لمبی نماز، سکون اور امامت سے متعلق 5 احادیث

لمبی نماز پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ

طویل نماز سے لوگوں کو دور نہ کیا جائے

سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی:

’’یا رسول اللہ! اللہ کی قسم، میں فجر کی نماز جماعت کے ساتھ اس وجہ سے ادا نہیں کرتا کہ فلاں شخص نماز کو بہت لمبا کرتے ہیں۔‘‘

اس پر سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی وعظ میں اتنے غصے میں نہیں دیکھا جتنا اس موقع پر (یعنی لمبی نماز پڑھانے پر) دیکھا۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’تم (لمبی نمازیں پڑھا کر) لوگوں کو نفرت دلانے والے ہو، (سنو) جب تم لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو ہلکی پڑھاؤ اس لیے کہ ان (مقتدیوں) میں ضعیف، بوڑھے اور حاجت مند بھی ہوتے ہیں۔‘‘
(بخاری، الاذان باب تخفیف الامام فی القیام واتمام الرکوع والسجود، 207، ومسلم: 664)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت

سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت یہ تھی:
جب تم لوگوں کی امامت کرو تو ان کو نماز ہلکی پڑھاؤ، کیونکہ تمہارے پیچھے بوڑھے، مریض، کمزور اور کام کاج والے لوگ ہوتے ہیں۔ اور جب اکیلے نماز پڑھو تو جس قدر چاہو لمبی پڑھو۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب امر الأئمۃ بتخفیف الصلاۃ فی تمام: 864)

ہلکی نماز کا مطلب اور حدود

ہلکی نماز کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ رکوع، سجدہ، قومہ اور جلسہ کو جلدی یا ناقص طریقے سے ادا کیا جائے۔ بلکہ:

◈ نماز کی تمام ارکان میں تعدیل اور طمانیت ضروری ہے، ان کے بغیر نماز باطل ہو جاتی ہے۔

◈ قرآن کی تلاوت کو غیر مناسب حد تک تیز کرنا بھی جائز نہیں۔

◈ ہلکی نماز سے مراد یہ ہے کہ قراءت میں اختصار کیا جائے، مگر قیام کو اتنا مختصر نہ کیا جائے کہ خشوع و خضوع ختم ہو جائے۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’افضل نماز وہ ہے جس میں قیام لمبا ہو۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب: أفضل الصلاۃ طول القنوت: 657)

نماز کی طرف سکون سے آنا

جلد بازی سے منع

سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے لوگوں کی کھٹ پٹ سنی۔ نماز کے بعد آپ نے پوچھا:
’تم کیا کر رہے تھے؟‘
انہوں نے عرض کیا: ہم نماز کی طرف جلدی آ رہے تھے۔
آپ نے فرمایا:
’ایسا نہ کرو۔ جب تم نماز کو آؤ تو آرام سے آؤ، جو نماز تمہیں مل جائے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے اس کو بعد میں پورا کرو۔‘‘‘
(بخاری: 536، مسلم، المساجد، باب استحباب اتیان الصلاۃ بوقار و سکینۃ، 306)

تکبیر کے وقت سکون سے آنا

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’جب فرض نماز کی تکبیر کہی جائے تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ سکون سے آؤ، جو ملے پڑھو اور جو رہ جائے اسے بعد میں پورا کر لو کیونکہ جب تم نماز کا ارادہ کرتے ہو تو نماز ہی میں ہوتے ہو۔‘‘‘
(مسلم: 206)

جماعت کے ثواب کا وعدہ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’جس نے خوب اچھی طرح وضو کیا، پھر (نماز باجماعت کے لیے) مسجد کی طرف چلا اور وہاں جا کر دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں تو اسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا پورا پورا ثواب ملے گا۔ ذرا سا بھی کم نہ ہو گا۔‘‘
(ابو داؤد، الصلاۃ فیمن خرج یرید الصلاۃ فسبق بہا: 465)

یعنی اگر اس نے بلا وجہ سستی نہیں کی، تو وہ مسلسل نماز کا ثواب حاصل کرتا رہے گا جب تک نماز ادا نہ کر لے، واللہ اعلم۔

افضل کا مقتدی بننا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنا

غزوہ تبوک کے دوران کا واقعہ:

’’ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے، واپس آ کر وضو فرمایا۔ جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے ایک رکعت پڑھی۔
سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے دونوں رکعتیں مکمل کرنے کے بعد سلام پھیرا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہو چکے ہیں تاکہ نماز مکمل کر لیں۔
سلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’تم لوگوں نے اچھا کیا، تم لوگ وقت مقررہ پر نماز پڑھا کرو۔‘‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب تقدیم الجماعۃ من یصلی بھم اذا تأخر الامام: 472)

یہ واقعہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ:

◈ افضل شخص مقتدی بن سکتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1