قرآن کی آیت اور نھی عن المنکر کے حکم میں ہم آہنگی
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، ج1، ص114

سوال:

کیا اللہ تعالیٰ کا فرمان:

"اور میں تمہارا نگران نہیں”
(الأنعام: 104)

رسول اللہ ﷺ کے اس قول کے خلاف ہے:

"جو تم میں سے کسی منکر (برائی) کو دیکھے، تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے۔۔۔”
(حدیث)

اگر نبی کریم ﷺ کو نگران نہیں بنایا گیا، تو پھر وہ منکر کو کیسے بدل سکتے ہیں؟

الجواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات جان لینی چاہیے کہ قرآن اور صحیح احادیث کے درمیان کوئی تعارض (ٹکراؤ) نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور نبی کریم ﷺ کی حدیث ایک دوسرے کی وضاحت کرتے ہیں۔ اگر قرآن اور سنت کے درمیان حقیقی اختلاف ہوتا، تو اللہ تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے:

"اگر یہ (قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا، تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔”
(النساء: 82)

آیت کا مفہوم:

اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو یہ حکم دیا کہ وہ مشرکین اور اپنی امت کو یہ پیغام دیں کہ:

  • "میں نے تم تک اللہ کے احکام پہنچا دیے ہیں، اگر تم ایمان نہیں لاتے اور گناہوں پر اصرار کرتے ہو، تو اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھ سے تمہاری نافرمانیوں کا مؤاخذہ نہیں فرمائے گا۔”
  • یہ آیت نبی کریم ﷺ کی تبلیغی ذمہ داری کو واضح کرتی ہے کہ آپ ﷺ صرف اللہ کا پیغام پہنچانے والے ہیں، اور اگر کوئی ہدایت کو قبول نہیں کرتا، تو اس پر آپ ﷺ کو مجبور نہیں کیا گیا۔

حدیث میں نھی عن المنکر کی وضاحت:

حدیث میں امر بالمعروف اور نھی عن المنکر (بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا) کی تعلیم دی گئی ہے، جو شریعت کا ایک مستقل حکم ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نبی کریم ﷺ یا دیگر اہلِ ایمان لوگوں کے اعمال کے ذمہ دار ہیں، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں برائی کو روکنے کے لیے عملی اقدام کیا جائے، خواہ وہ:

  • ہاتھ سے ہو: اگر اختیار حاصل ہو، جیسے حکمران، والدین، اساتذہ وغیرہ
  • زبان سے ہو: نصیحت و وعظ کے ذریعے
  • دل میں برا سمجھنا: یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے

نتیجہ:

یہ آیت اور حدیث ایک دوسرے کے معارض (متضاد) نہیں ہیں، بلکہ ان کا دائرہ کار الگ ہے۔

  • قرآنی آیت نبی کریم ﷺ کی تبلیغی ذمہ داری اور لوگوں کے ایمان نہ لانے کی صورت میں ان کی براءت کو واضح کرتی ہے۔
  • حدیث امت کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا عمومی حکم دیتی ہے، تاکہ برائی کو روکا جا سکے اور بھلائی کو فروغ دیا جائے۔

لہٰذا، قرآن و حدیث میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

ھٰذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1