لاؤڈسپیکر کے حرام ہونے کا تاریخی پس منظر
تحریر: وقار اکبر چیمہ

اسلامی معاملات اور جدید ٹیکنالوجی

اسلامی معاملات میں وقتاً فوقتاً جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر اختلافات سامنے آتے رہے ہیں۔
ایک عام رائے یہ ہے کہ "علماء ہر قسم کی ترقی کے خلاف ہیں”، خاص طور پر جب لاؤڈسپیکر کے حرام ہونے کی بات کی جاتی ہے۔
تاہم، اس معاملے کا تفصیلی جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ علماء جدید ٹیکنالوجی کے مخالف نہیں، بلکہ غیر محتاط تقلید اور غیر اخلاقی استعمال کے خلاف ہیں۔

علماء اور لاؤڈ سپیکر کا مسئلہ

لاؤڈسپیکر کو ایک وقت میں حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ فتویٰ معروف عالم دین مولانا اشرف علی تھانویؒ نے دیا تھا۔
ان کے فتاویٰ "امداد الفتاویٰ” جلد اول میں شامل ہیں، جن کی تدوین مفتی شفیع عثمانیؒ نے کی۔
مولانا تھانویؒ کے فتوے کے حوالے سے درج ذیل تفصیلات اہم ہیں:

پہلا فتویٰ اور اس کی بنیاد

  • پہلا فتویٰ: رمضان المبارک 1346ھ (فروری 1928ء) میں مولانا تھانویؒ نے لاؤڈسپیکر کو حرام قرار دیا۔ اس کے بعد ذوالحجہ 1346ھ (مئی 1928ء) میں دوبارہ یہی موقف اپنایا گیا۔
  • غلط فہمی کی بنیاد: یہ رائے اس وقت کی گئی جب اس آلے کے بارے میں معلومات بہت محدود تھیں۔ اسے "گراموفون” سے مشابہ سمجھا گیا، جو اس وقت زیادہ تر موسیقی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
  • عبادات میں ممانعت: لاؤڈسپیکر کے استعمال سے متعلق ابہام کی وجہ سے اسے نماز کے لیے غیر موزوں قرار دیا گیا۔

ماہرین سے رجوع

مولانا تھانویؒ نے معاملے کی تحقیق کے لیے ماہرین سے رجوع کیا۔ ان میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں شامل تھے، جن کے نام امداد الفتاویٰ میں درج ہیں:

  • سید شبیر علی (ایم۔اے، پروفیسر محکمہ سائنس، علی گڑھ)
  • برج نندر (بی۔ایس۔سی، ایلگزینڈر ہائی سکول، بھوپال)

ماہرین کی رائے اور تبدیلی

  • ماہرین کی رائے: جب ماہرین نے وضاحت کی کہ لاؤڈسپیکر آواز کو محض بلند کرتا ہے، تو عبادات کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں اس کے استعمال کی اجازت دے دی گئی۔
  • بعد کی تحقیق: محرم الحرام 1357ھ (مارچ 1938ء) میں مولانا تھانویؒ نے خطبات میں لاؤڈسپیکر کے استعمال کی اجازت دی، مگر نماز میں اب بھی اس سے پرہیز کا مشورہ دیا۔

مفتی شفیعؒ کا کردار

مولانا تھانویؒ کی وفات کے بعد مفتی شفیعؒ نے فتویٰ پر نظرثانی کی۔
قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان کے ماہرین نے بتایا کہ لاؤڈسپیکر آواز کو ریکارڈ نہیں کرتا، بلکہ صرف بلند کرتا ہے۔
اس وضاحت کے بعد مفتی شفیعؒ نے 1953ء میں لاؤڈسپیکر کے استعمال کو نماز میں جائز قرار دیا۔

علماء کا محتاط رویہ

  • علماء کا طرزعمل محتاط تھا اور ان کے فیصلے محدود معلومات پر مبنی تھے۔
  • جیسے ہی حقیقت واضح ہوئی، انہوں نے اپنی آراء سے رجوع کرلیا، جو ان کی فکری دیانتداری کا ثبوت ہے۔
  • عبادات کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ انتہائی احتیاط سے کیا جاتا ہے تاکہ بنیادی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔

اہم نکات

  • پہلا فتویٰ محدود معلومات پر مبنی تھا اور جدید تحقیق کے بعد تبدیل ہوا۔
  • علماء نے ماہرین کی رائے کو اہمیت دی اور حقیقت واضح ہونے پر اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔
  • عبادات میں احتیاط کا اصول اپنانا علماء کی عملی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتا ہے۔
  • مفتی شفیعؒ کی تحقیق نے لاؤڈسپیکر کے استعمال کو جائز قرار دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1