ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری کا تعارف
ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری پاکستان کے ممتاز ماہر اقتصادیات ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے ایم ایس سی اور یونیورسٹی آف سسیکس، انگلینڈ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی تحقیقاتی دلچسپیوں میں فنانشل و انڈسٹریل اکنامکس، جدید سرمایہ دارانہ نظام اور سیاسی و اخلاقی فلسفے شامل ہیں۔ آپ مختلف برطانوی جامعات، اقوام متحدہ کے اداروں اور پاکستان کے مالیاتی اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ (کراچی) اور صفا یونیورسٹی میں پڑھانے کے علاوہ ڈان کے اکنامکس اینڈ بزنس صفحے پر بھی لکھتے رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ اقتدار کی تشکیل
ریاست اور معاشرے کا فرق
- معاشرہ: رضاکارانہ تعلقات پر مبنی ہوتا ہے، جہاں افراد اپنی مرضی سے روابط قائم کرتے ہیں۔
- ریاست: ایک جبری نظامِ اقتدار ہے، جس میں طاقت کا استعمال کر کے تعلقات کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔
لبرل سرمایہ دارانہ ریاست میں اصل اقتدار کس کے پاس ہوتا ہے؟
- لبرل ریاست میں اقتدار ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو سرمایہ دارانہ عقلیت پر پختہ ایمان رکھتے ہیں۔
- سرمایہ دارانہ عقلیت کا مطلب ہے کہ افراد کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکیں۔
- وہ افراد جو اس عقلیت کو مکمل طور پر اپناتے ہیں، اقتدار پر فائز ہوتے ہیں اور یہی عقلیت ان کے فیصلوں کی بنیاد ہوتی ہے۔
فرمانروائی کا طریقہ اور اقتدار کی استحکام
سرمایہ دارانہ عقلیت کو کیسے مستحکم کیا جاتا ہے؟
- سرمایہ دارانہ عقلیت اسی وقت مستحکم ہو سکتی ہے جب پورا معاشرہ اسے قبول کرے اور اسے واحد معقول نظام سمجھ کر فیصلے کرے۔
- ریاستی سطح پر سرمایہ دارانہ عقلیت کے غلبے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو آفاقی (universal) بنایا جائے اور تمام افراد اس پر عمل کریں۔
جمہوریت اور آمریت میں فرق
لبرل ریاست میں دو نظامِ حکومت رائج ہو سکتے ہیں:
- جمہوری نظام
- آمرانہ نظام
دونوں نظاموں میں بظاہر فرق ہوتا ہے لیکن ان کی روح ایک ہی ہوتی ہے، یعنی سرمایہ دارانہ عقلیت۔ جمہوریت یا آمریت کے تحت کیے گئے تمام فیصلے سرمایہ دارانہ تعقل کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
ریاستی اقتدار کے مراکز
جمہوری اور آمرانہ طرزِ حکومت میں اقتدار کی تقسیم
- جمہوری طرز حکومت میں ریاستی اداروں، میڈیا، عدلیہ، اور منتخب نمائندوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔
- آمریت میں فوج، پولیس اور بیوروکریسی مرکزی کردار ادا کرتے ہیں، لیکن دونوں صورتوں میں مقصد سرمایہ دارانہ نظام کی بقا اور اس کی توسیع ہے۔
ریاستی اقتدار کے ادارے اور افراد
مخصوص افراد کا کردار
- دانشور (Intellectuals): یہ افراد سرمایہ دارانہ عقلیت کے حق میں دلائل فراہم کرتے ہیں اور معاشرتی سوچ کو اس کے مطابق ڈھالنے میں مدد دیتے ہیں۔
- کلچرل ہیروز: کھلاڑی، سائنسدان، اور میڈیا شخصیات کو رول ماڈل بنا کر عوام میں مقبول کیا جاتا ہے تاکہ وہ ان کی زندگی کو اپنا آئیڈیل سمجھیں۔
- ٹیکنوکریٹس اور بیوروکریٹس: یہ افراد سرمایہ داری کے مجموعی مفادات کے تحت قوانین اور ضوابط بناتے اور ان کا نفاذ کرتے ہیں۔
- فوج اور پولیس: یہ ادارے ریاستی طاقت کے استعمال سے سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین کو کنٹرول میں رکھتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ ریاست میں اہم ادارے
- کارپوریشنز: کارپوریشنز سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے ستون ہیں، جہاں سرمائے کی بڑھوتری ہی واحد مقصد ہوتا ہے۔
- بینک اور مالیاتی ادارے: بینک عوام کی بچتوں کو سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرتے ہیں اور سرمایہ دارانہ معیشت کو فروغ دیتے ہیں۔
- تعلیمی نظام: تعلیمی نظام سرمایہ دارانہ عقلیت کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے، جہاں مذہبی تعلیمات کے بجائے سرمایہ دارانہ نظریات سکھائے جاتے ہیں۔
- عدلیہ اور مقننہ: عدلیہ اور پارلیمنٹ قوانین کی تشریح اور ان پر عمل درآمد کے ذریعے سرمایہ دارانہ مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔
سرمایہ دارانہ عقلیت کا نفاذ: تین بنیادی مراحل
- سرمائے کو قدر کا واحد پیمانہ بنانا: معیشت میں ہر فیصلے کی بنیاد سرمایہ کی بڑھوتری پر ہو۔
- سرمایہ دارانہ عقلیت کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنا: خاندانی تعلقات، تعلیم، مذہب حتیٰ کہ سماجی سرگرمیوں کو بھی سرمائے کے اصولوں کے مطابق ڈھال دیا جائے۔
- عوامی قبولیت حاصل کرنا: سرمایہ دارانہ نظام کو اتنا عام کیا جائے کہ لوگ اسے اپنی خوشحالی اور کامیابی کی واحد شرط سمجھنے لگیں۔
نتیجہ
لبرل سرمایہ دارانہ ریاست میں اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو سرمایہ دارانہ عقلیت پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں۔ چاہے حکومت جمہوری ہو یا آمرانہ، بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو مزید مضبوط اور وسیع کیا جائے۔ عوام کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس نظام کا حصہ بنایا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں اس کا غلبہ ہمیشہ قائم رہے۔