سوال :
محترم ! آپ ان لوگوں کو کیا نصیحت کرنا چاہیں گے جو کئی ماہ تک بغیر کسی شرعی عذر کے قرآن مجید کو ہاتھ تک نہیں لگاتے ؟ جبکہ غیر مفید اخبارات و رسائل کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے رہتے ہیں۔
جواب :
اہل ایمان خواتین و حضرات کے لئے تفکر و تدبر کے ساتھ کثرت سے تلاوت کلام پاک کرنا مسنون ہے، چاہے زبانی پڑھے یا قرآن مجید سے دیکھ کر، بہرحال اس کی تلاوت ضرور کرنی چاہیئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ» [38-ص:29]
”یہ (قرآن) ایک بابرکت کتاب ہے، جس کو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور تاکہ عقل والے نصیحت حاصل کریں۔“
اسی طرح ارشاد ہے :
«إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّـهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ ﴿٢٩﴾ لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ» [35-فاطر:29]
”بے شک وہ لوگ جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے رہتے ہیں، وہ ایسی تجارت کی آس لگائے بیٹھے ہیں جو کبھی ماند نہ پڑے گی تاکہ وہ انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا حصہ دے اور اپنے فضل سے کچھ زائد بھی دے، بے شک وہ بڑا بخشنے والا اور قدر دان ہے۔“
مذکورہ بالا آیت تلاوت کرنے اور عمل کرنے دونوں سے عبارت ہے۔ خلوص دل سے، تدبر اور تفکر کے ساتھ تلاوت کرنا اتباع کا ایک ذریہ اور اجر عظیم کا باعث ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«اقرؤوا القرآن، فإنه يأتي شفيعا لأصحابه يوم القيامة» [صحيح مسلم، صلاة المسافرين 252]
”قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحاب قرآن کے لئے سفارش کرے گا۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا :
«خيركم من تعلم القرآن وعلمه» [صحيح البخاري]
تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے :
«من قرأ حرفا من كتاب الله فله حسنة، والحسنة بعشر أمثالها، لا أقول (ألم) حرف، ولكن ألف حرف، ولام حرف، وميم حرف» [رواه الترمذي فى كتاب ثواب القرآن باب 16]
”جس شخص نے قرآن کا ایک حرف پڑھا اسے ایک نیکی ملے گی اور ایک نیکی دس گنا شکل میں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ (الم) ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے۔ لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
«اقرا القران فى كل شهر، فقال : إني أطيق أكثر من ذلك، فقال : اقرأه فى سبع» [صحيح البخاري فضائل القرآن، باب 34 وأبوداؤد ورمضان]
”ہر ماہ میں ایک بار مکمل قرآن پڑھا کرو انہوں نے کہا: میں اس سے زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سات دنوں میں پڑھ لے۔“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ وہ سات دنوں میں قرآن مجید مکمل کر لیا کرتے تھے۔ میری تمام تلاوت قرآن کرنے والوں کو وصیت ہے کہ وہ تدبر و تفکر اور خلوص دل کے ساتھ بکثرت تلاوت قرآن کیا کریں اس کے ساتھ ہی ساتھ حصول علم اور فائدے کا بھی ارادہ کریں۔ وہ قرآن مجید کو ہر ماہ ختم کیا کریں اس سے کم مدت میں ختم کر سکیں تو یہ خیر کثیر ہے۔ سات دن سے کم مدت میں بھی ختم کیا جا سکتا ہے اور تین دن سے کم مدت میں ختم نہ کرنا زیادہ افضل ہے، کیونکہ یہ کم از کم مدت ہے جس کی تلقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو فرمائی تھی۔ نیز اس لئے بھی کہ اس سے کم مدت میں قرآن مجید ختم کرنا جلد بازی اور عدم تدبر کا باعث بن سکتا ہے۔
قرآن مجید بغیر طہارت کے دیکھ کر پڑھنا ناجائز ہے، جبکہ زبانی بلا وضوء پڑھنے میں کوئی حرج نہیں جہاں تک جنبی آدمی کا تعلق ہے تو وہ غسل کرنے تک نہ تو دیکھ کر پڑھ سکتا ہے اور نہ ہی زبانی اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
«كان النبى صلى الله عليه وسلم، لا يحجزه شيء عن القرآن سوى الجنابة » [رواه أحمد 84/1 وأبو داود و كتاب الطهارة باب 91]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنابت کے علاوہ کوئی چیز تلاوت قرآن سے نہیں روکتی تھی۔
(دار الافتاء کمیٹی)