قبر پرستی اور پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم
تحریر قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

قبر پرستی اور پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ کیجیے دلائل کی روشنی میں

قبروں کو سجدہ کرنا حرام ھے

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے اپنی مرض وفات میں فرمایا:”اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔“ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:اگر یہ ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک کو بالکل ظاہر کردیا جا تا مگر مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا اسے بھی سجدہ گاہ بنا لیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1330]

نوٹ

یعنی خود قبروں کو پوجنے لگے یا قبروں پر مسجد اور گرجا بناکر وہاں خدا کی عبادت کرنے لگے۔ توباب کی مطابقت حاصل ہوگئی۔
امام ابن قیم نے کہا جو لوگ قبروں پر وقت معین میں جمع ہوتے ہیں وہ بھی گویا قبر کو مسجد بناتے ہیں۔
دوسری حدیث میں ہے میری قبر کو عید نہ کرلینا، یعنی عید کی طرح وہاں میلہ اور مجمع نہ کرنا۔
جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بھی ان یہودیوں اور نصرانیوں کے پیرو ہیں جن پر آنحضرت ﷺ نے لعنت فرمائی۔
افسوس! ہمارے زمانے میں گور پرستی ایسی شائع ہورہی ہے کہ یہ نام کے مسلمان خدا اور رسول سے ذرا بھی نہیں شرماتے‘ قبروں کو اس قدر پختہ شاندار بناتے ہیں کہ ان کی عمارات کو دیکھ کر مساجد کا شبہ ہوتا ہے۔
حالانکہ آنحضرت ﷺ نے سختی کے ساتھ قبروں پر ایسی تعمیرات کے لیے منع فرمایا ہے۔
حضرت علی ؓ نے ابوہیاج اسدی کو کہا تھا:
أبعثك علی ما بعثني علیه رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا تدع تمثالا إلا طمسته ولا قبرا مشرفا إلاسویته۔ رواہ الجماعة إلا البخاري وابن ماجة۔
یعنی کیا میں تم کو اس خدمت کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔
وہ یہ کہ کوئی مورت ایسی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور کوئی اونچی قبر نہ رہے جسے تو برابر نہ کردے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں کا حد سے زیادہ اونچا اور بلند کرنا بھی شارع کو ناپسند ہے۔
علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں۔
فیه أن السنة أن القبر لا یرفع رفعا کثیرا من غیر فرق بین من کان فاضلا ومن کان غیر فاضل والظاهر أن رفع القبور زیادة علی القدر المأذون حرام۔
یعنی سنت یہی ہے کہ قبر کو حد شرعی سے زیادہ بلندنہ بنایا جائے خواہ وہ کسی فاضل عالم صوفی کی ہویا کسی غیر فاضل کی اور ظاہر ہے کہ شرعی اجازت سے زیادہ قبروں کو اونچا کرنا حرام ہے۔
آگے علامہ فرماتے ہیں:
وَمِنْ رَفْعِ الْقُبُورِ الدَّاخِلِ تَحْتَ الْحَدِيثِ دُخُولًا أَوَّلِيَّا الْقُبَبُ وَالْمَشَاهِدُ الْمَعْمُورَةُ عَلَى الْقُبُورِ، وَأَيْضًا هُوَ مِنْ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ، وَقَدْ لَعَنَ النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَاعِلَ ذَلِكَ كَمَا سَيَأْتِي، وَكَمْ قَدْ سَرَى عَنْ تَشْيِيدِ أَبْنِيَةِ الْقُبُورِ وَتَحْسِينِهَا مِنْ مَفَاسِدَ يَبْكِي لَهَا الْإِسْلَامُ، مِنْهَا اعْتِقَادُ الْجَهَلَةِ لَهَا كَاعْتِقَادِ الْكُفَّارِ لِلْأَصْنَامِ:
وَعَظُمَ ذَلِكَ فَظَنُّوا أَنَّهَا قَادِرَةٌ عَلَى جَلْبِ النَّفْعِ وَدَفْعِ الضَّرَرِ فَجَعَلُوهَا مَقْصِدًا لِطَلَبِ قَضَاءِ الْحَوَائِجِ وَمَلْجَأً لِنَجَاحِ الْمَطَالِبِ وَسَأَلُوا مِنْهَا مَا يَسْأَلُهُ الْعِبَادُ مِنْ رَبِّهِمْ، وَشَدُّوا إلَيْهَا الرِّحَالَ وَتَمَسَّحُوا بِهَا وَاسْتَغَاثُوا وَبِالْجُمْلَةِ إنَّهُمْ لَمْ يَدَعُوا شَيْئًا مِمَّا كَانَتْ الْجَاهِلِيَّةُ تَفْعَلُهُ بِالْأَصْنَامِ إلَّا فَعَلُوهُ، فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رَاجِعُونَ. وَمَعَ هَذَا الْمُنْكَرِ الشَّنِيعِ وَالْكُفْرِ الْفَظِيعِ لَا تَجِدُ مَنْ يَغْضَبُ لِلَّهِ وَيَغَارُ حَمِيَّةً لِلدِّينِ الْحَنِيفِ لَا عَالِمًا وَلَا مُتَعَلِّمًا وَلَا أَمِيرًا وَلَا وَزِيرًا وَلَا مَلِكًا، وَقَدْ تَوَارَدَ إلَيْنَا مِنْ الْأَخْبَارِ مَا لَا يُشَكُّ مَعَهُ أَنَّ كَثِيرًا مِنْ هَؤُلَاءِ الْمَقْبُورِينَ أَوْ أَكْثَرِهِمْ إذَا تَوَجَّهَتْ عَلَيْهِ يَمِينٌ مِنْ جِهَةِ خَصْمِهِ حَلَفَ بِاَللَّهِ فَاجِرًا، فَإِذَا قِيلَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ:
احْلِفْ بِشَيْخِك وَمُعْتَقَدِكَ الْوَلِيِّ الْفُلَانِيِّ تَلَعْثَمَ وَتَلَكَّأَ وَأَبَى وَاعْتَرَفَ بِالْحَقِّ. وَهَذَا مِنْ أَبْيَنِ الْأَدِلَّةِ الدَّالَّةِ عَلَى أَنَّ شِرْكَهُمْ قَدْ بَلَغَ فَوْقَ شِرْكِ مَنْ قَالَ:
إنَّهُ تَعَالَى ثَانِيَ اثْنَيْنِ أَوْ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ، فَيَا عُلَمَاءَ الدِّينِ وَيَا مُلُوكَ الْمُسْلِمِينَ، أَيُّ رُزْءٍ لِلْإِسْلَامِ أَشَدُّ مِنْ الْكُفْرِ، وَأَيُّ بَلَاءٍ لِهَذَا الدِّينِ أَضَرُّ عَلَيْهِ مِنْ عِبَادَةِ غَيْرِ اللَّهِ؟ وَأَيُّ مُصِيبَةٍ يُصَابُ بِهَا الْمُسْلِمُونَ تَعْدِلُ هَذِهِ الْمُصِيبَةَ؟ وَأَيُّ مُنْكَرٍ يَجِبُ إنْكَارُهُ إنْ لَمْ يَكُنْ إنْكَارُ هَذَا الشِّرْكِ الْبَيِّنِ وَاجِبًا:
لَقَدْ أَسْمَعْت لَوْ نَادَيْتَ حَيًّا … وَلَكِنْ لَا حَيَاةَ لِمَنْ تُنَادِيوَلَوْ نَارًا نَفَخْت بِهَا أَضَاءَتْ … وَلَكِنْ أَنْتَ تَنْفُخُ فِي رَمَادِ. (نیل الأوطار، ج: 4ص: 90)
یعنی بزرگوں کی قبروں پر بنائی ہوئی عمارات، قبے اور زیارت گاہیں یہ سب اس حدیث کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہیں۔
یہی قبروں کو مساجد بنانا ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور ان قبور کے پختہ بنانے اور ان پر عمارات کو مزین کرنے سے اس قدر مفاسد پیدا ہورہے ہیں کہ آج ان پر اسلام رو رہا ہے۔
ان میں سے مثلاً یہ کہ
ایسے مزاروں کے بارے میں جاہل لوگ وہی اعتقادات رکھتے ہیں جو کفار بتوں کے بارے میں رکھتے ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر۔
ایسے جاہل ان قبور والوں کو نفع دینے والے اور نقصان دور کرنے والے تصور کرتے ہیں۔
اس لیے ان سے حاجات طلب کرتے ہیں۔
اپنی مرادیں ان کے سامنے رکھتے ہیں اور ان سے ایسے ہی دعائیں کرتے ہیں جیسے بندگان خدا کو خدا سے دعائیں کرنی چاہئیں۔
ان مزرات کی طرف کجاوے باندھ باندھ کر سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر ان قبروں کو مسح کرتے ہیں اور ان سے فریاد رسی چاہتے ہیں۔
مختصر یہ کہ جاہلیت میں جو کچھ بتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا وہ سب کچھ ان قبروں کے ساتھ ہورہا ہے۔
إنا للہ وإناإلیه راجعون۔
اور اس کھلے ہوئے بدترین کفر ہونے کے باوجود ہم کسی بھی اللہ کے بندے کو نہیں پاتے جو اللہ کے لیے اس پر غصہ کرے اور دین حنیف کی کچھ غیرت اس کو آئے۔
عالم ہوں یا متعلم‘ امیرہوں یا وزیر یا بادشاہ‘ اس بارے میں سب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
یہاں تک کہ سنا گیا ہے کہ یہ قبرپرست دشمن کے سامنے اللہ کی جھوٹی قسم کھاجاتے ہیں۔
مگر اپنے پیروں مشائخ کی جھوٹی قسموں کے وقت ان کی زبانیں لڑکھڑانے لگ جاتی ہیں۔
اس سے ظاہر ہے کہ ان کا شرک ان لوگوں سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے جو وہ خدا یا تین خدا مانتے ہیں۔
پس اے دین کے عالمو! اور مسلمانوں کے بادشاہو! اسلام کے لیے ایسے کفر سے بڑھ کر اور مصیبت کیا ہوگی اور غیر اللہ کی پرستش سے بڑھ کر دین اسلام کے لیے اور نقصان کی چیز کیا ہوگی اور مسلمان اس سے بھی بڑھ کر اور کس مصیبت کا شکار ہوں گے اور اگر اس کھلے ہوئے شرک کے خلاف ہی آواز انکار بلند نہ کی جاسکی تو اور کونسا گناہ ہوگا جس کے لیے زبانیں کھل سکیں گی۔
کسی شاعر نے سچ کہا ہے۔
”اگر تو زندوں کو پکارتا تو سنا سکتا تھا۔
مگر جن (مردوں) کو تو پکار رہا ہے وہ تو زندگی سے قطعاً محروم ہیں۔
اگر تم آگ میں پھونک مارتے تو وہ روشن ہوتی لیکن تم راکھ میں پھونک مار رہے ہو جو کبھی بھی روشن نہیں ہو سکتی۔“
خلاصہ یہ کہ
ایسی قبور اور ایسے مزارات اور ان پر یہ عرس‘ قوالیاں‘ میلے ٹھیلے‘ گانے بجانے قطعاً حرام اور شرک اور کفر ہیں۔
اللہ ہر مسلمان کو شرک جلی اور خفی سے بچائے۔آمین
حدیث علی ؓ کے ذیل میں حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ونهي أن یجصص القبر وأن یبنی علیه وأن یقعد علیه وقال لا تصلوا إلیها لأن ذلك ذریعة أن یتخذها الناس معبودا وأن یفرطوا في تعظمها بما لیس بحق فیحرفوا دینهم کما فعل أهل الکتاب وهو قوله صلی اللہ علیه وسلم لعن اللہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور أنبیاءهم مساجد الخ۔
(حجة اللہ البالغة، ج: 2ص: 126 کراتشي)
اور قبر کو پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو، کیونکہ یہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ لوگ قبروں کی پرستش کرنے لگیں اور لوگ ان قبروں کی اتنی زیادہ تعظیم کرنے لگیں جس کی وہ مستحق نہیں ہیں۔
پس لوگ اپنے دین میں تحریف کرڈالیں، جیسا کہ اہل کتاب نے کیا۔
چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو۔
انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔
پس حق یہ ہے کہ توسط اختیار کرے۔
نہ تو مردہ کی اس قدر تعظیم کرے کہ وہ شرک ہوجائے اور نہ اس کی اہانت اور اس کے ساتھ عداوت کرے کہ مرنے کے بعد اب یہ سارے معاملات ختم کرکے مرنے والا اللہ کے حوالہ ہوچکا ہے۔

قبروں پر (مرغا ،بکرا، گائے،وغیرہ ) ذبح کرنا حرام ھے

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَا عَقْرَ فِي الْإِسْلَامِ”، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: كَانُوا يَعْقِرُونَ عِنْدَ الْقَبْرِ بَقَرَةً أَوْ شَاةً.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں «عقر» نہیں ہے“۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: لوگ زمانہ جاہلیت میں قبر کے پاس جا کر گائے بکری وغیرہ ذبح کیا کرتے تھے۔
[سنن ابي داود كِتَاب حدیث: 3222]
أبوداود، (تحفة الأشراف: 475)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/197) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:

۱؎: قبرکے پاس گائے بکری وغیرہ ذبح کرنا یہی «عقر» ہے، اسلام میں اس سے ممانعت ہو گئی۔
یہ ایک جاہلی رسم تھی کہ گویا صاحب قبر اپنی زندگی میں بڑا سخی تھا۔
تو اس کے اقارب موت کے بعد اس کی قبر کے پاس جانور ذبح کرکے چھوڑ دیتے تھے کہ جانور کھا جایئں اسلام نے اس کام سے روک دیاہے۔
اور اب کسی بھی نیت سے قبر جانور ذبح کرنا۔
چڑھاوا چڑھانا یا دیگیں پکا کر تقسیم کرنا حرام ہے۔

قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا حرام ھے

جیسا کہ امام أبو داود اپنی کتاب سنن أبی داود میں یوں باب قائم کرتے ھیں:
ملاحظہ کیجیے:
باب فِي الْبِنَاءِ عَلَى الْقَبْرِ
76. باب: قبر پر عمارت بنانا۔
حدیث نمبر: 3225
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” نَهَى أَنْ يُقْعَدَ عَلَى الْقَبْرِ، وَأَنْ يُقَصَّصَ، وَيُبْنَى عَلَيْهِ”.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر پر بیٹھنے ۱؎، اسے پختہ بنانے، اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرماتے سنا ہے۔
(سنن ابي داود حدیث حدیث: 3225،‏‏‏‏صحیح مسلم حدیث (970)، سنن الترمذی حدیث (1052)، سنن النسائی (2029)، (تحفة الأشراف: 2274، 2796)، سنن ابن ماجة 43 (1562)، مسند احمد (3/295، 332، 399) (صحیح)  ‏‏‏‏

وضاحت:

۱؎: قبر پر بیٹھنے سے مراد حاجت کے لئے بیٹھنا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مطلق بیٹھنا مراد ہے کیونکہ اس میں صاحب قبر کا استخفاف ہے۔
۲؎: قبر پر بیٹھنے سے صاحب قبر کی توہین ہوتی ہے اور قبر کو مزین کرنے اور اس پر عمارت بنانے سے اگر ایک طرف فضول خرچی ہے تو دوسری جانب اس سے لوگوں کا شرک میں مبتلا ہونے کا خوف ہے، کیونکہ قبروں پر بنائے گئے قبے اور مشاہد شرک کے مظاہر و علامات میں سے ہیں۔

قبروں کو پکا کرنا بھی حرام ھے

´قبروں پر عمارت بنانے، ان کو پختہ کرنے اور ان پر کتبہ لگانے کی ممانعت۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه حدیث: 1562]

فائده:
چونا گچ کرنا گزشتہ زمانے میں عمارت میں پختگی پیدا کرنے کاطریقہ تھا آج کل اس مقصد کےلئے سیمنٹ استعمال کیا جاتا ہے۔
قبر پر صرف قبر کے گڑھے سے نکلی ہوئی مٹی ڈالنا کافی ہے۔
مزید مٹی ڈالنا یا قبر کو پختہ کرنا منع ہے۔
اس لحاظ سے اس پر کمرہ قبے وغیرہ تعمیر کرنا بالاولیٰ منع ہوگا۔

قبروں پر لکھنا بھی حرام ھے

امام ترمذی اپنی کتاب میں حدیث اس طرح لائے ھیں:

سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
58. باب: مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ تَجْصِيصِ الْقُبُورِ وَالْكِتَابَةِ عَلَيْهَا
58. باب: قبریں پختہ کرنے اور ان پر لکھنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 1052
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: ” نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُجَصَّصَ الْقُبُورُ، وَأَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهَا، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهَا، وَأَنْ تُوطَأَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرٍ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ فِي تَطْيِينِ الْقُبُورِ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ أَنْ يُطَيَّنَ الْقَبْرُ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں ۱؎، ان پر لکھا جائے ۲؎ اور ان پر عمارت بنائی جائے ۳؎ اور انہیں روندا جائے ۴؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ اور بھی طرق سے جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،
۳- بعض اہل علم نے قبروں پر مٹی ڈالنے کی اجازت دی ہے، انہیں میں سے حسن بصری بھی ہیں،
۴- شافعی کہتے ہیں: قبروں پر مٹی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(سنن ترمذي حدیث: 1052 ،صحیح مسلم32 (970) سنن ابی داود 76 (3225) سنن النسائی (2029) (تحفة الأشراف: 2796) مسند احمد (3/295) (صحیح) 

وضاحت:
۱؎: اس ممانعت کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ اس میں فضول خرچی ہے کیونکہ اس سے مردے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا دوسرے اس میں مردوں کی ایسی تعظیم ہے جو انسان کو شرک تک پہنچا دیتی ہے۔
۲؎: یہ نہی مطلقاً ہے اس میں میت کا نام اس کی تاریخ وفات اور تبرک کے لیے قرآن کی آیتیں اور اسماء حسنیٰ وغیرہ لکھنا سبھی داخل ہیں۔
۳؎: مثلاً قبّہ وغیرہ۔
۴؎: یہ ممانعت میت کی توقیر و تکریم کی وجہ سے ہے اس سے میت کی تذلیل و توہین ہوتی ہے اس لیے اس سے منع کیا گیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

1