واقعہ یہ ہے کہ قبیلہ ثقیف کے لوگ اپنے بت لات کو توڑنے سے خوف کھانے لگے، انھیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی مصیبت نہ آ پڑے، ان کے وفد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ «ربه» (اشاره لات بت کی طرف ہے) کا کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا کہ اسے روند ہی ڈالیں وہ بولے : نہ نہ اگر لات کو علم ہو گیا کہ ہم اسے توڑنا اور روندنا چاہتے ہیں تو وہ ہمارے لوگوں کو قتل کر ڈالے گا۔ اس موقع پر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بولے : ”عبد یالیل“ بہت افسوس کی بات ہے تو کتنا ناسمجھ اور احمق ہے وہ لات تو پتھر ہے۔ وہ لوگ عمر رضی اللہ عنہ کی بات سن کر کہنے لگے، اے ابن خطاب ! ہم تیرے پاس تو نہیں آئے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے۔ حضرت آپ خود ہی اسے گرانے اور توڑنے کا بندوبست کریں۔ ہم تو اسے نہ گرائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کچھ لوگ بھیج دوں گا۔ جو اسے منہدم کر دیں گے۔ چنانچہ وہ وفد واپس چلا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت بھیج دی جن میں ابوسفیان بن حرب اور مغیرہ بن شعبہ ثقفی شریک تھے۔ اس جماعت کے امیر حضرت خالد بن ولید تھے۔ جب یہ لوگ وہاں پہنچے اور بت کو توڑنے کا کام شروع ہوا تو قبیلہ کے تمام مرد، عورتیں، بچے حتی کہ پردہ نشین عورتیں بھی پردے سے باہر آ گئیں اور یہ لوگ وہاں سے دور چلے گئے۔ وہ رلات کو منہدم ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور ان کا گمان تھا کہ وہ بت اپنی حفاظت خود کرے گا، چنانچہ مغیرہ بن شعبہ نے ایک بڑا سا کلہاڑا لیا اور پھر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کیا میں تمھیں ایک تماشا نہ دکھاؤں؟ ساتھیوں نے کہا کیوں نہیں ؟ تو انہوں نے اس کلہاڑے سے بت پر ایک ضرب لگائی اور ایک چیخ مار کر منہ کے بل گر گئے اور یہ ظاہر کیا کہ گویا بے ہوش ہو گئے ہیں۔ ادھر وادی طائف ان لوگوں کی خوشی اور شور و شغب سے گونج اٹھی کہ لات نے مغیرہ کو گرا لیا ہے اور بولے : اب بتاؤ مغیرہ ! اگر ہمت ہے تو اور مارو ! کیا تمہیں خبر نہ تھی کہ یہ اپنے دشمن کو ہلاک کر ڈالتا ہے۔ جس میں ہمت ہو آگے بڑھے اور اسے توڑ دکھائے ! اللہ کی قسم ! اس کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔
وہ لوگ اسی قسم کی باتیں بنا رہے تھے کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ ہنستے ہوئے اٹھے اور بولے : والله ! اے بنو ثقيف ! میں تمہارے ساتھ مذاق کر رہا تھا۔ یہ کمینی تو مٹی اور پتھر ہے۔ پھر دروازے پر چوٹ لگائی اور اسے پاش پاش کر دیا۔ پھر اس کی دیواروں پر چڑھ گئے اور اسے گرانے لگے حتی کہ اسے زمین کے برابر کر دیا۔
اس کا چابی بردار بولا:، اس کی بنیاد کو ضرور غصہ آئے گا اور انہیں زمین میں دھنسا گا۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بولے : مجھے چھوڑیے میں اس کی بنیاد بھی کھود ہی ڈالوں گا۔ حتی کہ اس کی مٹی تک نکال باہر کی اور پھر اسے جلا کر خاکستر کر دیا اور اس کے اچھاڑ اور زیورات لے کر چلتے بنے۔
تحقیق الحدیث :
[اديان العرب فى الجاهلية از نعمان بن الجار م ص : 50، سيرة ابن هشام مع الروض الانف للسهيلي 314/4 طبع دار الكتب العلميه بيروت، البدايه و النهايه 33/5، 34]
ابن اسحاق نے اس کو بغیر سند کے بیان کیا ہے،
ابن کثیر رحمہ اللہ نے موسیٰ بن عقبہ سے بغیر سند نقل کیا ہے، بغیر سند کے کی واقعہ کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔