لبرل ازم اور اخلاقیات کی کشمکش وحی یا عقل

بارسلونا، اسپین میں منفرد مگر متنازع احتجاج

بارسلونا، اسپین میں پچھلے سال ایک منفرد مگر متنازع احتجاج دیکھنے میں آیا، جس میں جانوروں کے حقوق کے حامی کچھ کارکنان نے برہنہ ہو کر اپنے جسموں پر مصنوعی خون ڈال کر سڑک کنارے لیٹنے کا طریقہ اپنایا۔ اس مظاہرے میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔ اگرچہ ان کا مقصد جانوروں کو کھال کے حصول کے لیے قتل کرنے کے خلاف آواز اٹھانا تھا، جو بظاہر ایک مثبت مطالبہ ہے، لیکن جس انداز میں یہ احتجاج کیا گیا، وہ انسانی عقل و شعور پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔

مغربی معاشرت اور اخلاقی ابہام

مغربی معاشرے میں اس طرح کے عجیب و غریب احتجاجات اور ان کے "مثبت” سمجھے جانے کے نتیجے میں جو اخلاقی ابہام اور سماجی اثرات جنم لے رہے ہیں، وہ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ جب انسانی عقل وحی سے بے نیاز ہو کر آزادانہ راستہ اختیار کرتی ہے، تو وہ بے ہنگم اور غیر متوازن ہو جاتی ہے۔

مذہب کے بغیر اخلاقیات کی بے سمتی

مذہب کی تعلیمات کے بغیر کوئی بھی فکری نظریہ معاشرتی سطح پر اخلاقی اقدار کے لیے مستحکم اور معیاری بنیاد فراہم نہیں کر سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غیر مذہبی فکر کے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں جو اخلاقیات کو مقصدی حیثیت دے سکے۔ مثال کے طور پر:

  • برہنہ ہو کر احتجاج کرنا کیوں غلط ہے؟
  • نکاح کے بغیر ازدواجی تعلقات قائم کرنا کیوں ناپسندیدہ ہے؟
  • والدین کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر خود کو سماجی کارکن کہلانا کیوں قابل اعتراض ہے؟
  • امیروں سے دولت چھین کر غریبوں میں بانٹ دینا کیوں غلط سمجھا جاتا ہے؟

یہ تمام سوالات ایسی صورت حال پیدا کرتے ہیں، جہاں عقل اختلافات کا شکار ہو جاتی ہے اور کوئی مشترکہ مقصدی اصول وضع نہیں کر پاتی۔

وحی کی رہنمائی اور اخلاقی اصول

سماجی اور اخلاقی اقدار کو عالمگیر مقصدیت صرف انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات ہی فراہم کر سکتی ہیں اور ہمیشہ کرتی آئی ہیں۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ مغربی دنیا میں بھی اکثر لوگ ایسی غیر اخلاقی حرکات کو ناپسند کرتے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے اخلاقی اصول بھی کسی نہ کسی حد تک مذہب اور انبیائی تعلیمات کے اثرات سے متاثر ہیں۔ بصورت دیگر، کیا لبرل ازم کے پاس کوئی ایسی مضبوط اخلاقی بنیاد ہے جو عوامی برہنگی کو اخلاقی جرم قرار دے سکے؟

جدید لادین نظریات اور اسلام

ہیومن ازم، لبرل ازم، فیمنزم اور دیگر جدید غیر مذہبی نظریات کی اسلام سے بنیادی تکرار اسی نکتے پر ہے کہ انسانی شعور ایک ایسا ذریعہ (tool) ہے جو مادی علوم میں تو ایک ماخذ کا درجہ رکھتا ہے، لیکن عقیدے اور اخلاقیات میں اسے وحی کا تابع ہونا چاہیے۔ یہی اصول انسانی زندگی میں توازن اور اخلاقی استحکام پیدا کرتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1