قبر نبی ﷺ سے تبرک کے متعلق 9 روایات
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی تعظیم ایک مسلمہ حقیقت ہے کیونکہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اطہر مدفون ہے، لیکن اس سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ سلف صالحین میں سے کسی صحابی، تابعی یا تبع تابعی سے قبر مبارک سے تبرک لینے کا کوئی ثبوت صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ دین میں غلوّ اسلام میں ممنوع ہے اور اسی طرح قبر نبی کو چھونا یا بوسہ دینا بھی کسی مستند حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

حق دین کی بنیاد سلف صالحین کے طرز عمل پر ہے

سلف صالحین نے جس طرز عمل کو اپنایا، وہی حق دین ہے۔ شریعت میں ان باتوں کی کوئی حیثیت نہیں جن سے سلف صالحین ناواقف رہے ہوں۔ اسی تناظر میں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنا، اسے چھونا یا بوسہ دینا کسی مستند ذریعہ سے ثابت نہیں ہے۔

صحابہ کرام کا طرز عمل

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت: جب مسلمانوں نے تستر کو فتح کیا، تو وہاں تابوت میں ایک آدمی کا جسم پایا گیا، جس کی ناک لمبی تھی۔ وہاں کے لوگ اس تابوت کے ذریعے غلبہ اور بارش طلب کرتے تھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کی اطلاع حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ نبی ہیں، نہ آگ ان کو کھا سکتی ہے اور نہ زمین ان کے جسم کو ختم کر سکتی ہے۔ پھر حکم دیا کہ اسے ایسی جگہ دفن کیا جائے جس کا علم صرف ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ہو تاکہ کوئی اس سے تبرک حاصل نہ کرے۔ (مصنّف ابن أبي شیبۃ: 27/13)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کرتے تو دعا فرماتے، لیکن قبر کو چھونا یا بوسہ دینا مکروہ سمجھتے تھے۔ (الموطأ للإمام مالک: 166/1)

حضرت نافع تابعی رحمہ اللہ کا بیان: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو چھونا مکروہ سمجھتے تھے۔ (جزء محمّد بن عاصم الثقفي: 106)

حکمت

یہ حکمت بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے علاوہ کسی نبی کی قبر کا علم لوگوں کو نہیں دیا تاکہ قبروں سے تبرک اور وسیلہ کا غلط تصور پیدا نہ ہو۔ اسی طرح بہت سے صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کی قبریں بھی نامعلوم ہیں تاکہ قبروں سے تبرک حاصل کرنے کا غلط تصور پروان نہ چڑھ سکے۔

تابعین اور بعد کے ادوار کے علماء کا طرز عمل

مشہور تابعی ابو العالیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے تستر شہر کو فتح کیا تو ہرمزان کے بیت المال میں ایک چارپائی دیکھی جس پر ایک فوت شدہ شخص کا جسم تھا۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اس چارپائی کو قحط سالی میں باہر نکالنے سے بارش ہو جاتی تھی۔ ابو العالیہ رحمہ اللہ نے بتایا کہ انہوں نے اس تابوت کو دفن کر دیا تاکہ لوگ اس کا تبرک نہ لیں۔ (السیرۃ لابن إسحاق: 66)

علماء کی آرا

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ صحابہ کرام نے دانیال علیہ السلام کی قبر کو چھپایا تاکہ لوگ اس سے فتنہ میں مبتلا نہ ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر قبروں سے تبرک لینا جائز ہوتا تو صحابہ کرام اس قبر کو ظاہر کرتے اور وہاں دعا کرتے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ (اقتضاء الصراط المستقیم: 200/2)

قبر نبی کی تعظیم اور تبرک حاصل کرنے کا غلط تصور

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اور دیگر علماء نے بھی یہی فرمایا کہ صحابہ کرام اور تابعین نے انبیاء یا صالحین کی قبروں سے تبرک لینے کو جائز نہیں سمجھا۔ اگر ایسا عمل جائز ہوتا تو صحابہ کرام ان قبروں کو ظاہر کرتے اور ان سے تبرک حاصل کرتے۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ: صحابہ کرام نے دانیال علیہ السلام کی قبر کو چھپایا تاکہ لوگ اس سے فتنہ میں مبتلا نہ ہوں۔ انہوں نے اس قبر کو ظاہر نہیں کیا تاکہ وہاں دعا یا تبرک حاصل کرنے کا رواج نہ بنے۔ (إغاثۃ اللھفان: 203/1)

علامہ غزالی رحمہ اللہ: قبروں کو چھونا اور ان کو بوسہ دینا یہود و نصاریٰ کی عادت ہے اور اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔ (احیاء علوم الدین: 244/1)

دیگر علماء کی آرا

علامہ نووی رحمہ اللہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا طواف کرنا یا اس کے پاس سجدہ کرنا مکروہ ہے اور ایسا عمل بدعت شمار ہوتا ہے۔ (الإیضاح: 456)

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ: قبروں کو چھونا اور ان کے وسیلے سے دعا مانگنا یا ان سے تبرک حاصل کرنا ایک بدعت ہے جس کا اسلام میں کوئی جواز نہیں ہے۔ (مجموع الفتاوٰی: 321/24)

علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ: بعض جاہل افراد قبروں کا طواف کرتے ہیں اور انہیں چھوتے ہیں، حالانکہ یہ سب بدعت ہے اور اس سے بچنا ضروری ہے۔ (المدخل: 263/1)

صحابہ کرام اور قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک

بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے تبرک لینے کو جائز سمجھتے ہیں اور اس کے لیے مختلف دلائل پیش کرتے ہیں۔ ذیل میں ان کے دو مشہور دلائل کا جائزہ اور ان پر مختصر و جامع تبصرہ پیش کیا جا رہا ہے:

① سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور مسجد نبوی میں نماز

بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے خط کے جواب میں لوگوں کو شام کی طرف روانہ کرنا تھا، تو آپ سب سے پہلے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے، چار رکعت نماز ادا کی، اور پھر قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرکے سلام پیش کیا۔ (فتوح الشام للواقدي: 306/1، 307)

تبصرہ

یہ روایت محمد بن عمر واقدی کی ہے، جو محدثین کے نزدیک ناقابل اعتبار اور ضعیف راوی ہے۔

امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے کہا: "میرے نزدیک وہ حدیث گھڑنے والوں میں سے ہے”۔ (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: 21/8، سند صحیح)

امام ابو حاتم رازی، امام بخاری، امام مسلم، امام نسائی اور دیگر محدثین نے واقدی کو "متروک الحدیث” قرار دیا ہے۔ (الجرح والتعدیل: 21/8، الضعفاء الکبیر للعقیلی: 107/4، الکنٰی والأسماء: 1952)

امام بندار بن بشار نے فرمایا: "میں نے واقدی سے بڑا جھوٹا راوی نہیں دیکھا”۔ (تاریخ بغداد للخطیب: 14/3)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا: "یہ بات مسلّم ہے کہ واقدی ضعیف راوی ہے”۔ (سیر أعلام النبلاء: 454/9)

اس بنا پر، یہ روایت بے بنیاد اور ناقابل اعتبار ہے۔

② کعب احبار رحمہ اللہ اور قبر رسول کی زیارت

دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ جب کعب احبار رحمہ اللہ اسلام لائے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا کہ کیا آپ میرے ساتھ قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے چلیں گے؟ پھر دونوں نے قبر رسول کی زیارت کی اور سلام کیا۔ (فتوح الشام للواقدي: 318/1)

تبصرہ

یہ روایت بھی واقدی کی بیان کردہ ہے اور محدثین کے نزدیک بے سند اور ناقابل اعتبار ہے۔ محدثین نے واقدی کو ضعیف راوی اور جھوٹ گھڑنے والا قرار دیا ہے، اس لیے اس روایت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

③سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک کا دعویٰ

بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے قحط کے وقت قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک حاصل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ وہ اس کے لیے ایک روایت پیش کرتے ہیں: ابوالجوزا، اوس بن عبداللہ تابعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ اہل مدینہ سخت قحط کا شکار ہوئے، تو انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی۔ سیدہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف کھولو تاکہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ نہ رہے۔ جب لوگوں نے ایسا کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی اور اونٹوں نے بھی خوب چربی حاصل کی، جس کے بعد اس سال کو "عام الفتق” (چربی پھٹنے والا سال) کہا گیا۔ (سنن الدارمي: 58/1، ح: 93)

تبصرہ

یہ روایت "ضعیف” ہے اور اس کی سند ناقابل اعتماد ہے۔ اس کے بنیادی اسباب درج ذیل ہیں:

راوی عمرو بن مالک نکری کی روایت ابوالجوزا سے غیر محفوظ ہے۔ محدثین نے اس کی کئی روایات کو غیر محفوظ اور ناقابل اعتماد قرار دیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ابن عدی کا قول نقل کیا ہے کہ عمرو بن مالک نے ابوالجوزا سے تقریباً دس غیر محفوظ روایات بیان کی ہیں۔ (تہذیب التہذیب: 336/1)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو جھوٹا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند درست نہیں ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں حجرہ نبوی میں کوئی کھڑکی نہیں تھی، اور یہ بات تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے۔ (الردّ علی البکري: 68-74)

ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ اگر یہ روایت درست ہوتی تو بھی یہ اس بات کی دلیل نہیں بنتی کہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تبرک لیتے تھے۔ بلکہ اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ قبر پر سے کھڑکی کھولتے تاکہ اللہ کی رحمت نازل ہو۔

الزامی جواب

اس روایت کا ایک اور الزامی جواب یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے، اور اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں تو وہ جھوٹا ہے، کیونکہ قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ (صحیح البخاري: 7380، صحیح مسلم: 177)

جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول تسلیم کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے، تو ان کے قول کو قبر نبوی سے تبرک کے متعلق بغیر کسی آیت یا حدیث کے کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟ مزید یہ کہ اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے، اس لیے اس کو قبول کرنے کی کوئی بنیاد نہیں بنتی۔

④سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما اور قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک کا دعویٰ

بعض لوگوں نے ایک روایت پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس روتے ہوئے دیکھا گیا، اور وہ فرما رہے تھے: "آنسو بہانے کی جگہ یہی ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: ‘میری قبر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے’۔” (شعب الإیمان للبیہقی: 3866)

تبصرہ

یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے "سخت ترین ضعیف” ہے، اور اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

❀ محمد بن حسین ابو عبدالرحمن سلمی

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ محدثین نے اس پر جرح کی ہے اور وہ قابل اعتماد شخص نہیں تھا۔ (میزان الاعتدال: 523/3)

انہوں نے اسے "ضعیف” بھی قرار دیا ہے۔ (تذکرۃ الحفّاظ: 166/3)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس پر جرح کی ہے۔ (الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ: 252/2)

محمد بن یوسف قطان نیشاپوری رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ شخص "قابل اعتبار نہیں تھا اور صوفیوں کے لیے روایات گھڑتا تھا”۔ (تاریخ بغداد للخطیب: 247/2)

❀ محمد بن یونس بن موسیٰ کدیمی

امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اس پر حدیث گھڑنے اور چوری کرنے کا الزام لگایا ہے۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال: 292/6)

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "یہ شخص ثقہ راویوں سے منسوب کرکے خود احادیث گھڑتا تھا، اور اس نے شاید ایک ہزار سے زائد احادیث گھڑی ہیں”۔ (کتاب المجروحین: 313/2)

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے "متروک” قرار دیا ہے۔ (سؤالات الحاکم: 173)

امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اس کی ایک روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "یہ سچے شخص کی حدیث نہیں ہے”۔ (الجرح والتعدیل: 122/8)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے "متروک” قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال: 74/4)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے "ضعیف” کہا ہے۔ (تقریب التھذیب: 6419)

⑤ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اور قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک کا دعویٰ

بعض لوگوں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک روایت پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت خواب میں کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے بلال! یہ کیا بے رُخی ہے؟ کیا تمہیں میری زیارت کرنے کا وقت نہیں آیا؟” اس خواب کے بعد، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ پہنچے، قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوئے، وہاں روئے اور اپنا چہرہ قبر پر ملا۔ پھر انہوں نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی، جنہوں نے ان سے اذان دینے کی درخواست کی، اور انہوں نے اذان دی۔ اس اذان سے پورا مدینہ گونج اٹھا اور لوگ سوچنے لگے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں؟ (تاریخ دمشق لابن عساکر: 137/7)

تبصرہ

یہ روایت ضعیف اور من گھڑت ہے، جیسا کہ مختلف محدثین نے بیان کیا ہے:

❀حافظ ابن حجر رحمہ اللہ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کو واضح طور پر "من گھڑت” قرار دیا ہے: "یہ داستان واضح طور پر کسی کی گھڑنت ہے۔” (لسان المیزان: 108/1)

❀علامہ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ

علامہ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ روایت "صحیح نہیں” ہے: "یہ روایت ثابت نہیں۔” (الصارم المنکي في الردّ علی السبکي: 314)

❀حافظ ذہبی رحمہ اللہ

حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس روایت کی سند کو "کمزور” اور اس روایت کو "منکر” قرار دیتے ہیں: "اس کی سند کمزور ہے اور یہ روایت منکر ہے۔” (سیر أعلام النبلاء: 358/1)

❀ابن عراق کنانی رحمہ اللہ

ابن عراق کنانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو "من گھڑت” کہا ہے: "یہ قصہ مبینہ طور پر گھڑا ہوا ہے۔” (تنزیہ الشریعۃ: 59)

سند کی خرابیاں

اس روایت میں متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں جو اسے ناقابل قبول بناتی ہیں:

◈ابو اسحاق ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال

حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ راوی "مجہول” ہے: "یہ راوی نامعلوم ہے۔” (تاریخ الإسلام: 67/17)

"اس راوی کی جہالت ہے۔” (میزان الاعتدال: 64/1)

◈سلیمان بن بلال بن ابو درداء

حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی بھی "مجہول الحال” ہے: "یہ راوی مجہول الحال ہے اور اسے کسی عالم نے معتبر قرار نہیں دیا۔” (الصارم المنکي: 314)

◈ انقطاع

سلیمان بن بلال کا سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت نہیں، اس لیے یہ روایت "منقطع” بھی ہے: "سلیمان بن بلال کا ام درداء رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت نہیں ہے۔” (الصارم المنکي: 314)

⑥ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک کا دعویٰ

بعض لوگوں نے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک واقعہ پیش کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر اپنا چہرہ رکھا اور مروان نے انہیں اس عمل پر تنبیہ کی۔ اس روایت کے مطابق، سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے مروان کو جواب دیا: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں، پتھر کے پاس نہیں۔” (مسند الإمام أحمد: 422/5، المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 515/4)

تبصرہ

یہ روایت ضعیف ہے اور اس کی سند میں کئی خرابیاں موجود ہیں۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

❀داود بن ابو صالح حجازی

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے داود بن ابو صالح کو "مجہول” قرار دیا ہے: "یہ مجہول راوی ہے۔” (میزان الاعتدال: 9/2)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے "مقبول” قرار دیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ راوی مجہول الحال ہے اور اس کی روایت قابل اعتماد نہیں ہے: "یہ مجہول الحال شخص ہے۔” (تقریب التہذیب: 1792)

امام حاکم رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کو "صحیح” قرار دیا، لیکن حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی موافقت کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ داود بن ابو صالح کا مجہول ہونا اس روایت کو کمزور بنا دیتا ہے۔ اس لیے حاکم اور ذہبی کی موافقت قابل قبول نہیں سمجھی جاتی۔

❀طبرانی کی روایت

یہ روایت طبرانی کی کتاب "معجم کبیر” اور "معجم اوسط” میں بھی موجود ہے، لیکن اس کی سند درج ذیل وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے:

  • سفیان بن بشر کوفی راوی نامعلوم ہے اور غیر معروف ہے۔
  • حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "میں اسے نہیں پہچانتا۔” (مجمع الزوائد: 130/9)
  • مطلب بن عبداللہ بن حنطب راوی مدلس ہے اور بصیغہ "عن” روایت کر رہا ہے، اس کے سماع کی تصریح نہیں ملتی۔
  • مطلب بن عبداللہ کا سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے سماع بھی ثابت نہیں ہے، اس لیے یہ روایت "منقطع” ہے۔
  • ہارون بن سلیمان ابوذر اور احمد بن محمد بن حجاج بن رشدین بھی سند میں شامل ہیں، جنہیں مجہول اور ضعیف قرار دیا گیا ہے۔

❀سند کی خرابیاں

امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے احمد بن محمد بن حجاج کو ضعیف قرار دیا ہے: "محدثین نے اس پر جرح کی ہے۔” (الجرح والتعدیل: 75/2)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (مجمع الزوائد: 25/2، 694/6)

⑦ دورِ فاروقی میں ایک شخص کا قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک

بعض لوگوں نے ایک روایت پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں قحط کے دوران ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کرنے کی درخواست کی۔ اس شخص نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جنہوں نے اس سے فرمایا کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کو میرا سلام پہنچائے اور انہیں اطلاع دے کہ اللہ بارش نازل کرے گا۔ (مصنف ابن أبي شیبہ: 356/6، دلائل النبوۃ للبیہقي: 47/7)

تبصرہ

یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، اور اس کی کئی خرابیاں موجود ہیں۔ تفصیل درج ذیل ہے:

❀سلیمان بن مہران اعمش

اعمش مدلس ہیں اور اس روایت میں انہوں نے "عن” کے ذریعے روایت کی ہے، یعنی انہوں نے اپنے سماع کی تصریح نہیں کی۔ مدلس راوی کی روایت اسی وقت قابل قبول ہوتی ہے جب وہ سماع کی وضاحت کرے۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی مدلس کی حدیث قبول نہیں کی جاتی جب تک کہ وہ یہ نہ کہے کہ میں نے خود سنا۔ (الرسالہ: 380)

حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ اعمش کی تدلیس قابل قبول نہیں ہے: "اہل علم کہتے ہیں کہ اعمش کی تدلیس قبول نہیں ہوتی۔” (التمھید: 30/1)

❀مالک دار

مالک دار مجہول الحال ہے، اور اس کی توثیق صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کی ہے، جبکہ دیگر محدثین نے اسے غیر معروف قرار دیا ہے:

حافظ منذری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میں اسے نہیں جانتا۔” (الترغیب والترھیب: 2/29)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں: "میں اسے نہیں پہچانتا۔” (مجمع الزوائد: 3/123)

❀سند کی دیگر خرابیاں

اعمش کی تدلیس اور مالک دار کا مجہول الحال ہونا اس روایت کو مزید کمزور بناتا ہے۔

حافظ ابن حجر اور ابن کثیر نے اس روایت کو صحیح قرار دیا، لیکن ان کا یہ فیصلہ علمی تسامح سمجھا جاتا ہے، کیونکہ روایت کی دیگر اصولی کمزوریوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

تنبیہ

امام طبری اور حافظ ابن کثیر نے ایک روایت بیان کی ہے جس میں بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ یہ روایت بھی ضعیف ہے، کیونکہ اس میں درج ذیل خرابیاں موجود ہیں:

  • شعیب بن ابراہیم رفاعی کوفی: یہ راوی غیر معروف ہے اور اس کی بیان کردہ احادیث اور روایات کو محدثین نے ناقابل اعتماد قرار دیا ہے۔
  • حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے مجہول کہا ہے: "اس میں جہالت ہے۔” (میزان الاعتدال: 2/275)
  • سیف بن عمر: یہ راوی ضعیف، متروک، اور حدیث گھڑنے والا مانا جاتا ہے، جس کی روایت کا کوئی اعتبار نہیں۔
  • سہل بن یوسف بن سہل بن مالک انصاری: یہ بھی مجہول الحال ہے، اور اس کی بیان کردہ روایت کو قابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا۔

⑧محمد بن منکدر کی طرف منسوب واقعہ

اسماعیل بن یعقوب تیمی کی روایت ہے کہ محمد بن منکدر رحمہ اللہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے اور بعض اوقات انہیں بہرے پن کا عارضہ لاحق ہو جاتا تھا۔ اس کیفیت میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر اپنا رخسار رکھتے اور پھر واپس پلٹ آتے۔ جب ان سے اس عمل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب مجھے اس مرض یا آفت کا خطرہ محسوس ہوتا ہے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر فریاد کرتا ہوں۔ اسی طرح انہوں نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں مسجد کے صحن میں دیکھا تھا، اسی لیے وہ وہاں مٹی پر لیٹ جاتے تھے۔ (التاریخ الکبیر لابن أبی خیثمۃ: 259-258/2، تاریخ دمشق لابن عساکر: 50/56، سیر أعلام النبلاء للذہبی: 359-358/5)

تبصرہ

یہ واقعہ سند کے اعتبار سے سخت ضعیف اور منکر ہے، کیونکہ اس کا راوی اسماعیل بن یعقوب تیمی مجروح راوی ہے۔

❀اسماعیل بن یعقوب تیمی کے بارے میں محدثین کے اقوال

امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ ضعیف الحدیث راوی ہے۔” (الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم: 204/2)

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے "الضعفاء والمتروکون” میں ذکر کیا ہے۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس میں کمزوری ہے۔” (تاریخ الإسلام: 521/3)

نیز فرماتے ہیں: "امام ابو حاتم نے اسے ضعیف کہا ہے، اور اس نے امام مالک سے ایک منکر حکایت بیان کی ہے۔” (میزان الاعتدال: 254/1)

لہٰذا، اس روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

⑨امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول

امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کو چھونے اور اس سے تبرک حاصل کرنے کے بارے میں پوچھا گیا، اور قبرِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دینے اور اس سے تقرب الی اللہ کا سوال کیا گیا، تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اگر اس سے تقرب الی اللہ کا ارادہ ہو، تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (العلل ومعرفۃ الرجال: 294/2)

تبصرہ

یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ایک اجتہادی خطا ہے، کیونکہ سلف صالحین میں سے کسی نے ایسا عمل نہیں کیا اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر یا منبر کو چھو کر تبرک حاصل کرنے کا عمل اپنایا۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس بات کی تائید کی ہے کہ صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مس کرنا ناپسند کرتے تھے، کیونکہ وہ اسے بے ادبی سمجھتے تھے:

"سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مس کرنا ناپسند کرتے تھے کیونکہ وہ اسے بے ادبی خیال کرتے تھے۔” (معجم الشیوخ الکبیر: 73/1)

✔ محبت رسول کا حقیقی تقاضا

محبت رسول کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت اور عمل کو اپنائیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے، لیکن انہوں نے کبھی قبر مبارک کو مس یا بوسہ دے کر تبرک حاصل نہیں کیا۔ محبت رسول کا اصل معیار وہی ہے جو صحابہ کرام نے اپنایا۔

محبت رسول کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی طرف سے کوئی عمل ایجاد کریں۔ ہمیں صحابہ کرام اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنا چاہئے، کیونکہ دین میں ہر عمل کا معیار قرآن و سنت اور صحابہ کرام کا عمل ہونا چاہئے۔

مضمون کا خلاصہ

مذکورہ مضمون میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے تبرک کے حوالے سے مختلف روایات کا ذکر کیا گیا ہے، جنہیں بعض لوگ درست قرار دیتے ہیں۔ تاہم، تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان روایات کی سندیں یا تو ضعیف ہیں یا منکر، اور محدثین نے ان روایات پر جرح کی ہے۔

➊ قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک کی روایات

اس حوالے سے پیش کی جانے والی روایات کی سندیں اکثر مجروح ہیں، اور محدثین نے ان راویوں کو ضعیف یا مجہول قرار دیا ہے۔

➋ محبت رسول کا حقیقی معیار

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے، نے کبھی قبر کو مس یا بوسہ دے کر تبرک حاصل نہیں کیا۔ ان کا عمل ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔

➌ امام احمد بن حنبل کا اجتہاد

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قبر کو مس کرنے اور تبرک حاصل کرنے کو جائز کہنا ایک اجتہادی خطا ہے، کیونکہ یہ عمل سلف صالحین کی سنت کے خلاف ہے۔

➍ حافظ ذہبی کا تبصرہ

حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے مطابق، صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو چھونا ناپسند کیا، اور تبرک کا یہ طریقہ سلف میں سے کسی نے اختیار نہیں کیا۔

نتیجہ

دین کی بنیاد قرآن و سنت اور صحابہ کرام کی عملی تفسیر پر ہے۔ محبت رسول کا اظہار ان طریقوں سے ہونا چاہئے جو صحابہ کرام نے اپنائے۔ قبر نبی سے تبرک حاصل کرنے کا عمل نہ تو سنت ہے اور نہ ہی اس کا کوئی شرعی ثبوت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے