قسطوں پر اشیاء خریدنے کا حکم
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : قسطوں پر اشیاء حاصل کرنا جائز ہے؟
جواب : قسطوں پر خریدنے کی صورت میں بھی اگر اشیاء کی قیمتیں وہی ہوں جو نقد کی صورت میں ہیں تو ان کی بیع جائز ہے بصورت دیگر ناجائز ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
« نهٰي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين فى بيعة» [مسند أحمد 432/2، بيهقي 343/5]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چیز کی دو قیمتیں (مقرر کرنے سے) منع فرمایا ہے۔“
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« من باع بيعتين فى بيعة فله اوكسهما او الربا » [ابن حبان 226/8، 4953، مستدرك حاكم 45/2، بيهقي 343/5]
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
”جو شخص کسی چیز کی دو قیمتیں مقرر کرے گا یا تو وہ کم قیمت لے گا یا پھر وہ سود ہو گا۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
« لا تحل صفقتان فى صفقة » [الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان 242/8]
”ایک عقد میں دو معاملے کرنا حلال نہیں۔“
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”جب تو یہ کہے میں یہ چیز تمہارے ہاتھ اتنے میں اور ادھار اتنے کی بیچتا ہوں تو یہی «بيعتان فى بيعة» ہے۔ اور یہ مردود ہے اور یہی وہ تجارت ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ [عبدالرزاق14632، شرح السنة 8/ 143]
امام سماک بن حرب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”کوئی شخص کوئی چیز بیچتے وقت کہے یہ چیز ادھار اتنے پر اور نقد اتنے پر بیچتا ہوں تو یہ «بيعتين فى بيعة» ہے۔“ [مسند أحمد 398/1]
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ ادھار کی صورت میں رقم بڑھانا سود ہے، لہٰذا ایسا کاروبار کرنا درست نہیں، یہ سود لینا اور دینا ہے اور لعنت کا حق دار بننے کے مترادف ہے، لہٰذا دکاندار اور گاہک کو ایسے معاملات سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: