سوال
مختلف قرآنی آیات یا اسماء الہی کو مفید جان کر نماز یا کسی اور وقت میں کسی خاص تعداد کے ساتھ پڑھنا جبکہ یہ عمل سنت سے ثابت نہ ہو، کیا بدعت کے زمرے میں آتا ہے؟
مثال کے طور پر:
◄ ایک مشہور عمل یہ ہے کہ سورۃ الفاتحہ کو سنت فجر کے بعد 41 مرتبہ بیماری کے علاج کے لیے پڑھا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی یہی عمل کیا جاتا ہے۔
◄ بعض لوگ اس میں اضافہ کرتے ہیں کہ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کے میم کو ’’الحمد‘‘ کے لام کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔
◄ اسی طرح آیت:
﴿وَأُفَوِّضُ أَمْرِىٓ إِلَى ٱللَّهِ۔۔۔۔۔۔﴾
کو ہر نماز کے بعد ایک مخصوص تعداد میں پڑھنا کہ اس سے حاجت پوری ہوتی ہے۔
◄ یا پھر سورۃ التوبہ کی آخری دو آیات یا ایک آیت کو نماز عشاء کے بعد 101 مرتبہ پڑھنے کا کہا جاتا ہے تاکہ قید یا دشمنی سے حفاظت ہو۔
کیا ایسے اعمال شریعت میں ناجائز اور بدعت کے زمرے میں آتے ہیں؟ میری سمجھ کے مطابق ان وظائف میں کوئی ممانعت نہیں، اور یہ بدعت بھی نہیں ہیں، بشرطیکہ انہیں سنت یا ماثور نہ سمجھا جائے۔ براہ کرم دلائل کے ساتھ وضاحت فرمائیں تاکہ اطمینان ہو۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
اس کا جواب یہ ہے کہ:
◄ قرآنی آیات یا اسماء الہی کو کسی خاص تعداد اور مخصوص وقت میں بطور وظیفہ پڑھنا، چاہے وہ دینی مقصد ہو یا دنیاوی خیروبرکت، جائز ہے۔
◄ شرط یہ ہے کہ اسے سنت ماثورہ نہ سمجھا جائے اور مقررہ تعداد کو لازم یا واجب قرار نہ دیا جائے۔
دلیل
حدیث سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ
ایک صحیح حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ کسی قبیلے کے سردار کو سانپ نے کاٹ لیا۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پر سورۃ الفاتحہ سات مرتبہ پڑھ کر دم کیا تو وہ تندرست ہوگیا۔ بعد ازاں وہ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور سارا واقعہ عرض کیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:
ما ادراك انها رقية؟
یعنی: ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ الفاتحہ دم ہے؟‘‘
اس صحابی نے عرض کیا:
يا رسول الله ﷺ شئي القي في روعي
یعنی: ’’یارسول اللہ ﷺ! میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی تھی۔‘‘
صحیح مسلم: 5735
یہ صحیح حدیث واضح کرتی ہے کہ:
◄ اس سے پہلے صحابی کو یہ علم رسول اللہ ﷺ سے نہیں ملا تھا کہ سورۃ الفاتحہ دم ہے۔
◄ سات مرتبہ پڑھنا بھی ان کے دل میں القاء کیا گیا تھا۔
رسول اکرم ﷺ نے ان دونوں باتوں پر کوئی انکار نہیں فرمایا، بلکہ ان کے عمل کو باقی رکھا۔ یہ تقریری دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کی کسی سورت یا آیات کو مخصوص تعداد میں کسی بیماری یا مشکل کے حل کے لیے پڑھے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اگر یہ عمل شریعت کے خلاف ہوتا تو رسول اللہ ﷺ لازمی طور پر صحابی کو روکتے کہ ’’دل میں آنے والی ہر بات پر عمل کیوں کرتے ہو؟‘‘ لیکن آپ ﷺ نے تردید نہیں فرمائی۔
قرآنی دلیل
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ ٱلْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ ٱلظَّـٰلِمِينَ إِلَّا خَسَارًۭا﴾ (الاسراء: 82)
’’اور ہم قرآن میں وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے، اور ظالموں کو اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے۔‘‘
یہ آیت بتاتی ہے کہ:
◄ قرآن شفا ہے۔
◄ یہ شفا روحانی بھی ہے اور جسمانی بھی، مادی بھی اور معنوی بھی۔
اسی لیے جب صحابی نے سورۃ الفاتحہ کو دم کے طور پر پڑھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی اعتراض نہ فرمایا۔
اسماء الالہیہ کا معاملہ
قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:
﴿وَلِلَّهِ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ فَٱدْعُوهُ بِهَا﴾ (الاعراف: 180)
’’اور اللہ کے لیے سب اچھے نام ہیں، سو اسے ان ناموں کے ذریعے پکارو۔‘‘
لہٰذا:
◄ اگر قاری کو امید ہو کہ اللہ تعالیٰ کے کسی نام کے وسیلے سے اس کی مشکل حل ہوگی تو وہ اسے کسی مقررہ تعداد میں پڑھ سکتا ہے۔
◄ یہ محض سہولت کے لیے تعداد مقرر کرے، اسے لازم نہ سمجھے۔
◄ چاہے نماز کے بعد پڑھے (کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ نماز کے بعد دعا قبول ہوتی ہے) یا کسی اور وقت میں پڑھے، دونوں صورتوں میں کوئی حرج نہیں۔
خلاصہ
◄ قرآنی آیات یا اسماء الہی کو مخصوص تعداد میں یا مخصوص وقت پر پڑھنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
◄ شرط یہ ہے کہ اسے سنت یا ماثور نہ سمجھا جائے، اور مقررہ تعداد کو لازم نہ قرار دیا جائے۔
◄ یہ جائز اور مشروع عمل ہے کیونکہ قرآن شفا ہے اور اسماء الہی کے ساتھ دعا کرنا قرآن سے ثابت ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب