قبروں پر بیٹھنا اور مرنے والوں کو گالیاں دینا حرام ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

قبروں پر بیٹھنا اور مرنے والوں کو گالیاں دینا حرام ہے
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهى رسول الله وأن يقعد عليه
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔“
[مسلم: 970 ، كتاب الجنائز: باب النهي عن تجصيص القبر والبناء عليه ، أحمد: 399/3]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
لا تجلسوا على القبور…
”قبروں پر مت بیٹھو…“
[مسلم: 26/3]
➌ ایک اور روایت میں یہ الفاظ مذکور ہیں: ان توطا ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو روندنے سے منع فرمایا ہے ۔“
[ترمذي: 1052 ، كتاب الجنائز: باب ما جاء فى كراهية تجصيص القبور والكتابة عليها ، مسلم: 970]
➍ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لأن يجلس أحدكم على جمرة فتحرق ثيابه فتخلص إلى جلده خير له من أن يجلس على قبر
”تم میں سے کوئی شخص انگارے پر بیٹھے اور وہ اس کے کپڑوں کو جلا کر جلد تک پہنچ جائے یہ اس کے لیے قبر پر بیٹھنے سے زیادہ بہتر ہے۔“
[مسلم: 971 ، كتاب الجنائز: باب النهي عن الجلوس على القبر والصلاة عليه ، أبو داود: 3228 ، نسائي: 2044 ، ابن ماجة: 1566 ، بيهقى: 79/4 ، أحمد: 311/2]
اس سلسلے میں حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ضعیف ہے ۔
[التعليق على الروضة للشيخ صبحي حلاق: 452/1]
(جمہور) قبر پر بیٹھنا حرام ہے۔
[نيل الأوطار: 34/3]
(شافعیؒ ، ابو حنیفہؒ) یہ عمل مکروہ ہے۔
[الآثار للإمام محمد: ص/ 45 ، أحكام الجنائز: ص/268]
(البانیؒ) حرمت کا قول برحق ہے۔
[أحكام الجنائز: ص/ 268]
(امیر صنعانیؒ) یہ دلیل حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔
[سبل السلام: 786/2]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تسبوا الأموات فإنهم قد أفضوا إلى ما قدموا
”مردوں کو گالی مت دو کیونکہ انہوں نے جو آگے بھیجا ہے (یعنی جو عمل کیے ہیں ) اسے حاصل کر لیا ہے۔“
[بخاري: 1393 ، 6516 ، نسائى: 35/4 ، أحمد: 180/6 ، دارمي: 239/2 ِ، ابن حبان: 3021]
ایک روایت میں ہے کہ :
فتوذوا الأحياء
”گالی سے تم زندہ لوگوں کو تکلیف دیتے ہو (کیونکہ مرنے والوں سے ان کا قریبی تعلق ہے ) ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 1614 ، كتاب البر والصلة: باب ما جاء فى الشتم ، ترمذي: 1982 ، أحمد: 252/4 ، طبراني كبير: 1013]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1