قرآن کریم کا اندازِ تخاطب اور جنت کا تصور ایک ایسی جامع حکمت پر مبنی ہے جو ہر قسم کے انسانوں کو مخاطب کرتا ہے۔ یہ اسلوب اس لیے ضروری ہے کہ انسانوں کی ضروریات اور خواہشات میں کچھ بنیادی چیزیں مشترک ہیں، چاہے وہ کسی بھی معاشرتی، علمی، یا جغرافیائی پس منظر سے تعلق رکھتے ہوں۔
قرآن کا مخاطب پوری انسانیت ہے، اور اس کی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسان کو اس دنیا کے بعد کی زندگی یعنی آخرت کی تیاری کی دعوت دینا ہے۔ جنت کے حوالے سے جب قرآن بات کرتا ہے تو وہ انسان کی بنیادی اور فطری خواہشات کو سامنے رکھتا ہے: کھانا پینا، رہائش اور جنسی تسکین۔ یہ تمام ایسی ضروریات ہیں جو ہر انسان میں مشترک ہیں، چاہے وہ کسی بھی علاقے یا زمانے سے ہو۔ ان بنیادی خواہشات کے ذکر کے ذریعے قرآن ہر طبقے کے انسانوں کے ساتھ گفتگو کرتا ہے۔
البتہ، انسان کی انفرادی خواہشات اور دلچسپیاں مختلف ہوتی ہیں۔ جنت میں ہر شخص کی انفرادی خواہشات کی تکمیل بھی ہوگی، لیکن قرآن نے ان کو مخصوص تفصیلات کے ساتھ بیان نہیں کیا۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ ہر فرد کی پسند اور ناپسند مختلف ہوتی ہے، اور کچھ چیزیں جو ایک شخص کو پسند ہوں، دوسروں کے لیے غیر دلچسپ ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے قرآن نے ایک عمومی کلیہ دیا کہ جنت میں انسان کو وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ تمنا کرے گا۔
جہاں تک علمی یا فلسفیانہ دلچسپیوں کا تعلق ہے، جیسے کتب بینی یا تجسس، ان کا جواب یہ دیا گیا کہ جنت میں حقیقت خود سامنے ہوگی، اور وہاں تجسس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اس دنیا میں کتابوں اور علم کی تلاش حقیقت کی ایک جھلک پانے کے لیے ہوتی ہے، لیکن جنت میں جب حقیقت کا پردہ ہٹا دیا جائے گا، تو کتابوں کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔
خلاصہ:
قرآن کا اسلوب ِبیان عالمی اور جامع ہے، جو ہر قسم کے انسانوں کی بنیادی اور مشترک ضروریات کو مدنظر رکھتا ہے۔ جنت میں انسانوں کی انفرادی خواہشات کو بھی پورا کیا جائے گا، لیکن ان کا ذکر تفصیل سے کرنے کے بجائے ایک عمومی بیان کے ذریعے کیا گیا ہے تاکہ قرآن کا پیغام ہر انسان کے لیے قابلِ فہم اور متعلقہ ہو۔