پر غور کیجئے :
➊ «وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا » [النساء : 3]
اور اگر تمہیں خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں ان سے انصاف نہ کر سکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کر لو۔ لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے یا پھر وہ کنیزیں اور باندیاں ہیں جو تمہارے قبضے میں ہوں۔ بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ بات زیادہ درست ہے۔“
➋ «وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ» [النساء : 24]
”نیز تمام شوہروں والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں مگر وہ باندیاں جو تمہارے قبضے میں آئیں۔“
➌ « وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ» [النساء : 25]
”جو شخص کسی آزاد مومنہ عورت سے نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ کسی مومنہ باندی سے نکاح کر لے جو تمہارے قبضے میں ہوں اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کا حال خوب جانتا ہے۔ (کوئی عورت آزاد یا لونڈی) سب ایک ہی جنس سے ہیں لہٰذا ان کے مالکوں کی اجازت سے تم ان سے نکاح کر سکتے ہو۔“
➍ «وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿5﴾ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿6﴾ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿7﴾ » [المومنون : 7-5]
”وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، سوائے اپنی بیویوں یا لونڈیوں کے وہ قابل ملامت نہیں ہیں البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہ زیادتی کرنے والے ہیں۔“
ان آیات میں موجود شرمگاہوں کی حفاظت کے عمومی حکم سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے دو قسم کی عورتوں کو مستثنیٰ قراردیا ہے، ایک ”ازواج“ اور دوسری ”ما ملکت ایمانکم“۔ لفظ ازدواج کا اطلاق عرب زبان کے معروف استعمال اور قرآن حکیم کی تصریحات کے مطابق صرف ان عورتوں پر ہوتا ہے جو باقاعدہ نکا ح میں لائی گئی ہوں اور معروف طریقے کے مطابق ان سے عقد قائم کیا گیا ہو۔ اس کے لیے اردو میں بیوی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جب کہ ”ما ملکت ایمانکم“ عربی محاور ہ اور قرآنی لغت کے اعتبار سے لونڈی و باندی پر بولا جاتا ہے، یعنی وہ عورت جو آدمی کی ملک اور قبضے میں ہو۔ اس طرح یہ آیات وضاحت کرتی ہیں کہ مملوکہ لونڈی سے بھی مالک کو جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت ہے اور اس کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ صرف ملکیت ہے۔ اگر اس کے لئے نکاح شرط ہوتا تو اسے ازواج سے علیحدہ بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ منکوحہ ہونے کی صورت میں وہ بھی ازواج میں داخل ہوتیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے