اعتراض: وحی کی "دو رنگی” پر سوال
معترض کا کہنا ہے کہ اگر حضور اکرم ﷺ جو کچھ کرتے تھے، وہ وحی کی رو سے کرتے تھے، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو (نعوذ باللہ) اپنی پہلی قسم کی وحی پر تسلی کیوں نہ ہوئی، اور دوسری قسم کی وحی کیوں نازل کی گئی؟ مزید یہ کہا گیا کہ قرآن میں اس دوسری قسم کی وحی کا کوئی ذکر نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء پر نازل ہونے والی وحی میں نزولِ قرآن کا اشارہ دے دیا تھا، تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دوسری قسم کی وحی کا بھی قرآن میں ذکر فرما دیتے؟
تبصرہ: وحی کی "دو رنگی” نہیں، بلکہ "سہ رنگی” کا ذکر
معترض کا سوال وحی کی "دو رنگی” پر ہے، حالانکہ اگر قرآنِ کریم کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں واضح طور پر تین مختلف اقسام کی وحی کا ذکر موجود ہے، جن میں سے صرف ایک قسم کی وحی قرآنِ مجید میں جمع کی گئی ہے۔
قرآنِ کریم میں وحی کی تین اقسام
"وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن یكَلِّمَه اللَّهُ إِلَّا وَحْیا أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ أَوْ یرْسِلَ رَسُولاً فَیوحِی بِإِذْنِهِ مَا یشَاء إِنَّهُ عَلِی حَكِیمٌ”
(الشورٰی: 51)
"کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے، مگر تین طریقوں سے: یا تو براہِ راست وحی کے ذریعے، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر ایک فرشتہ بھیج کر جو اللہ کے اذن سے وہی پیغام پہنچائے جو اللہ چاہے۔”
تین اقسام کی وضاحت
- براہِ راست وحی: اللہ تعالیٰ خود انسان کے دل میں القاء یا الہام کے ذریعے اپنی ہدایات پہنچاتا ہے۔
- پردے کے پیچھے سے کلام: اللہ تعالیٰ کا اپنی قدرت سے پردے کے پیچھے سے کسی بشر سے براہِ راست گفتگو کرنا۔
- فرشتہ کے ذریعے وحی: اللہ تعالیٰ اپنی وحی فرشتے کے ذریعے بھیجتا ہے، اور یہی وہ وحی ہے جسے قرآنِ مجید میں جمع کیا گیا ہے۔
قرآنِ مجید میں وحی کی تیسری قسم کا ذکر
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یہ واضح فرمایا کہ قرآن کی وحی فرشتہ جبریل علیہ السلام کے ذریعے نازل کی گئی ہے:
"قُلْ مَن كَانَ عَدُوّاً لِّجِبْرِیلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللّهِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَینَ یدَیهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِینَ”
(البقرۃ: 97-98)
"کہہ دو کہ جو جبریل کا دشمن ہو، تو وہی ہے جس نے یہ قرآن تیرے دل پر اللہ کے حکم سے نازل کیا، جو پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور بشارت ہے۔”
"وَإِنَّهُ لَتَنزِیلُ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِینُ۔ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِینَ”
(الشعراء: 192-194)
"یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اسے روح الامین (جبریل) لے کر آیا ہے، آپ کے دل پر، تاکہ آپ لوگوں کو خبردار کرنے والوں میں شامل ہوں۔”
ان آیات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ قرآنِ مجید فرشتہ جبریل علیہ السلام کے ذریعے نازل ہونے والی وحی پر مشتمل ہے۔
وحی کی دوسری قسم کا ثبوت
اگرچہ قرآنِ مجید میں دوسری قسم کی وحی شامل نہیں، لیکن خود قرآن متعدد مواقع پر اس دوسری قسم کی وحی کا ذکر اور اس کے مضامین کا انتساب اللہ تعالیٰ کی طرف کرتا ہے۔
- رسول اللہ ﷺ کو دی گئی بعض خاص ہدایات جو قرآنِ کریم میں موجود نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے دی گئیں۔
- دیگر احادیثِ مبارکہ جن میں کئی مواقع پر حضور ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ یہ اللہ کی طرف سے وحی ہے، اگرچہ وہ قرآن کا حصہ نہیں۔
خلاصہ
قرآنِ کریم میں صرف وحی کی تیسری قسم (فرشتے کے ذریعے نازل ہونے والی وحی) کو جمع کیا گیا ہے، جبکہ باقی دو اقسام کی وحی قرآن کے مضامین سے باہر ہیں لیکن ان کا ذکر قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ اس طرح "دو رنگی” کے اعتراض کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے، کیونکہ قرآن خود "سہ رنگی” کا ذکر کرتا ہے۔