قرآن اور سائنسی معلومات کا تعلق
بعض افراد یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کا مقصد صرف شرعی اور دینی معاملات تک محدود ہے اور اسے جدید سائنسی معلومات یا تحقیق سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ کتاب صرف عبادات، عقائد اور احکام کا مجموعہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن جدید سائنسی امور پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور اس سے ہمارے فہم میں اضافہ ہوتا ہے، تو یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا پرانے لوگ قرآن کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکے تھے۔
یہ نقطہ نظر قرآن کی عظمت کی مکمل سمجھ نہ ہونے کی نشانی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن تمام انسانوں اور ہر زمانے کے لیے نازل ہوا ہے۔ جس زمانے کے لوگ بھی اس کا مطالعہ کریں گے، انہیں یہی محسوس ہوگا کہ یہ انہی کے لیے ہے۔ چونکہ یہ ایک ازلی و ابدی ہستی کا کلام ہے جس کا علم ہر زمانے پر محیط ہے، اس لیے اس میں ایسی ساخت اور وسعت ہے کہ یہ کسی بھی زمانے کے لوگوں کو پرانا محسوس نہیں ہوتا۔ یہی قرآن کا اعجاز ہے۔
قرآن میں کائناتی حقائق کا بیان
قرآن جہاں عبادات اور عقائد و احکام کو بیان کرتا ہے، وہاں غلط نظریات اور خیالات کی تردید کے لیے کائناتی حقائق اور انسان و کائنات کے موضوعات پر بھی بات کرتا ہے۔ مگر ان حقائق کو بیان کرتے ہوئے ایسا اسلوب اختیار کرتا ہے کہ نئے معانی بھی اخذ کیے جاسکیں اور پرانے مفہوم بھی غلط ثابت نہ ہوں (بشرطیکہ وہ دیانت داری سے اخذ کیے گئے ہوں)۔ مولانا شہاب الدین ندوی نے اس حوالے سے ایک مثال دی ہے کہ قرآن میں کہا گیا ہے: "ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی ہی سے پیدا کیا ہے” (الانبیاء:۳۰)۔ پرانے زمانے میں اس کا مطلب یہ سمجھا گیا کہ تمام جاندار نطفے سے وجود میں آتے ہیں، جو پانی کی ایک شکل ہے۔ یہ مفہوم اپنی جگہ درست تھا، مگر جدید سائنس نے یہ حقیقت سامنے لائی کہ تمام جاندار اور پودے یکساں مادے سے بنے ہیں اور ان میں پروٹوپلازم موجود ہوتا ہے، جس کا زیادہ تر حصہ پانی پر مشتمل ہے۔
اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ قرآن میں بیان کیے گئے حقائق ہر زمانے کی معلومات کا احاطہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بشرطیکہ وہ معلومات تجرباتی حقائق ہوں یا ایسے نظریات ہوں جو علم کو آگے بڑھانے میں مدد کریں اور قرآن کے اجمالی مفہوم سے نہ ٹکراتے ہوں۔
سائنسی علوم سے فہمِ قرآن میں اضافہ
سائنس کائنات، زندگی اور انسان سے متعلق جو حقائق سامنے لاتی ہے، ان سے قرآن کی بعض آیات کو بہتر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ قرآن نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ…” (حٰم السجدۃ:۵۳)۔
ترجمہ: "عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔”
اس آیت کی روشنی میں، سائنس جب انفس و آفاق میں اللہ کی نشانیوں کا انکشاف کرتی ہے تو ہم اپنے فہم کے اعتبار سے قرآنی معانی کو وسعت دے سکتے ہیں۔ مغرب میں مذہب کے تعصب اور سائنسی تحقیق کی آزادی کے درمیان کشاکش رہی ہے، جس نے سائنس کو مذہب سے بالکل دور کر دیا۔ عیسائیت کے مذہبی تعصبات کے برعکس، اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام نے ہمیشہ علم و تحقیق کو فروغ دیا۔ بہت سے مغربی سائنسدان بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام کا رویہ سائنسی تحقیق کے حوالے سے غیر متعصب اور آزاد تھا۔
اسلام اور سائنس کا تعلق
اسلام اور سائنس کبھی بھی ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں رہے ہیں۔ البتہ جدید دور میں بعض مسلمان قرآن سے سائنسی جزئیات نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض سائنس کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں، جو کہ دو انتہائیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے، مگر اس سے بھی بے تعلق نہیں ہے۔ قرآن کا اصل مقصد انسان کی ہدایت اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی راہ دکھانا ہے۔ اس مقصد کے لیے قرآن کا رویہ سائنسی اور معروضی ہے۔ قرآن اپنے پیش کردہ نظریات کو قبول کرنے سے پہلے انفس و آفاق پر غور و فکر اور مشاہدہ کی تاکید کرتا ہے۔
چونکہ قرآن اللہ کا ابدی کلام ہے، اس میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جو مشاہدے کے حقائق کے خلاف ہو۔ بلکہ ایسی باتیں ضرور ملتی ہیں جو مختلف زمانوں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی حقانیت کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ اسی طرح جہاں سائنسی دریافتیں قرآن کے بعض بیانات کو بہتر سمجھنے میں مدد دیتی ہیں، وہاں قرآن کے سائنسی بیانات معروضی مزاج رکھنے والے غیر مسلم علماء کو بھی قرآن کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:
"سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ…” (حٰم السجدۃ:۵۳)۔