سوال:
کچھ لوگ قطب اور ابدال کے وجود پر احادیث پیش کرتے ہیں۔ یہ حدیث کہاں ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے؟
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض لوگ قطب اور ابدال کے وجود کے قائل ہیں اور اس پر مختلف ضعیف اور موضوع روایات پیش کرتے ہیں۔ ذیل میں ان روایات کی تحقیق پیش کی جاتی ہے:
ابدال کی روایات اور ان کا حکم
📖 سنن ابی داود (کتاب المہدی، باب 1، ح 4286) اور مسند احمد (ج 2، ص 316) میں روایت ہے:
"فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَيُبَايِعُونَهُ…الخ”
"پھر جب لوگ یہ دیکھیں گے تو اس کے پاس شام کے ابدال اور عراق کی ٹولیاں آ کر اس کی بیعت کریں گی۔۔۔”
یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ:
◈ اس کی سند میں قتادہ کی تدلیس موجود ہے، جو کہ روایت کو ضعیف بنا دیتی ہے۔
◈ اس میں "صاحب لہ” نامی راوی مجہول ہے۔
📖 مسند احمد (ج 5، ص 322) میں ایک اور روایت ہے:
"الأبدال في هذه الأمة ثلاثون…الخ”
"اس امت میں تیس ابدال ہیں۔۔۔”
اس روایت کو خود امام احمد رحمہ اللہ نے "منکر” قرار دیا ہے، کیونکہ:
◈ اس کے راوی حسن بن ذکوان سخت مدلس تھے اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔
◈ عبدالواحد بن قیس ضعیف راوی ہے۔
◈ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ سے اس کی ملاقات ثابت نہیں۔
📖 مسند احمد (ج 1، ص 112) میں ایک اور روایت ہے:
"الأبدالُ يكونونَ بالشَّام….الخ”
"ابدال شام میں ہوں گے۔۔۔”
یہ روایت بھی ضعیف ہے، کیونکہ:
◈ سند میں انقطاع ہے، کیونکہ شریح بن عبید کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں۔
◈ امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو "منقطع” قرار دیا ہے۔ (الحاوی للفتاوی 2/242)
قطب اور ابدال کی روایات پر محدثین کی رائے
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
📖 "ومن ذلك أحاديث الأبدال والأقطاب والأغواث والنقباء والنجباء والأوتاد كلها باطلة على رسول الله صلى الله عليه وسلم”
"ابدال، اقطاب، اغواث، نقباء، نجباء اور اوتاد سے متعلق تمام احادیث باطل ہیں اور انہیں رسول اللہ ﷺ کی طرف غلط طور پر منسوب کیا گیا ہے۔”
📖 (المنار المنیف، ص 136، فقرہ 307)
علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے بھی الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعہ (ص 470) میں اسی بات کو نقل کیا ہے۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے سیف بن عمر (کذاب) کی روایات کو جمع کرکے ابدال کے وجود کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
📖 (الحاوی للفتاویٰ ج 2، ص 242)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح کی تردید کرتے ہوئے کہا:
📖 "بل موضوع”
"بلکہ یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔”
موقوف صحیح روایت میں ابدال کا ذکر
📖 المستدرک للحاکم (4/553، ح 8658) کی ایک صحیح موقوف روایت میں ہے:
"سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فتنے ہوں گے، ان میں لوگ اس طرح آزمائے جائیں گے جیسے سونے کو بھٹی میں تپایا جاتا ہے۔ لہٰذا، اہل شام کو برا نہ کہو کیونکہ ان میں ابدال ہیں۔ البتہ، شام کے ظالموں کو برا کہو۔۔۔”
یہ روایت صحیح ہے، لیکن اس میں ابدال سے مراد وہی نیک اور صحیح العقیدہ لوگ ہیں، نہ کہ تصوف والے قطب اور ابدال جو نظامِ کائنات چلانے والے سمجھے جاتے ہیں۔
نتیجہ:
ابدال اور قطب سے متعلق تمام مرفوع احادیث ضعیف یا موضوع ہیں۔
بعض صحیح روایات میں "ابدال” کا ذکر ہے، لیکن اس سے مراد نیک اور صالح افراد ہیں، نہ کہ کوئی صوفیانہ یا روحانی منصب۔
اہل بدعت کا ان روایات سے الوہیت اور ربوبیت کے عقائد گھڑنا باطل اور گمراہی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب
2 Responses
کچھ کتابوں کے نام بتا دیں پڑھنے کے لیے تفسیر کی حدیث کی اور تاریخ کی اردو میں
تفسیر ابن کثیر، تفسیر احسن البیان حافظ صلاح الدین یوسف۔۔۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم۔ الرحیق المختوم وغیرہ