قیامت کے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جھنڈا اٹھانے کی روایت کا تحقیقی جائزہ
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

قیامت کے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ جھنڈا اٹھائیں گے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا کون اٹھائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اسے دنیا میں اٹھاتا رہا۔ یعنی علی رضی اللہ عنہ
[ميزان الاعتدال : 5، 5/4 واخرجه ابن حبان فى المجروحين 54/3]
یہ بات تو اس وقت درست ہوتی جب کہ ہر غزوہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں جھنڈا ہوتا۔ لیکن خیبر کے قلعہ قموص کے علاوہ کسی وقت بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں جھنڈا نہیں رہا۔ ہاں جنگ احد میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا دیا گیا۔ فتح مکہ کے وقت ابو عبیدہ زبیر بن العوام اور خالد بن الولید رضی اللہ عنہم علم بردار تھے۔ جنگ ذات السلاسل میں حضرت عمرو بن العاص علم بردار تھے۔ اگر فرض کرو راوی یہ کہتا کہ قیامت کے روز تمام وہ لوگ بالترتیب جھنڈے اٹھائیں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جھنڈے اٹھاتے رہے تو بات کچھ سوچنے کے قابل ہوتی۔
یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہر غزوہ میں کم از کم تین جھنڈے ہوتے ایک مہاجرین کا اور دو انصار کے، اس لحاظ سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اٹھانے والے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ بات درست نہیں۔
پھر حضرت جابر رضی اللہ عنہ ان افراد میں داخل ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے انہیں صرف اس لیے یاد کیا جاتا ہے کہ وہ رافضیوں کے امام باقر کے استاد ہیں، لیکن پھر بھی ہماری سمجھ سے یہ باہر ہے کہ بوقت ضرورت اپنا کاروبار چمکانے کے لیے انہی حضرات کو جھوٹ بول کر پیش کیا جاتا ہے۔
ناصح بن عبد اللہ البجلی :
اس داستان کا راوی ناصح بن عبد اللہ الکوفی ہے۔ محدثین کا فتوی ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ بخاری کہتے ہیں منکر الحدیث ہے۔ نسائی کا بیان ہے ضعیف ہے۔ فلاس کا بیان ہے کہ یہ متروک ہے۔ یحیی بن معین کہتے ہیں یہ کچھ نہیں [ميزان الاعتدال : 4/7]
دارقطنی کا بیان ہے کہ ناصح بن عبد اللہ، اس کی کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ کوفہ کا باشندہ ہے۔ سماک بن حرب سے روایات نقل کرتا ہے، متروک ہے۔ [كتاب الضعفاء والمتروكين للنسائي، ص167]
امام بخاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں، ناصع، سماک اور اپنے ماموں عبد العزیز بن الخطاب سے حدیث روایت کرتا ہے۔ اس کا شمار اہل کوفہ میں ہوتا ہے۔ منکر الحدیث ہے۔ [كتاب الضعفاء الصغير : 116]
تسائی لکھتے ہیں۔ ناصح بن عبد اللہ کوفہ کا باشندہ ہے۔ ضعیف ہے۔ [الضعفاء والمتروكين للنسائي ص : 100]
اسماعیل بن ابان الغنوی :
ناصح سے یہ روایت نقل کرنے والا اسماعیل بن ابان الغنوی الکوفی ہے۔ یحیی بن معین کا بیان ہے کہ یہ کذاب ہے۔ امام احمد بن جنبل فرماتے ہیں یہ موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔ بخاری کا بیان ہے کہ احمد بن حنبل اور دیگر محدثین نے اس کی حدیث ترک کر دی ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں یہ ثقہ راویوں کے نام سے احادیث وضع کرتا ہے۔ یحیی بن معین کا قول ہے کہ اس نے متعدد احادیث جمع کر کے امام سفیان ثوری کی جانب بھی منسو ب کیا ہیں۔ نسائی اور مسلم کا بیان ہے کہ متروک الحدیث ہے۔ [ميزان الاعتدال : ج 1، ص 211]
نسائی لکھتے ہیں اسماعیل بن ابان کوفہ کا باشندہ ہے۔ ہشام بن عروہ سے احادیث روایت کرتا ہے۔ متروک الحدیث ہے۔ [كتاب الضعفاء والمتروكين ص : 16]
دراقطنی لکھتے ہیں۔ اسماعیل بن ابان الغنوی کوفہ کا باشندہ ہے۔ اس کی کنیت ابو اسحاق الکوفی ہے۔ حکم، عطیہ نفیل بن عروہ الخیاط اور ہشام بن عروہ سے روایات نقل کرتا ہے۔ متروک ہے۔ [كتاب الضعفاء والمتروكين ص : 57]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے