سوال :
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اس حدیث نبوی کا کیا مطلب ہے ؟
من حلف على يمين، فقال : إن شاء الله فلم يحنث فلا حنث عليه [نصب الراية للزيلعي 3/ 234 ]
”جس شخص نے قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ لیا، اگر اس سے قسم کا ایفاء نہ ہوا تو اس قسم کا کفارہ نہیں ؟“
جواب :
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ لے پھر وہ قسم کو پورا نہ کر سکے تو اس پر قسم توڑنے کا کفارہ نہ ہو گا، مثلا وہ یوں کہے : ”اللہ کی قسم ! میں ان شاء اللہ ایسا ضرور کروں گا“ پھر وہ کام نہ کرے یا یوں کہے : ”اللہ کی قسم ! میں ان شاء اللہ ایسا نہیں کروں گا۔“ پھر وہ اسے کر گزرے تو اس طرح اس پر کفارہ قسم واجب نہیں ہو گا۔ لہذا قسم اٹھانے والے کو قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ لینا چاہئیے تاکہ اگر کسی وجہ سے قسم پوری نہ کر سکے تو کفارہ ادا نہ کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ قسم اٹھانے کے ساتھ ان شاء اللہ کہنے کا ایک اور فائدہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس طرح قسم پوری کرنے میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّـهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّـهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا [ 64-الطلاق:3]
”اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے گا تو اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ اللہ اپنا کام بہرحال پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر شے کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔“
( شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ)