قضائے عمری کی شرعی حیثیت
قضائے عمری یعنی کئی سالوں کی چھوڑی گئی نمازوں کو بعد میں قضا کرنا، شریعت میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ اس لیے یہ عمل بدعت شمار ہوتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب انسان کئی سال تک نماز چھوڑے رکھے اور پھر توبہ کر کے انہیں باقاعدگی سے شروع کر دے تو اس پر چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا لازم نہیں ہے کیونکہ ایسی شرط کی صورت میں بہت سے لوگ توبہ ہی سے بددل ہو جائیں گے ہاں البتہ توبہ کرنے والے کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اب آئندہ نماز کی پوری حفاظت کرے اور کثرت کے ساتھ نوافل پڑھے۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، اول ۹۹۴)
اگر نمازیں مجبوراً فوت ہو جائیں تو کیا طریقہ اختیار کریں؟
بعض اوقات جنگ، سفر یا کسی مجبوری کی وجہ سے نماز وقت پر ادا نہیں ہو پاتی۔ اس بارے میں واضح احادیث موجود ہیں۔
نماز عصر کا غروب آفتاب کے بعد ادا کرنا:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ:
’’غزوہ خندق کے دن سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ غروب آفتاب کے بعد قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے نماز عصر ادا نہیں کی حتی کہ سورج غروب ہو چکا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’واللہ میں نے بھی نماز عصر ادا نہیں کی۔‘‘
پھر ہم سب مقام بطحان میں آئے، ہم نے وضو کیا اور غروب آفتاب کے بعد پہلے نماز عصر پڑھی پھر نماز مغرب ادا کی۔‘‘
(بخاری: مواقیت الصلاۃ، باب من صلی بالناس جماعۃ بعد ذہاب الوقت: ۶۹۵، مسلم: ۱۳۶)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر نماز قضا ہو جائے تو بھی اس کی ترتیب برقرار رکھنی چاہیے۔
ایک دن کی چار نمازیں قضا ہو جانے پر نبی کریم ﷺ کا عمل:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’جنگ خندق کے دن مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر مشغول کر دیا کہ آپ کی چار نمازیں رہ گئیں یہاں تک کہ رات کا کچھ حصہ چلا گیا۔
پھر آپ نے سیّدنا بلال کو اذان دینے کا حکم دیا، پھر اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہی تو آپ نے عصر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہی تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہی تو آپ نے عشا کی نماز پڑھائی۔‘‘
(ترمذی: الصلاۃ، ما جا ء فی الرجل تفوتہ الصلوات: ۹۷۱، نسائی: الاذان، کیف یقضی الفائت من الصلاۃ: ۳۲۶)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قضا نماز ادا کرنے کے لیے اذان اور اقامت کہنا مستحب ہے۔
ترتیب سے نماز ادا کرنا اور نیت کی مختلفی کا حکم
فضیلۃ الشیخ مفتی محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ سے ایک سائل نے سوال کیا:
’’اگر کوئی عصر کی نماز بھول جائے اور مغرب کے وقت یاد آئے، اور مغرب کے بعد عصر کی نماز ادا کرے تو کیا حکم ہے؟‘‘
شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازیں جب ایک دن غزوہ خندق کے دوران فوت ہو گئیں تو آپ نے انہیں ترتیب سے ہی ادا کیا۔
لہٰذا جب آپ مسجد میں آئے اور لوگ نماز مغرب ادا کر رہے تھے تو آپ ان کے ساتھ نماز عصر کی نیت کر کے شامل ہو جاتے اور امام کے سلام کے بعد باقی نماز پوری کرتے،
لوگوں کی یہ نماز مغرب اور آپ کی نماز عصر ہوتی۔
اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ امام اور مقتدی کی نیت الگ الگ ہو کیونکہ افعال ایک جیسے ہیں۔‘‘
(فتاوی اسلامیہ، اول: ۶۰۴)
لمبے دن یا رات والے علاقوں میں نماز کا طریقہ
کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں دن یا رات بہت طویل ہوتے ہیں، مثلاً قطب شمالی یا جنوبی کے قریب کے خطے۔ وہاں نمازوں کے اوقات کا کیا حکم ہے؟
دجال کے زمانے سے متعلق حدیث:
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال چالیس دن زمین پر رہے گا:
➊ اس کا ایک دن ایک سال کے برابر،
➋ ایک دن ایک مہینے کے برابر،
➌ ایک دن ایک ہفتے کے برابر،
➍ اور باقی دن عام دنوں کی طرح ہوں گے۔‘‘
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:
’’جو دن ایک سال کے برابر ہو گا، کیا اس دن ایک ہی نماز پڑھنی ہو گی؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نہیں، بلکہ تم اندازے سے نمازیں ادا کرنا۔‘‘
(مسلم: الفتن، باب ذکر الدجال وصفتہ: ۷۳۹۲)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں دن یا رات بہت لمبی ہو اور وقت کا تعین ممکن نہ ہو، وہاں پانچ وقت کی نمازیں اندازے کے مطابق پڑھنی چاہئیں۔