لقب اہل حدیث کی وجہ تسمیہ اور قدیم تاریخ
یہ تحریرمولانا ابو صحیب داؤد ارشد حفظہ اللہ کی کتاب تحفہ حنفیہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب دیوبندی عالم دین ابو بلال جھنگوی کیجانب سے لکھی گئی کتاب تحفہ اہلحدیث کا مدلل جواب ہے۔

ہم اہل حدیث کیوں ہیں؟

اہل حدیث ایک وصفی نام ہے اور و صفی نام جو شریعت کی روح کے مطابق ہور کھنا جائز ہے۔ جس کا ثبوت آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے ہے ، حفاظ قرآن کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
((يااهل القران او تروفان الله وتزيحب الوتر))
یعنی اے اہل قرآن وتر پڑھو{ بلاشبہ اللہ تعالی و تر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے“۔
(ابوداؤد مع عون ص 533 ج- 1 و ترمذی مع تحفہ ص 336 ج 1 و نسائی ص 199 ج 1 وا بن ماجد ص 83(1170) وابن خزیمہ ص 137 ج 2 (1067) و بیہقی ص 468 ج 2ومستدرک حاکم ص 300 ج1)
اس حدیث میں جن لوگوں کو اہل القرآن کے لقب سے مخاطب کیا گیا ہے وہ مسلمان ہی تھے۔ انہیں لوگوں کے متعلق اللہ نے کہا ہے کہ
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا
یعنی اس نے تمہارا نام قرآن اور پہلی کتابوں میں مسلمان رکھا ہے۔ (الج: آیت 78)
لیکن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ان مسلمان حفاظ کو اہل القرآن کے لقب سے مخاطب کیا‘ خود اللہ تعالی نے یہود و نصاریٰ کو اہل الکتاب کے نام سے خطاب فرمایا‘ عیسائیوں کو واهل الانجيل کہا ہے‘
(المائدة: 47)
حالانکہ سورہ الحج کی مذکورہ آیت اور دیگر شرعی دلائل سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ان لوگوں کا نام بھی مسلمان ہے۔ اہل کتاب‘ اہل انجیل‘ وغیرہ ان کے وصفی نام جس سے ثابت ہوا کہ وصفی نام رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

اہل حدیث کی وجہ تسمیہ :۔

خیر القرون سے اہل بدعت کے مقابلہ میں اہل حدیث اور اہل سنت کا نام معروف تھا۔ ملحوظ رہے کہ اہل سنت اور اہل حدیث مترادف الفاظ ہیں‘ البتہ اہل حدیث کا نام رکھنے کی ایک معقول وجہ یہ تھی کہ حدیث کا لفظ قرآن وحدیث پر مشترکہ بولا جاتا ہے‘ جیسا کہ متعدد مقامات پر اللہ نے قرآن کو حدیث کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔
سورہ الزمر آیت 23‘ سورۃ الطور آیت 33,34 ‘ سورۃ القلم آیت 44 ‘ سورۃ النجم آیت 59,60 ‘ سورۃ الاعراف آیت 185 ‘ سورۃ الکھف آیت 6 ‘ وغیرہ آیات بینات کے علاوہ خود رسالت مآب علیہ السلام نے کتاب اللہ پر‘ حدیث کا لفظ بولا ہے۔
(صحیح مسلم ص 284 ج 1)
اسی طرح نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنے قول کو بھی ”حدیث ‘‘ کے لفظ سے بیان فرمایا ہے ’’ابن ماجہ ص 6 ‘ و ابن حبان ص 236 ج 1 ‘ وابوداود ص 515 ج 2 ‘‘ ان دلائل شرعی سے معلوم ہوا کہ اہل حدیث کا معنی ہے ، قرآن اور فرمان نبویﷺ پر عمل کرنے والا‘ ہمارے بھائی کو اس جگہ پر زبر دست ٹھوکر لگی ہے‘ بھولے پن سے ارشاد فرماتے ہیں کہ
حدیث صحیح بھی ہوتی ہے‘ ضعیف بھی‘ حسن بھی‘ مرسل بھی‘ معضل بھی‘ منقطع بھی‘ مرفوع بھی‘ موقوف بھی‘ مقطوع بھی‘ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی اقسام ہیں ، پتہ نہیں کس کو مانتے ہیں ، صحیح اہل حدیث یا ضعیف اہل حدیث‘ مرسل اہل حدیث یا حسن اہل حدیث موقوف اہل حدیث ہیں یا مقطوع اہل حدیث۔
(تحفہ اہل حدیث ص 53‘)
بھائی غصہ تھوک دیجیے یہ انسان کو علم سے کورا کر کے خبطی کردیتا ہے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجیے کہ جس قدر آپ نے مذکورہ اقسام بیان کی ہیں یہ فرمان نبوی علیہ التحیة والسلام کی قسمیں ہیں‘ یا اسناد کی ہیں؟
اگر اسناد کی ہیں‘ یقیناً اسناد کی ہیں، تو آپ کا اعتراض ہی فضول اور تعصب کی پیدائش ہے جس کی جہالت نے آبیاری کی ہے اور بغض نے کھودا ہے‘ نصرۃ العلوم نے کھاد کا کام دیا ہے اور حافظ ارشد نے بے علمی کی سپرے کر کے عوام الناس کو مغالطہ دیا ہے۔
خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے، خصوصاً دیو بندیت کی وبا ہے۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ نہ ہو کہ ضعیف و مرسل وغیرہ آپ ہیں۔ کیونکہ مرسل آپ کے نزدیک حجت ہے جو ضعیف روایت کی ایک قسم ہے ۔ بلکہ اگر مؤلف ” تحفہ اہل حدیث “ یہ دعویٰ کر دے کہ اصل اہل حدیث میں ہوں کیونکہ میں نے دو احادیث وضع کی ہیں تو ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں ؟

سلفی واثری کی وجہ تسمیہ : –

امام سمعانی نے اپنی معروف تصنیف ’’کتاب الانساب ‘‘ میں مادہ الاثری کے تحت لکھا ہے کہ
هذه النسبة الى الاثر بين الحديث واهله واتباعه وانتسب بهذه النسبة ابوبكر سعد بن عبدالله بن على الأثرى الطوفي المولودسنه 413 المتوفى 490ه .
یعنی امام ابو بکر المتوفی 490ھ اپنے کو مذ ہب اہل حدیث کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے اثری کہلاتے تھے‘ کیونکہ اثری کا مفہوم یہ ہے کہ حدیث کی پیروی واتباع کرنے والا۔
( الانساب سمعانی ص 114 ج 1)
اس سے ثابت ہوا کہ اہل الاثر اور اہل الحدیث دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ اسی طرح علامہ سمعانی نے لفظ سلفی کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ یہ مذہب سلف کی طرف منسوب ہے۔
(الانساب ص 167 ج 2)

شخصی نسبت :-

مذکورہ دلائل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ وصفی نام کتاب اللہ کی طرف نسبت کر کے رکھنا جائز ہے مگر قرآن وسنت سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ کسی امتی کی طرف نسبت کر کے وصفی نام رکھا جائے۔ حضرت عثمان غنیؓ کی المناک شہادت کے سانحہ کے بعد جب امت مرحومہ میں فتنہ و فساد اور گروپ بندی نے جنم لیا تو کسی نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے پو چھا کہ آپ علوی ہیں ؟ یا عثمانی؟ تو حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ
((لست على ملة على ولاملة عثمان بل انا على ملة رسول الله ﷺ))
یعنی میں نہ علیؓ کی ملت پر ہوں اور نہ ہی عثمانؓ کی ملت پر بلکہ میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ملت پر ہوں۔
(الاحکام فی اصول الاحکام ص 174 ج 4)
انہیں حقائق کی بنا پر اہل حدیث کسی شخصی نسبت کے قائل نہیں ہیں ۔ کیونکہ قرآن وحدیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔
ملا علی القاری حنفی فرماتے ہیں کہ
(ومن المعلوم ان الله تعالى ماكلف احدا ان يكون حنفيا اومالكيا او شافعيا او حنبليا بل كلفهم أن يعملوا بالسنة )
یعنی یہ ظاہر وباہر ہے کہ اللہ تعالی نے کسی کو یہ تکلیف نہیں دی کہ حنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ یا حنبلی بنے بلکہ سب بندوں کو اس کا مکلف بنایا ہے کہ وہ سنت نبویہ علیہ التحیة والسلام پر عمل کرے۔
( شرح عین العلم ص 326 طبع عامر ہ اسنتبول و انتصار الحق ص 238)

اعتراض:-

بعض صحابہ کرام علوی اور بعض صحابہ کرام عثمانی کہلواتے تھے ۔
( بخاری ص433 ج 1 )
اگر حنفی شافعی نسبت غلط ہے اور غیر نبی کی طرف ہے تو حضرت علی اور حضرت عثمان ، جن کی طرف صحابہ نے نسبت کی ہے وہ بھی تو امتی تھے وہ کونے نبی تھے تو وہ کیسے ٹھیک ہو گئی ؟
( تحفہ اہل حدیث ص 56)
الجواب:- اولا:- بخاری میں یہ قطعاً نہیں کہ بعض صحابہ علوی اور بعض عثمانی کہلواتے تھے ۔ یہ مؤلف کا افترا ہے۔ اگر یہ بخاری سے دکھا دیں تو انہیں ہم انعام میں بخاری کا ایک نسخہ دیں گے ان شاء اللہ ۔
غالباً بخاری سمجھنے کی مؤلف میں لیاقت نہیں ورنہ ایساد عویٰ نہ کرتے۔
ثانیا: جھنگوی صاحب بار بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک صحابہ کرام معیار حق ہیں‘ ( تحفہ اہل حدیث ص53) اگر بالفرض یہ بات تسلیم کرلی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ حضرات‘ معیار حق‘ کو ترک کر کے حنفی پھر دیو بندی کیوں بنے ہیں ؟ عثمانی یا علوی کیوں نہیں کہلاتے ؟
ثالثاً: آئیے ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ بخاری میں کیا ہے اور مؤلف (تحفہ اہل حدیث ) اس سے کیا مغالطہ دے رہا ہے۔ معروف تابعی سعد بن عبیدہ سلمی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ
( عن أبي عبد الرحمن وكان عثمانيا فقال لابن عطية وكان علويا )
یعنی عبدالرحمٰن سلمی جو عثمانی تھے انہوں نے ابن عطیہ علوی سے کہا ( بخاری ص 433 ج 1 ) ان الفاظ کی شرح میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ
(كان عثمانيا يقدم عثمان على على فى الفضل ، وكان علويااى يقدم عليا في الفضل على عثمان )
یعنی عثمانی سے مراد یہ ہے کہ وہ عثمانؓ غنی کو علیؓ سے افضل جانتے تھے اور علوی سے مراد یہ ہے کہ وہ علیؓ کو عثمانؓ سے افضل جانتے تھے۔
(فتح الباری ص 143 ج 6)
علوی و عثمانی کا یہی مفہوم مولانا عمر علی سہار نپوری نے بخاری کے حاشیہ بین السطور میں بیان کیا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں کے اس عقیدہ کی وجہ سے بعض لوگ انہیں علوی و عثمانی کے نام سے پکارا کرتے تھے ۔ مگر ہمارے مہربان اس سے یہ کشید کر رہے ہیں کہ وہ از خود اپنے کو علوی و عثمانی کہتے تھے‘ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
اس سے بھی بڑھ کر یہ غلط بیانی کی کہ ان کو صحابہ باور کرایا ہے۔
حالانکہ ابو عبدالرحٰمن سلمی ( عبدالله بن حبیب ) صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں ۔ تقریب 170 اور ابن عطیہ کا نام حبان بن عطیہ ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ان کا بخاری میں ذکر تو آیا ہے مگر ان کے حالات معلوم نہیں ہو سکے اور نہ ہی کوئی جرح یا تعدیل مل سکی ہے۔
(تھذیب ص 151 ج 2)
گویا موصوف مجہول الحال ہیں۔ مگر کتنے ہی ستم کی بات ہے کہ مؤلف ” تحفہ اہل حدیث ” ان مجہول اور تابعین کو صحابی کہتا ہے۔
غلط بیانی علماء کی شان نہیں ۔ آپ اہل حدیث سے علمی اختلاف کا حق رکھتے ہیں یہ ہم آپ سے نہیں چھینتے‘ مگر اپنی تقلیدی نسبت پر دلائل دینے کے لیے ضروری تھا کہ یہ شائبہ جھوٹ سے مبرا اور صداقت ودیانت پر مبنی ہوتے‘ غالباً آپ اہل حدیث کی عداوت میں علمی حد سے گزر کر بغض و تعصب اور عداوت تک آچکے ہیں۔ یہ ایسے لاعلاج امراض ہیں کہ انسان سے قوت حیا کے علاوہ امانت و دیانت اور سچائی جیسی نعمتوں کو سلب کر کے اندھا و بہر ا بنا دیتا ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو ان سے بچائے۔ آمین یا الہ العلمین
رابعا: ممکن ہے کہ مؤلف تحفہ اہل حدیث یہ جھوٹا بہانہ تلاش کر لے کہ چلو صحابہ نہ سہی تابعی ہی سہی‘ لیکن اس سے خیر القرون سے شخصی نسبت تو بہر حال ثابت ہوتی ہے۔ جو اباً عرض ہے کہ خیر القرون کا تعامل بھی صرف وہی حجت ہے جو بلا نکیر ہو جس پر اعتراض ہو چکا ہو وہ بہر حال لائق دلیل نہیں۔

قدامت اہل حدیث

فرماتے ہیں کہ انگریز کے دور سے پہلے منکر فقہ اہل حدیث نام کا فرقہ پوری کا کات میں نظر نہیں آتا‘ چلو کسی حدیث میں دکھادیں کہ منکر فقہ کو اہل حدیث کہا جاتا ہو۔
(تحفہ اہل حدیث ص 52)
الجواب: اولا: بھائی فقہ سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اگر تو فقہ حنفی کے ابواب الحیل ہیں تو اس کے ہم یقیناً منکر ہیں۔ اگر فقہ سے مراد آپ کی‘ دین کی سمجھ ہے‘ تو اس کے ہم قطعا منکر نہیں۔
یہ آپ کی زیادتی ہے۔
ثانیا: کیا آپ قرآن کی کسی آیت یا حدیث نبوی علیہ التحیۃ والسلام سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اہل سنت امام ابو حنیفہ کے مقلدین کے گروہ حیاتی دیوبندیوں کو کہتے ہیں ؟ اگر آپ ایسی حدیث دکھا دیں تو ہم آپ کو منہ مانگا انعام دینے کے علاوہ یہ تسلیم کرلیں گے کہ حنفیوں کا حیاتی دیو بندی گروہ اہل سنت میں داخل ہے۔
اگر آپ یہ ثابت نہ کر سکیں تو جناب اپنے ہی بنائے ہوئے اصول سے ’’اہل سنت‘‘ سے خارج ٹھہرتے ہیں۔

صحابہ کرام اہل حدیث تھے:۔

یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ صحابہ کرام میں سے کوئی بھی مقلد نہ تھا۔ حنفی ، شافعی، مالکی اور خنبلی وغیرہ سب ان کے بعد کی ایجادیں ہیں۔ حضرت ابو سعید خدریؓ کے پاس جب کوئی نوجوان طلب حدیث کے لیے جاتا تو فرماتے
(مرحبا بوصية رسول الله صلى الله عليه وسلم امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان توسع لكم في المجلس وان تفهمكم الحديث فانكم خلو فنا واهل الحديث بعدنا )
یعنی تمہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی وصیت مبارک ہو ، ہمیں آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے حکم دے رکھا ہے کہ ہم تمہارے لیے اپنی مجالس میں کشادگی کریں اور تمہیں احادیث سمجھائیں۔ تم ہی ہمارے خلفاء ہو اور ہمارے بعد تم ہی اہل حدیث ہو۔
(شرف اصحاب الحدیث ص 12 سند ضعیف ہے۔)
حضرت ابو بکرؓ فرماتے ہیں کہ
(أية ارض تقبلنى واى سماء تظلنى ان قلت في كتاب الله برأيي )
اگر میں قرآن کی کسی آیت کی تفسیر اپنی رائے و قیاس سے کروں تو مجھے کو نسی زمین اٹھائے گی اور کو نسا آسمان سایہ کرے گا۔
(اعلام الموقعین ص 44 ج 1 والا حکام ص 42 ج 6)
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ
(اتقو الرأى في دينكم )
یعنی دین حق میں رائے و قیاس کو دخل دینے سے بچو۔
(الاحکام ص 42 ج 6)
( اياكم واصحاب الراى فانهم أعداء السنن اعيتهم الاحاديث ان يحفظوها فقالوا بالرأى فضلوا وأضلوا )
یعنی تم لوگ اہل الرائے سے بچ کر رہا کرو کیونکہ یہ لوگ سنت نبویہ کے دشمن ہوتے ہیں ۔ اور اہل الرای حدیث نبویہ کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہونے کی وجہ سے رائے و قیاس سے فتوے دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
(الاحکام فی اصول الاحکام ص 42 ج 6‘ و اعلام الموقعین ص 55 ج1)
حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
(لو كان الدين بالراى لكان اسفل الخف أولى بالمسح من اعلاه وقد رايت رسول اللهﷺ يمسح على ظاهر خفيه )
یعنی اگر دین رائے سے ہو تا تو موزوں کے اوپرمسح کرنے کی بجائے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا مگر میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو دیکھا کہ آپ موزوں کے اوپر ہی مسح کرتے تھے۔
(ابوداود مع عون ص 63 ج 1 )

تابعین بھی اہل حدیث تھے:۔

صحابہ کرام کے بعد امت مرحومہ کا امین گروہ تابعین کرام بھی اہل حدیث ہی تھا۔ کوئی تابعی حنفی ، شافعی، مالکی اور حنبلی نہ تھا‘ نہ ہی وہ کسی کی رائے و قیاس کو قرآن و سنت سے بالا اور فائق جان کر اس کی تقلید کرتے تھے۔
خلیفہ ہشام بن عبد المالک نے حضرت امام زہری سے پوچھا
(این انتم اصحاب الحديث )
اہل حدیثو تم کہاں تھے۔
(تذکرة الحفاظ ص 110 ج 1)
امام شافعی نے اپنے شاگر د عامر کو ایک موقع پر کہا تھا کہ
(امض بنا نفر من أصحاب الحديث )
اہل حدیث کا ایک گروہ بھی ہمارے ساتھ چلنا چاہیے۔
( ایضاً ص 87 ج 1)
امام ابن قتیبہ فرماتے ہیں کہ اعمش اور علاء بن عبدالرحمٰن اہل حدیث تھے۔
(المعارف ص 230,231)
ابن عمار فرماتے ہیں کہ عبد المالک‘ عاصم الاحوال‘ عبید اللہ بن عمر اور یحییٰ بن سعید انصاریؒ کو فہ اور مدینہ کے اہل حدیث کے ترازو ہیں۔
( تاریخ بغداد ص 105 ج 14)

اتباع تابعین بھی اہل حدیث تھے:۔

امام سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ فرشتے آسمان کے اور اہل حدیث زمین کے چوکیدار ہیں۔
(شرف اصحاب الحدیث ص 65)
امام مسلم فرماتے ہیں کہ
ایوب سختیانی‘ ابن عون ، مالک بن انس ، شعبہ ‘ یحییٰ بن سعید قطان‘ عبد الرحمن بن مهدی اور ان کے بعد آنے والے اہل حدیث تھے۔
(مقدمہ صحیح مسلم ص 23)

اتباع تبع تابعین

اتباع تابعین کے بعد کا دور تدوین حدیث کا اہم دور تھا۔ جس میں بڑے بڑے آئمہ حدیث موجود تھے۔ مثلاً امام شافعی‘ امام علی بن مدینی‘ امام احمد بن حنبل‘ امام ابن معین‘ امام بخاری‘ امام مسلم‘ امام ابو زرعہ‘ امام ابو داود‘ امام داود ظاہری‘ امام ابو حاتم‘ امام ترمذی‘ امام نسائی‘ امام ابن ماجہ‘ امام ابن خزیمہ‘ وغیرہ تمام کے تمام اہل حدیث تھے۔ اور اپنے اپنے دور میں اہل حدیث کے امام و سردار تھے ۔ یہ بزرگ ہستیاں اپنے اندر ایک مستقل جماعت وانجمن تھے ۔ خالص کتاب و سنت کے پیروکار اور داعی تھے ۔ وہ بلا شرکت غیر ان پر عمل کرتے اور اس کی طرف دعوت دیتے تھے۔
ان کی تدوین کردہ کتب آج بھی مارکیٹ سے مل سکتی ہیں۔ بعض عربی میں ہیں تو بعض کے تراجم بھی چھپ چکے ہیں‘ ان کا مطالعہ کیجیے اور ان لوگوں کی سنت سے محبت و عقیدت کا اندازہ لگا یٔے۔ یہ پہلے ایک عنوان قائم کرتے ہیں۔ اس کے نیچے فرمان نبوی نقل کرتے جاتے ہیں کہیں آپ کو اقوال الرجال اور رائے قیاس کی بو نہ آئے گی۔ کسی مقام پر یہ لوگ سنت سے الجھتے ہوئے دکھائی نہ دیں گے ۔ ہاں وہ بشر تھے ممکن ہے کہ کسی جگہ وہ عنوان قائم کرنے میں غلطی کا شکار ہوئے ہوں مگر قاری کو پڑھنے اور عمل کے لیے جو نسخہ شفادیتے ہیں وہ سنت سے دیتے ہیں۔
یہی اہل حدیث کا مذ ہب و موقف ہے۔

ایک مستقل مکتب فکر:-

جھنگوی صاحب نے اس حقیقت پر پردہ ڈالتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ آپ کو زبردست ٹھوکر لگی ہے‘ یا لگادی گئی ہے ۔ کتابوں میں مورخین کے بارے میں اہل تاریخ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، مفسرین کے لیے اہل تفسیر کا لفظ آتا ہے‘ اسی طرح محد ثین کے لیے اہل حدیث کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ غیر مقلدین کے لیے نہیں۔ آپ کسی حدیث شریف میں یا شرح حدیث میں دکھا دیں کہ
(تحفہ اہل حدیث ص 51)
فقہ کے منکر کو اہل حدیث کہا گیا ہو۔
پہلے تو آپ کا یہی جھوٹ ہے کہ کتب عقائد وفقہ میں جہاں شارحین حدیث اختلاف مذاہب بیان کرتے ہیں‘ وہاں یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ‘ اہل تاریخ کا یہ عقیدہ ہے یا اس مسئلہ شرعی میں اہل تفسیر کا یہ موقف ہے۔ آپ کسی مستند کتاب سے اس پر صرف ایک ہی حوالہ نقل کر دیں۔ مگر ایسا قطعاً ممکن نہیں۔ اس بات کی پر زور تردید تو آگے آرہی ہے سرے دست ہم آپ پر اتمام حجت کے لیے ایک دیو بندی عالم مولانا مفتی رشید احمد صاحب کا قول عرض کرتے ہیں۔ مولا نا فرماتے ہیں کہ
تقریباً دوسری تیسری صدی ہجری میں اہل حق میں فروعی اور جزوی مسائل کے حل کرنے میں اختلاف انظار کے پیش نظر پانچ مکاتب فکر قائم ہو گئے ۔ یعنی مذاہب اربعہ اور اہل حدیث ۔اس زمانے سے لے کر آج تک انہی پانچ طریقوں میں حق کو منحصر سمجھا جاتا رہا۔
(احسن الفتاویٰ ص 316 ج 1 و مودودی اور تخریب اسلام ص 20)
دیکھیے مولانا کتنی وسعت اور روشن خیالی سے حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔ مگر آپ ہیں کہ
انہیں اہل تاریخ اور اہل تفسیر کے ساتھ ملا رہے ہیں۔
بھائی اگر اہل حدیث کا معنی یہ ہے جو حدیث بیان کرے تو اہل فقہ کا معنی یہ ہو گا کہ جو فقہ بیان کرے اور حنفی کا معنی ہو گا جو حنفی آئمہ کے اقوال تحریر تو کرے مگر اس پر عمل نہ کرے۔ سبحان اللہ آپ جیسے عالم دنیا میں مزید پیدا ہو گئے تو پھر قیامت قریب ہے۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ کسی کتاب سے منکر فقہ کا نام اہل حدیث دکھا دو ۔ حالانکہ ہم متعدد بار صراحت کر چکے ہیں کہ ہم فقہ کے قطعاً منکر نہیں‘ یہ آپ کی زیادتی ہے۔ آپ کا مطالبہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کو کہا جائے کہ منکر حدیث کا نام اہل فقہ ثابت کرو۔
آپ کے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ
ان لوگوں کا طرز عمل یہ ہوا کہ اول کتاب اللہ دیکھتے اگر اس میں حکم نہ ملتا تو حدیث دیکھتے‘ اگر اس سے بھی اطمینان نہ ہوتا تو فتویٰ صحابہ و تابعین کا دیکھتے۔ اگر کہیں سے حکم نہ ملتا تو بنا چاری قیاس کرتے یہ ابتدا ہے اہل حدیث کی‘ ہر چند کہ اس وقت دو فریق ہو گئے تھے ۔ اہل تخریج واہل حدیث ۔ لیکن ان میں کوئی معاندت یا مخاصمت نہ تھی بلکہ اکثر اہل حدیث سے اہل تخریج کو کوئی حدیث اپنے مذہب کے مخالف پہنچتی اپنا مذ ہب ترک کرتے ایسے ہی اہل حدیث کو اگر کوئی اپنی رائے کا مخالف ہونا صحابہ یا تا بعین کے ساتھ معلوم ہو تا وہ اس کو ترک کرتے‘ اور ایک دوسرے کے پیچھے اقتدا کرتا اور اپنے کام کو خدمت دین سمجھ کر انجام دیتے ( امداد الفتاویٰ ص 296 ج 5) ملخصاً
دیکھے مولانا تھانوی اہل حدیث کو ایک مستقل مکتب فکر تسلیم کرتے ہیں اور انہیں قاتلین فقہ میں شمار کرتے ہیں۔ بلکہ اپنی رائے وقیاس پر صحابہ و تابعین کی رائے کو مقدم رکھنے کا اہل حدیث کا دستور بیان کرتے ہیں۔

شارحین حدیث کی گواہی:

مقد مین کی کوئی بھی شرح حدیث کی کتاب کو اٹھا کر دیکھ لیجیے امت مرحومہ کے اختلاف کو بیان کرتے ہوئے اہل حدیث کا مؤقف بھی بیان کرتے ہیں۔ ہماری معلومات کی حد تک شروح حدیث میں امام ابن عبدالبر کی‘ التمهيد لما في الموطا من المعاني والاسانيد قدیم ترین کتابوں میں شمار کی جاتی ہے وہ تقریباً ہر مسئلہ میں اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے اہل حدیث کا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں۔
امام اگر نسیان وغیرہ سے بغیر طہارت کے نماز پڑھادے تو مقتدیوں کی نماز ہو جائے گی یا نہ ہو گی۔ اس اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
(وبهذا قال جمهور فقها الامصار واهل الحديث)
یعنی جمہور فقہا اور اہل حدیث کا موقف ہے کہ مقتدیوں کو نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
(التمهيد ص 183 ج 1)
حنفیہ کا موقف ہے کہ خمر فقط وہی ہے جو انگور کے شیرہ سے تیار کی جائے جبکہ جمہور امت کے نزدیک خمر (شراب) کی تعریف یہ ہے کہ جو عقل کو خراب کر دے اور یہ ہر مسکر شراب کا نام ہے خواہ انگور سے ہو یا کسی اور چیز سے‘ اس اختلاف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
(وقال اهل المدينة وسائراهل الحجاز وعامة اهل حديث وأئمتهم ان كل مسکر خمر حكمه حكم خمر العنب )
یعنی اہل مدینہ اور تمام حجازی علماء اور عام اہل حدیث اور ان کے آئمہ کے نزدیک پر مسکر (شراب) خمر ہے اور اس کا حکم انگور کے شراب جیسا ہے۔
(التمہید ص 246 ج1)
(۳) بلی کے جھوٹے پانی کی طہارت و نجاست پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام مالک اور اہل مدینہ‘ امام لیث بن سعد اور اہل مصر سے ان کے موافقین ، شام سے امام اوزاعی‘ اہل عراق سے سفیان ثوری ‘امام شافعی اور ان کے تلامذہ‘ امام احمد بن حنبل امام اسحاق‘ امام ابو ثور‘ امام ابو عبید و جماعت اصحاب الحدیث اور اہل حدیث کے نزدیک بلی کا جھوٹا پانی پاک ہے۔
(التمهيد ص 325 ج 1)
(۴) مرسل کی حجیت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اثر میں انقطاع کا ہونا اس پر وجوب عمل کی ممانعت پر علت ہے‘
(وقال سائر اهل الفقه وجماعة اصحاب الحديث في كل الامصار فيما علمت)
یعنی تمام فقہا اور جماعت اہل حدیث کے تمام لوگوں کا یہی موقف ہے۔
(التمہید ص 5 ج 1)
(۵) مجہول آدمی کی روایت کے عدم قبول کے موقف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
(و مارايت احداً من أهل الحديث يخالف هذا المذهب )
یعنی میں نے مجہول آدمی کی روایت کو قبول نہ کرنے کے مخالف کسی ایک بھی اہل حدیث کو نہیں دیکھا۔
(التمهيد ص 39 ج 1)
ہم نے صرف ایک ہی پہلی جلد سے نشان دہی کروائی ہے۔ اگر امام ابن عبدالبر کے اس طرح کے اقوال کو جمع کیا جائے تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ ہم صرف نیچے مختصر جلد و صفحات کی نشان دہی کرواتے ہیں جہاں اختلاف مذاہب بیان کرتے ہوئے اہل حدیث کا موقف بھی بیان کیا ہے۔
جلد دوم ص 5‘137 ‘176‘315 ‘304‘349‘
جلد سوم ص 40‘53 ‘ 104 ‘ 188 ‘ 237 ‘ 275 ‘ 64 ‘ 75 ‘ 163 ‘ 264 ‘ 154
جلد چہارم ص 314 ‘ 109 ‘ 162 ‘ 37 ‘ 251 ‘ 289 ‘ 336
جلد پنجم ص 115 ‘ 239 ‘ 210 ‘ 11 ‘ 42 ‘ 268
جلد ششم ص 69 ‘ 96 ‘ 18 ‘ 206 ‘ 261 ‘ 438 ‘ 445 ‘ 449 ‘ 339 ‘ 416 ‘ 472 ‘ 488
جلد ہفتم ص 13 ‘ 33 ‘ 172 ‘ 51 ‘ 148 ‘ 83
جلد ہشتم ص 176 ‘ 171 ‘ 412 ‘ 107 ‘ 411 ‘ 377
جلد نہم ص 161 ‘ 165 ‘ 79 ‘ 243 ‘ 252 ‘ 164 ‘ 170 ‘ 184 ‘ 238 ‘ 229 ‘ 220 ‘ 110 ‘ 213 ‘ 216 ‘ 249
جلد دہم ص 51 ‘ 121 ‘ 122 ‘ 225 ‘ 243 ‘ 254 ‘ 53 ‘ 72 ‘ 123
جلد نمبر یاز دهم : ص  137 ‘ 11 ‘ 24 ‘ 48 ‘ 200 ‘ 221
جلد نمبر دوازدهم: ص  127 ‘ 72 ‘ 129 ‘ 251
جلد نمبر سیزاز دهم: ص 80 ‘ 188 ‘ 274 ‘ 321 ‘ 349 ‘ 284
جلد نمبر چہاردهم: ص 58 ‘ 14 ‘ 301 ‘ 13
جلد نمبر پنج دهم: ص 20 ‘ 43 ‘ 44
جلد نمبر شش دهم: ص 341 ‘ 273 ‘ 293 ‘ 294
جلد نمبر ہفت دهم: ص 426
جلد نمبر ہشت دهم ص 202 ‘ 283 ‘ 277
جلد نمبر نوزدهم: ص 37
جلد نمبر بیست وسہ : ص  338 ‘ 258
جلد نمبر بیست و چهار : ص 242

مؤلف تحفہ اہل حدیث کو کھلا چیلنج

جو شخص مذاہب پر لکھی ہوئی کتب کا مطالعہ کرتا ہے یا فقہ اور شروح احادیث کو براہ راست پڑھتا ہے اس پر یہ بات مخفی نہیں کہ آئمہ دین اختلاف مذاہب بیان کرتے ہوئے اہل حدیث کا نقطہ نظر بھی بیان کرتے ہیں۔
ہم پوری ذمہ داری اور اپنے دین و ایمان کی محکمی سے یہ بات عرض کرتے ہیں کہ جھنگوی صاحب دنیا میں کسی مسلمان محقق کی مثال پیش نہیں کر سکتے کہ جس نے اپنی تالیف میں اختلاف مذاہب کا التزام کیا ہو‘ وہ مسلک محد ثین یعنی اہل حدیث کے مؤقف کو بیان نہ کرے ۔ جھنگوی صاحب سر توڑ کوشش کر کے اور مبتد عین دیابنہ کی رد اہل حدیث میں سرگرم پوری ٹیم کو ساتھ ملا کر کسی کتاب کی نشان دہی کریں ۔ یہ راقم اپنے قصور علم کے با وجود ثابت کر دے گا کہ فلاں فلاں مقام پر اس نے اہل حدیث کا مذہب بیان کیا ہے۔
اس کے باوجوداگر جھنگوی صاحب انکار پر ہی اصرار کریں تو ایسے ضدی کا کوئی علاج نہیں۔

امام ابو حنیفہ کے شاگر دامام عبداللہ بن مبارک کی گواہی

حضرت امام عبد اللہ بن مبارک متوفی 181ھ فرماتے ہیں کہ
الدين لاهل الحديث والكلام والحيل لاهل الرأي والكذب للرافضة
یعنی دین (اسلام ) اہل حدیث کے پاس ہے ۔ باتیں بنانا اور حیلہ سازی کرنا اہل الرائے کی عادت ہے اور جھوٹ بولنا رافضیوں کا کام ہے۔
(المنتلقى من منہاج الاعتدال ص 480)

اکا بر احناف کی شہادت:۔

فقہ حنفی کی کوئی بھی مبسوط کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے اس میں جگہ جگہ اس کا مصنف لکھتا ہے کہ یہ اہل حدیث کا مذہب ہے‘ یہ دعویٰ ہی دعویٰ نہیں بلکہ آئیے ہم آپ کو ڈھیر سے مٹھی بھر کی نشان دہی بھی کر او د یتے ہیں۔
علامہ تفتازانی متوفی 758ھ بحث اجماع میں ایک مسئلہ کی تحقیق میں فرماتے ہیں کہ
(وعليه عامة أهل الحديث والشافعية )
یعنی اس پر عام اہل حدیث اور شافعیہ بھی ہیں۔
(التلویح ص 354 طبع نول کشور 1292ھ)
دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ
وعند بعض أهل الحديث يوجب العلم لانه ولا عمل الاعن علم
یعنی عمل علم کی فرع ہے۔ جب علم ہی نہ ہو تو عمل کیسے ہوگا۔ اس لیے اہل حدیث کا مذ ہب یہ ہے کہ خبر واحد سے علم اور یقین حاصل ہو گا۔ ( تلویح ص 304)
فخر الاسلام حنفی متوفی فرماتے ہیں کہ
قال بعض أهل الحديث يوجب علم اليقين لما ذكرنا أنه وجب العمل ولا عمل من غير علم وقد ورد الاحاد احكام الاخرة مثل عذاب القبر رؤية الله تعالى بالابصار ولاحظ لذالك الا العلم
یعنی بعض اہل حدیث نے کہا ہے کہ خبر واحد سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ جب عمل واجب ہے تو عمل علم کے بغیر کیسے ہو سکتا ہے ۔ اور آحاد میں عذاب آخرت اور عذاب قبر اور رویت باری تعالیٰ کے متعلق جو کچھ وارد ہوا ہے اس کا مقصد علم اور اعتقاد ہی تو ہے۔
( اصول البزدوی ص 154 بحث خبر آحاد‘ مطبع نور محمد کراچی)
اس کے تحت علامہ عبد العزیز بخاری متوفی فرماتے ہیں کہ
ذهب أكثر أهل الحديث الى ان الاخبار التي حكم اهل الصنعة بصحتها توجب علم اليقين بطريق الضرورة وهو مذهب احمد بن حنبل
یعنی اہل حدیث اور امام احمد بن حنبل کا مذہب یہ ہے کہ جن احادیث کو آئمہ فن نے صحیح کہا ہے وہ یقین کا فائدہ دیتی ہیں۔
(کشف الاسرار ص 291 ج 2)
حاجی خلیفہ کاتب چلمی خفی متوفی 1067 ھ نے اصول فقہ کے تذکرہ میں امام علاؤ الدین حنفی کی کتاب‘ میزان الاصول سے نقل کیا ہے کہ
واكثر التصانيف في أصول الفقه لاهل الاعتزال المخالفين لنا في الاصول ولاهل الحديث المخالفين لنافى الفروع ولا اعتماد على تصانيفهم
اکثر و بیشتر اصول فقہ پر کتابیں اہل حدیث اور معتزلہ کی ہیں۔ اہل حدیث فروع میں ہمارے مخالف ہیں اور معتزلہ اصول میں‘ لہذا ان کی کتابوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
(کشف الظنون ص 110 ج 1‘ وا بجد العلوم ص 71 ج 2)
علامه ابن همام شرح ھدایہ میں تحریر کرتے ہیں کہ
حكمهم عند جمهور الفقهاء وجمهور أهل الحديث حكم البغاة وعند مالك يسفتابون فان تابوا والاقتلوا دفعا لفسادهم لا لكفر هم وذهب بعض أهل الحديث إلى أنهم مرتدون لهم حكم المرتدين
یعنی جمہور فقہاء اور اہل حدیث کے نزدیک خوارج باغی ہیں ۔ امام مالکؒ کے نزدیک ان لوگوں سے تو بہ کروائی جائے۔ اگر توبہ کرلیں تو فبہا ور نہ انہیں فساد ختم کرنے کی غرض سے قتل کر دیا جائے اور یہ قتل ان کے کفر کے سبب نہ ہو گا۔ اور بعض اہل حدیث کا مؤقف ہے خوارج مرتد ہیں اور ان کے لیے مرتدین کا حکم ہے۔
(فتح القدیر ص 334 ج 5)
کتاب السیر باب البغاة‘ یہی موقف علامہ ابن نجیم نے‘ کنزہ کی شرح البحر الرائق ص 140 ج 5 میں اہل حدیث کا بتایا ہے۔ اور علامہ شامی نے فتاویٰ شامی ص 262 ج 4 میں نقل کیا ہے۔ علامه قرشی حنفی متوفی 775 ھ فرماتے ہیں کہ
(وقال كثير من اصحاب الحديث انه يقع على من لقى الرسول وسمع منه شيئا ولومرة )
اور بہت سے اہل حدیث نے کہا ہے کہ جسے ایک بار بھی لقاء و سماع نبوی علیہ التحیة والسلام ہوا ہے وہ صحابی ہے۔
(الجواہر المضيه ص 411 ج 2)
ملا علی القاری حنفی متوفی 1014 ھ شرح فقہ اکبر میں ایمان کی بحث میں فرماتے ہیں کہ
قال ابو حنيفة وسفيان الثورى ومالك والاوزاعي والشافعي واحمد وعامة الفقهاء واهل الحديث
یعنی اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ‘ امام سفیان ثوری‘ امام مالک‘ امام اوزاعی‘ امام شافعی‘ امام احمد اور عام فقہاء اور اہل حدیث کا مسلک و فتویٰ یہی ہے۔
(شرح فقہ اکبر ص 143)

ڈھیر سے مٹھی بھر:-

کی نشان دہی ہم نے کر دی ہے اگر اس سلسلہ کی اکا بر احناف کی عبارات کا استیعاب کیا جائے تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ ہم نے مزید کئی چیزیں بھی بیان کرنی ہیں۔ اور کتاب ہمارے اندازے سے پہلے ہی چار گنازیادہ ہو چکی ہے ۔ لہذا ان ہی چند عبارات پر اکتفا کرتا ہوں ۔ ہاں اگر ہم مجبور کر دیے گئے اور ضرورت پڑی تو اس سلسلہ کو ہم تفصیل سے بھی عرض کر دیں گے۔ ان شاء اللہ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!