قرآن میں تکرار کی حکمت اور معجزانہ اثرات

قرآن کا فطری اسلوب

قرآن فلسفے یا تحقیقی مقالے کی کتاب نہیں، بلکہ یہ ایک دعوتی کتاب ہے جو مختلف مراحل میں نازل ہوئی۔ ہر مرحلے کے تقاضوں کے مطابق ہدایات، احکامات اور نصیحتیں بیان کی گئیں، تاکہ پیغام دلوں میں اتر جائے اور عقائد و اصول مضبوطی سے ذہن نشین ہو جائیں۔

تکرار کی حکمت

تکرار کے ذریعے بنیادی عقائد اور اہم پیغامات کو ہر مرحلے پر اجاگر کیا گیا تاکہ منکرینِ حق کے لیے قیل و قال کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے اور طالب ہدایت کے ذہن میں بات اچھی طرح جم جائے۔

قرآن پر اعتراضات: لاعلمی یا تعصب؟

جو لوگ قرآن کے اس ادبی اسلوب اور معنوی گہرائیوں سے ناواقف ہیں، وہ اس تکرار کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مغربی مستشرقین بھی اس پر اعتراض کرتے ہیں، جیسے کہ
دی نیو انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا
میں قرآن کے متعلق کہا گیا کہ:

"قرآن اکثر الل ٹپ انداز میں مرتب شدہ محسوس ہوتا ہے اور اس میں جملے محض صوتی ہم آہنگی کے لیے رکھے گئے ہیں۔”
(جلد 15، 1977)

یہ اعتراضات دراصل تعصب اور قرآن کے فطری اسلوب سے لاعلمی کا نتیجہ ہیں۔ حقیقت میں قرآن کا ہر جملہ اپنے سیاق و سباق میں مکمل ہم آہنگ اور معانی سے بھرپور ہے۔

تکرار کے اسلوب کی مثالیں

  1. سورۃ الرحمٰن:
    اس سورہ میں آیت:
    "فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ”
    بار بار دہرائی گئی ہے۔ ہر مقام پر یہ آیت نئی نعمتوں کی نشاندہی کرتی ہے اور انسان کو دعوتِ فکر دیتی ہے کہ وہ اللہ کی رحمت کو پہچانے۔
  2. سورۃ المرسلات:
    آیت:
    "وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ”
    دس مرتبہ دہرائی گئی، تاکہ منکرینِ حق کو بار بار ان کے انجام سے خبردار کیا جائے۔
  3. سورۃ القمر:
    دو آیات:
    "فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ”
    اور
    "وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ”
    ہر قوم کے انجام کے بعد بطور تنبیہ دہرائی گئیں، تاکہ پڑھنے والا عبرت حاصل کرے۔

انبیاء کے قصوں کی تکرار

قرآن میں انبیاء علیہم السلام کے قصے بار بار بیان ہوئے ہیں، مگر ہر جگہ مختلف سیاق و سباق کے ساتھ۔ اس تکرار کے چند فوائد:

  • بلاغت اور فصاحت کا اظہار: ہر قصے کا اسلوب، الفاظ، اور بیان مختلف ہیں، جو قرآن کی معجزانہ فصاحت کو ظاہر کرتے ہیں۔
  • تاکید اور وضاحت: بار بار ذکر سے پیغام دلوں میں رچ بس جاتا ہے اور تاکید کے ذریعے بات واضح ہو جاتی ہے۔
  • مختلف پہلوؤں کی وضاحت: ہر مقام پر قصے کے کسی مخصوص پہلو پر زور دیا گیا، تاکہ وہ موقع کے مطابق زیادہ اثر انگیز ہو۔

مثال: حضرت موسیٰؑ اور فرعون کا قصہ مختلف جگہوں پر آیا، مگر کہیں اللہ کی قوت کا ذکر ہے، تو کہیں بنی اسرائیل پر ہونے والے مظالم کا۔ یہ موقع محل کے مطابق ہے۔

قرآن میں تکرار کے ادبی فوائد

  • دلائل کو مضبوط کرنا: جیسے سورۃ یوسف میں
    "رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ”
    دو بار دہرایا گیا تاکہ پیغام ذہن نشین ہو۔
  • تاکید اور انذار: مثال کے طور پر سورۃ المدثر میں:
    "فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ”
    یہ جملے زور پیدا کرنے کے لیے دہرائے گئے۔
  • دعا اور مسکنت کا اظہار: سورۃ البقرۃ کی آیت:
    "رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا”
    میں
    "رَبَّنَا”
    کا بار بار تکرار عاجزی کا اظہار ہے۔
  • عبرت اور حسرت کا اظہار: سورۃ القیامہ میں:
    "أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ”
    تکرار حسرت اور ملامت کے لیے استعمال ہوا۔

جاہلی شاعری میں تکرار

عرب کے جاہلی ادب میں بھی تکرار ایک معروف اسلوب تھا۔
مثال: شاعر عبید بن الابرص کہتا ہے:
"هَلا سألت جموع كندة اذ تولوا أين أين”
(کندہ کے فوجیوں سے پوچھو، کہاں کہاں بھاگے جا رہے ہو؟)

یہ اسلوب کلام میں زور پیدا کرنے اور مخاطب کو جھنجھوڑنے کے لیے تھا۔

خلاصہ: قرآن کی تکرار حکمت پر مبنی ہے

قرآن مجید کی تکرار بے مقصد نہیں، بلکہ یہ:

  • پیغام کو موثر بنانے،
  • دلائل کو پختہ کرنے،
  • عقائد کو مضبوط کرنے،
  • اور لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے استعمال ہوئی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے