قبروں سے تبرک کے بارے میں پیش کیئے جانے والے 19 دلائل
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

تبرک کے لیے اولیاء کے اجسام یا ان سے منسوب اشیاء کو استعمال کرنا جائز نہیں بلکہ بدعت ہے

سلف صالحین سے اس عمل کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہاں بعض لوگوں کے پیش کردہ دلائل کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

دلیل نمبر 1:امام شافعی رحمہ اللہ کا واقعہ

امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ سے منسوب ہے کہ:

امام شافعی رحمہ اللہ مصر سے ایک خط لکھ کر انہیں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تک پہنچانے کا کہتے ہیں۔ جب ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ بغداد پہنچے تو فجر کے وقت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ملاقات کی اور انہیں خط دیا۔ خط پڑھتے وقت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ خط میں امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک خواب کا ذکر کیا تھا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو "خلق قرآن” کے باطل عقیدے کی مخالفت کرنے کا پیغام دیا تھا۔ ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ مزید بیان کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے انہیں اپنی ایک قمیص دی، جسے وہ مصر میں امام شافعی رحمہ اللہ کے پاس لے گئے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس قمیص سے برکت حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی اور اسے پانی میں بھگو کر استعمال کیا۔(تاریخ دمشق لابن عساکر : 311/5، مناقب أحمد بن حنبل لابن الجوزي : 609، 610)

اس روایت پر تبصرہ:

یہ واقعہ کمزور اور غیر معتبر سندوں پر مبنی ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں:

◈ محمد بن حسین ابو عبدالرحمن سلمی، اس واقعے کا راوی، "متہم بالکذب” یعنی جھوٹا سمجھا جاتا ہے۔
◈ ابوبکر محمد بن عبداللہ بن عبدالعزیز بن شاذان رازی، جو کہ ایک گمراہ صوفی تھا، اسے بھی "متہم” قرار دیا گیا ہے۔
◈ علی بن عبدالعزیز طلحی کے حالات زندگی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

دوسری سند:

اس واقعے کی ایک اور سند مناقب احمد بن حنبل میں موجود ہے، مگر اس میں بھی خامیاں ہیں:

◈ ابوعلی الحسن بن علی بن محمد ابوعلی بن مذہب بغدادی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ شیخ مضبوط حافظے والے نہیں تھے”
(میزان الاعتدال: 512/1)۔
◈ دیگر علماء نے بھی اس راوی پر اعتماد نہیں کیا اور اس کے اختلاط کا ذکر کیا ہے۔

تیسری سند:

تیسری سند تاریخ ابن عساکر اور طبقات الشافعیۃ الکبریٰ میں آتی ہے، مگر یہ بھی "ضعیف” ہے:

◈ اس میں شامل راوی جعفر بن محمد مالکی کی توثیق نہیں ملتی۔
◈ ابوبکر محمد بن عبداللہ بن عبدالعزیز بن شاذان رازی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ "یہ ثقہ نہیں تھا”
(تاریخ الاسلام: 360/6)۔

ربیع بن سلیمان کے بارے میں محدثین کا تبصرہ:

حافظ ذہبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ربیع بن سلیمان طلبِ علم کے لیے زیادہ سفر کرنے والے نہیں تھے، اور یہ کہ ان کا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس بغداد جانا درست نہیں
(سیر اعلام النبلاء: 587/12)۔
اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ خطیب بغدادی نے اپنی کتاب تاریخ بغداد میں ان کا ذکر نہیں کیا۔ اگر وہ بغداد گئے ہوتے، تو ان کا تذکرہ ضرور ہوتا۔

دلیل نمبر 2:امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا واقعہ:

عمرو بن قیس ملائی، ابو عبداللہ کوفی رحمہ اللہ کے بارے میں امام عجلی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ:

’’امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ان کے پاس آتے، ان سے سلام کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔‘‘
(الثقات: 368)

تبصرہ:

یہ قول سخت منقطع ہے کیونکہ:

◈ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی وفات 161 ہجری میں ہوئی۔
◈ امام عجلی رحمہ اللہ کی ولادت 182 ہجری میں ہوئی۔
◈ دونوں کے درمیان واسطہ کا ذکر نہیں، اس لیے یہ سند منقطع اور مردود ہے۔

دلیل نمبر3:سلطان محمد غزنوی کا قصہ:

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ سلطان محمد غزنوی (وفات: 421 ہجری) کو سومنات کی جنگ میں علی بن احمد ابو الحسن خرقانی بسطامی (وفات: 425 ہجری) کے جبے کی برکت سے فتح حاصل ہوئی۔
(تذکرۃ الاولیاء از فرید الدین عطار، ص: 344)

تبصرہ:

یہ جھوٹی اور بے بنیاد کہانی ہے، جو گمراہ صوفیوں کی من گھڑت روایت ہے۔ یہ قصہ مستند اسلامی ذرائع سے ثابت نہیں ہوتا۔

توسل اور تبرک: بدعت اور شرک کی راہ:

توسل اور تبرک کی ایسی صورتیں جو غیر مشروع ہیں، شرک اور بدعت کی جانب لے جاتی ہیں۔
◈ قبروں سے تبرک حاصل کرنا، خواہ وہ اولیاء کی قبریں ہوں، ممنوع اور بدعت ہے۔
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی مبارک قبر سے تبرک جائز نہیں، تو دیگر افراد کی قبروں سے کیسے جائز ہو سکتا ہے، جبکہ تبرک کا تصور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی ذات بابرکت سے خاص ہے۔
◈ خیرالقرون یعنی صحابہ اور تابعین کے دور میں قبروں سے تبرک کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ نظریہ رافضیوں سے لیا گیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کا بیان:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد، علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (691-751ھ) فرماتے ہیں:

’’ہمارے استاذ (شیخ الاسلام ابن تیمیہ) قدس اللہ روحہ نے فرمایا: قبروں کے پاس بدعت پر مبنی امور کے کئی مراتب ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ شریعت کے منافی یہ ہے کہ میت سے حاجت روائی کا سوال کیا جائے اور اس سے مدد کی درخواست کی جائے، جیسا کہ بہت سے لوگ کرتے ہیں۔ یہ لوگ بت پرستوں جیسے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات شیطان ان کے سامنے کسی میت یا غیر موجود شخص کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جیسے وہ بت پرستوں کے ساتھ کرتا ہے۔ مشرکین، کفار اور اہل کتاب کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے، کہ وہ اپنے ہاں قابل تعظیم ہستی کو پکارتے ہیں، تو شیطان ان کے سامنے اس کی صورت میں ظاہر ہو جاتا ہے اور بعض اوقات انہیں غیبی امور کی خبر بھی دیتا ہے۔۔۔‘‘
(إغاثۃ اللھفان من مصاید الشیطان: 218/1)

◈ قبر کو چھونا، چومنا اور اس کے پاس دعا کرنا بھی بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔
◈ قبر کے پاس دعا کی قبولیت کا اعتقاد رکھنا، یا یہ سمجھنا کہ وہاں دعا کرنا مسجد میں دعا کرنے سے بہتر ہے، حرام اور بدعت ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک اس بات پر اتفاق ہے۔
◈ امام شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی قبر کے پاس دعا کرنے کا قصہ جھوٹا ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

دلیل نمبر 4: سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر قبہ کا ذکر

علامہ سخاوی (831-902ھ) نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے حالات میں لکھا ہے:

’’سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر ایک قبہ بنایا گیا، جو ان کا مزار ہے، اس سے (لوگ) تبرک حاصل کرتے ہیں۔‘‘
(التحفۃ اللطیفۃ في تاریخ المدینۃ الشریفۃ: 307/1)

تبصرہ:

◈ قبروں پر قبے بنانا رافضیوں کی بدعت اور ان کی ایجاد ہے۔
◈ جو لوگ قبے بناتے ہیں، ان کا مقصد عام طور پر قبروں سے تبرک اور فیض حاصل کرنا ہوتا ہے۔
◈ ایسے نا معلوم رافضیوں اور بدعتیوں کے عمل کو حوالہ کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اہل سنت کے ائمہ کا عمل پیش کیا جائے۔
◈ اہل سنت والجماعت کے نزدیک قبروں پر قبے بنانا متفقہ طور پر حرام اور معصیت ہے۔ یہ عمل اہل بدعت کی کارستانی ہے، جیسا کہ کچھ لوگوں نے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی مبارک قبر پر سبز گنبد تعمیر کیا، حالانکہ خیر القرون (یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے) میں ایسا کچھ نہیں تھا۔

دلیل نمبر 5: امام طبرانی کا واقعہ

حافظ ذہبی رحمہ اللہ ایک واقعہ یوں نقل کرتے ہیں:

’’ابوبکر بن ابو علی بیان کرتے ہیں کہ ابن مقری کہا کرتے تھے: میں، امام طبرانی اور امام ابو الشیخ مدینہ منورہ میں تھے، ہم تنگ دستی کا شکار ہو گئے۔ ہم نے وصال (مسلسل روزے رکھنا) شروع کیا۔ عشاء کے وقت میں قبر رسول کے پاس آکر میں نے کہا: یا رسول اللہ! بھوک؟ مجھے امام طبرانی نے کہا: بیٹھ جاؤ، اب یا تو رزق آئے گا یا پھر موت۔ ہم کھڑے ہوئے اور باب علوی کے پاس گئے، وہاں ایک شخص دو نوجوانوں کے ساتھ آیا، جن کے پاس دو ٹوکرے تھے جن میں بہت کچھ تھا۔ اس نے کہا: تم نے مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی، میں نے آپ کو خواب میں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں تمہارے لیے کچھ لے کر آؤں۔‘
(تذکرۃ الحفّاظ: 122/3، سیر أعلام النبلاء: 400/16، 401، مصباح الظلام: 61)

تبصرہ:

◈ یہ واقعہ بے سند اور جھوٹا ہے۔
◈ اس واقعے کا مقصد محدثین کرام کو شرک میں مبتلا ثابت کرنے کی ناکام کوشش ہے۔
◈ بے سند اقوال پیش کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے، کیونکہ اسلام میں بے سند روایت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
◈ اس طرح کی کہانیاں کسی معتبر اسلامی ماخذ سے ثابت نہیں ہیں، اور یہ صرف عوام کو گمراہ کرنے کے لیے بیان کی جاتی ہیں۔

دلیل نمبر 3: علی بن موسیٰ رضا کی قبر سے تبرک کا واقعہ

امام ابن حبان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

’’طوس کے مقام پر، جب بھی مجھے کوئی سخت پریشانی پیش آتی، تو میں علی بن موسیٰ رضا کی قبر پر جا کر اللہ سے دعا کرتا اور میری دعا قبول ہوتی۔ میں نے یہ عمل کئی بار تجربہ کیا ہے۔‘‘
(الثقات: 457/8)

تبصرہ:

◈ یہ واقعہ امام ابن حبان کی اجتہادی غلطی ہے۔ اس عمل کے لیے سلف صالحین کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔
◈ یہ عمل کتاب و سنت کے منافی اور خیر القرون کے مسلمانوں کے طرز عمل کے خلاف ہے۔
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’قبروں کے پاس دعا کرنا مساجد یا دیگر جگہوں کی نسبت افضل نہیں۔ اسلاف امت میں سے کسی نے قبروں کے پاس دعا کو مستحب نہیں کہا۔‘‘
(مجموع الفتاوی: 180/27)

دلیل نمبر 6: سیدنا عباس بن عبدالمطلب کے وسیلے سے بارش کی دعا

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

’’جب قحط پڑ جاتا، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ (کی دعا) کے وسیلے سے بارش طلب کرتے تھے۔‘‘
(صحیح البخاری: 1/137، حدیث: 1010)

تبصرہ:

◈ اگر نبی یا ولی کی قبر پر دعا کرنا زیادہ مؤثر ہوتا، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کرتے۔ ان کا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے زندہ دعا کروانا واضح کرتا ہے کہ قبروں پر دعا کرنا جائز نہیں۔
◈ صحابہ کرام اور تابعین نے کبھی بھی قبروں کے پاس جا کر دعا کی قبولیت کے لیے کوئی عمل نہیں کیا۔
◈ علامہ محمد بشیر سہسوانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبروں کے پاس دعا مانگنا یا وہاں سے مدد طلب کرنا بدعت اور شرک کی طرف لے جاتا ہے۔

دلیل نمبر7: امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک ’’ضعیف‘‘ اور باطل روایت

ایک روایت امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب کی گئی ہے، جس کا متن کچھ یوں ہے:

’’میں امام ابو حنیفہ سے تبرک حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر ہر دن زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے، تو میں دو رکعتیں ادا کرتا ہوں اور ان کی قبر کی طرف جاتا ہوں اور وہاں اللہ تعالیٰ سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا ہوں، جلد ہی وہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی: 135/1)

تبصرہ:

یہ روایت جھوٹی اور باطل ہے، اور اس کی سند میں کئی خامیاں ہیں:

◈ عمر بن اسحاق بن ابراہیم نامی راوی کا کتب رجال میں کوئی ذکر موجود نہیں ہے، جس سے اس کی شخصیت نامعلوم رہتی ہے۔
◈ علی بن میمون راوی کی بھی تعیین ممکن نہیں ہو سکی، اس کا ذکر بھی رجال کی کتب میں نہیں ملتا۔
◈ اس کے باوجود محمد زاہد الکوثری، جو کہ جہمی حنفی عالم ہیں، نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
(مقالات الکوثری: 380)
◈ لیکن جب اس روایت کے راویوں میں سے کسی کا حال ہی معلوم نہ ہو تو یہ کیسے صحیح ہو سکتی ہے؟ یہ سب قبر پرستی کو فروغ دینے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ردّ:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: 728ھ) اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’یہ ایسی جھوٹی روایت ہے، جس کا جھوٹا ہونا ہر اس شخص کو لازمی طور پر معلوم ہو جاتا ہے، جو فن روایت سے ادنیٰ معرفت بھی رکھتا ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ جب بغداد تشریف لائے، تو وہاں قطعاً کوئی ایسی قبر موجود نہیں تھی، جس پر دعا کے لیے حاضر ہوا جاتا ہو۔ یہ چیز امام شافعی رحمہ اللہ کے دور میں معروف ہی نہیں تھی۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے حجاز، یمن، شام، عراق اور مصر میں انبیاء کرام اور صحابہ و تابعین کی قبریں دیکھی تھیں۔ یہ لوگ تو امام شافعی اور تمام مسلمانوں کے ہاں امام ابوحنیفہ اور ان جیسے دوسرے علما سے افضل تھے۔ کیا وجہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے سوائے امام ابوحنیفہ کے کسی کی قبر پر دعا نہیں کی؟‘‘
(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم، ص: 165)

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق، امام شافعی رحمہ اللہ کے زمانے میں قبروں پر دعا کی نیت سے جانا معروف نہیں تھا، اور یہ عمل اس دور کے عام مسلمانوں اور علماء کے طریقے کے خلاف تھا۔
◈ امام شافعی رحمہ اللہ نے خود نیک لوگوں کی قبروں کی تعظیم کو مکروہ قرار دیا ہے، کیونکہ اس میں فتنے کا خدشہ ہے۔
◈ ایسی روایات کو کم علم یا بددین افراد گھڑتے ہیں، یا پھر مجہول راویوں سے منقول ہوتی ہیں۔

دیگر علماء کا تبصرہ:

جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب (م: 2009ء) لکھتے ہیں:
’’یہ واقعہ ہی جھوٹا اور گھڑا ہوا ہے۔‘‘
(بابِ جنت، ص: 66)

دلیل نمبر 8: امام بخاری رحمہ اللہ کی قبر پر بارش کے لیے دعا کا واقعہ

حافظ ابن بشکوال نے ایک واقعہ بیان کیا ہے:

’’سمرقند میں ایک سال قحط پڑا۔ لوگوں نے بار بار بارش کے لیے دعائیں کیں، لیکن بارش نہ ہوئی۔ ایک نیک شخص، جو اپنی دینداری کے لیے مشہور تھا، قاضی سمرقند کے پاس آیا اور کہا کہ اگر ہم سب امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کی قبر پر جا کر بارش کی دعا کریں تو ممکن ہے کہ اللہ ہمیں بارش عطا فرما دے۔ چنانچہ قاضی اور لوگوں نے امام بخاری رحمہ اللہ کی قبر کے پاس جا کر دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے خوب بارش نازل کی، جس کی بنا پر لوگ خرتنک میں تقریباً سات دن ٹھہرے رہے۔‘‘
(الصلۃ في تاریخ أئمّۃ الأندلس لابن بشکوال، ص: 603، وسندہ صحیح)

تبصرہ:

◈ یہ واقعہ پانچویں صدی ہجری کے آخر کا ہے اور اس میں شامل لوگ نامعلوم ہیں، اس لیے اس کو دین کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
◈ یہ عمل قرآن و سنت اور سلف صالحین کے طرز عمل کے خلاف ہے۔ سلف صالحین کی طرف سے ایسے کسی عمل کا ثبوت نہیں ملتا۔
◈ بارش کا ہونا اتفاقی امر ہے۔ بہت سے لوگ قبروں سے مرادیں مانگتے ہیں اور کبھی ان کی مراد پوری ہو جاتی ہے، لیکن یہ ان کا غلط فہمی پر مبنی عقیدہ ہے۔
◈ قبر پرستی کو جواز فراہم کرنے کے لیے اس طرح کے واقعات کا حوالہ دینا شرعی طور پر غلط ہے۔

دلیل نمبر 9: موسیٰ بن جعفر کی قبر سے وسیلہ پکڑنے کا واقعہ

حسن بن ابراہیم بن توبہ، ابو علی الخلال کا بیان ہے:

’’جب بھی میں کسی معاملے میں پریشانی کا شکار ہوتا، تو موسیٰ بن جعفر کی قبر پر جا کر اس کا وسیلہ پکڑتا، تو اللہ تعالیٰ میری پسند کو میرے لیے آسان کر دیتے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب: 120/1)

تبصرہ:

◈ یہ روایت غیر ثابت ہے، کیونکہ اس کے راوی حسن بن ابراہیم کی توثیق ثابت نہیں۔
◈ غیر معتبر راویوں کی روایات دین میں حجت نہیں بن سکتیں اور علمی دنیا میں ایسی روایات کو قبول نہیں کیا جاتا۔

دلیل نمبر 10: معروف کرخی رحمہ اللہ کی قبر کا تریاق ہونا

امام ابراہیم حربی رحمہ اللہ سے منسوب ہے کہ:

’’معروف کرخی کی قبر تریاقِ مجرب ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب: 122/1)

تبصرہ:

یہ روایت جھوٹی ہے اور اس کی سند کمزور ہے کیونکہ:

◈ احمد بن حسین بن یعقوب ابو الحسن عطار اس روایت کا راوی ہے، جسے علمائے حدیث نے غیر ثقہ اور مجروح قرار دیا ہے۔
◈ ابو القاسم ازہری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’یہ انتہائی جھوٹا تھا۔‘‘
(تاریخ بغداد: 429/4)
◈ حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ روایتِ حدیث میں ثقہ نہیں تھا۔‘‘
(تاریخ بغداد: 429/4)
◈ محمد بن ابی الفوارس رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’یہ حدیث میں بری حالت کا مالک تھا، مذموم اور ناقابل اعتماد تھا۔‘‘
(تاریخ بغداد: 429/4)
◈ حافظ ابو نعیم رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’یہ کمزور حدیث بیان کرتا تھا۔‘‘
(تاریخ بغداد: 429/4)
◈ حافظ سہمی رحمہ اللہ نے بھی اس پر تنقید کی ہے کہ یہ ایسے لوگوں سے روایت کرتا تھا جو اس کی پیدائش سے پہلے وفات پا چکے تھے۔
(سوالات السہمي للدارقطني: 157)

دلیل نمبر11: معروف کرخی کی قبر پر حاجات کی قبولیت

عبدالرحمن بن محمد بن زہری کا کہنا ہے:

’’معروف کرخی کی قبر قضائے حاجات کے لیے مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو اس قبر کے پاس سو مرتبہ سورت اخلاص پڑھے، تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد کو پورا کر دیتا ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب: 122/1، وسندہ صحیح)

تبصرہ:

◈ متاخرین (بعد کے زمانے کے لوگوں) کے عمل کو دین کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔
◈ اس قسم کا عمل خیر القرون یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے کے طریقے کے خلاف ہے۔
◈ حاجت پوری ہونا ایک اتفاقی امر ہے، اور اسے کسی قبر کی تاثیر سمجھنا غلط فہمی ہے۔
◈ اگر صحابہ کرام نے قبروں پر جا کر دعا کرنے کی اجازت دی ہوتی، تو وہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر صحابہ کی قبروں پر جاتے۔ لیکن ان کے عمل میں ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

دلیل نمبر 12: معروف کرخی کی قبر سے پریشانی کا خاتمہ

ثقہ محدث ابو عبداللہ ابن محاملی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’میں ستر سال سے معروف کرخی کی قبر کو جانتا ہوں۔ جو بھی پریشان حال ان کی قبر کا قصد کرے، اللہ تعالیٰ اس کی پریشانی کو دور کر دیتا ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب: 123/1، وسندہ صحیح)

تبصرہ:

◈ متاخرین کا عمل قرآن و سنت کا حصہ نہیں ہو سکتا، اور ان کا عمل دین میں حجت نہیں بن سکتا۔
◈ اس طرح کے اعمال خیر القرون کے دور سے ثابت نہیں ہیں، بلکہ یہ بعد میں شامل ہونے والے بدعات میں سے ہیں۔
◈ حاجتوں کا پورا ہونا یا مشکلات کا دور ہونا محض اتفاق ہو سکتا ہے، اور اس کو کسی قبر کی برکت سے جوڑنا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔

دلیل نمبر 13: سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر سے بارش کی دعا

یہ روایت مشہور تابعی، مجاہد بن جبر رحمہ اللہ سے منسوب ہے:

’’رومی جب قحط سالی کا شکار ہوتے، تو وہ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی قبر کو کھولتے، یوں ان پر بارش برسا دی جاتی۔‘‘
(معجم الصحابۃ للبغوی: 222/2)

تبصرہ:

یہ روایت ضعیف ہے، اور اس کی سند میں کئی مسائل ہیں:

◈ محمد بن عمر الواقدی، جو کہ اس روایت کا راوی ہے، اسے ضعیف اور متروک راوی قرار دیا گیا ہے۔
◈ اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ بھی اس روایت کے سلسلے میں ضعیف راوی ہے۔
(تقریب التہذیب لابن حجر: 390)

دلیل نمبر 14: رومیوں کا سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر سے بارش کی دعا مانگنا

امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہے:

’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رومی سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر کے وسیلے سے صحت اور بارش طلب کرتے ہیں۔‘‘
(الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب لابن عبد البر: 1606/4)

تبصرہ:

◈ امام مالک رحمہ اللہ نے صرف یہ خبر نقل کی ہے اور اس کی تصدیق یا تائید نہیں کی۔
◈ یہ نا معلوم راوی سے منقول ہے، اور اس میں بیان کی گئی بات کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔
◈ امام مالک رحمہ اللہ جیسے بڑے محدث سے اس بات کا منسوب ہونا کہ وہ اس طرح کے عمل کی تائید کریں، درست نہیں ہے۔

دلیل نمبر15: ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر پر دعاؤں کی قبولیت

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی قبر (قسطنطنیہ) شہر کی فصیل کے قریب ہے۔ آج تک وہیں موجود ہے۔ اس کی تعظیم کی جاتی ہے اور اس کے وسیلے سے بارش طلب کی جائے، تو بارش برستی ہے۔‘‘
(الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب: 426/2)

تبصرہ:

◈ یہ بات بے دلیل ہے کہ بارش کی دعا اس قبر کی وجہ سے قبول ہوتی ہے۔
◈ اگرچہ یہ بات اتفاقاً پیش آ سکتی ہے، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صاحب قبر کے وسیلے سے دعا قبول ہوئی۔
◈ قرآن و سنت میں ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ قبروں سے وسیلہ پکڑ کر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
◈ اگر یہ عمل جائز ہوتا تو صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین ضرور ایسا کرتے، مگر ان سے ایسا کوئی عمل ثابت نہیں۔

دلیل نمبر16: حاتم اصم کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر دعا

امام حسن بصری رحمہ اللہ سے ایک واقعہ منسوب ہے:

’’حاتم اصم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر کھڑے ہو کر کہا: اے رب! ہم تیرے نبی کی قبر کی زیارت کے لیے آئے ہیں، ہمیں نا مراد نہ لوٹانا۔ آواز آئی: اے فلاں! ہم نے تمہیں اپنے حبیب کی قبر کی زیارت کی اجازت دی ہے، تو ہم نے اسے قبول بھی کر لیا ہے، تم اور تمہارے ساتھی پلٹ جاؤ، تمہاری بخشش کر دی گئی ہے۔‘‘
(المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمّدیۃ: 597/3)

تبصرہ:

◈ اس واقعہ کی سند موجود نہیں، اور یہ بے سند بات ہے۔
◈ بے سند باتوں کا اعتبار علمی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتا۔
◈ اسلامی تعلیمات میں غیر مستند واقعات کو دین کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔

دلیل نمبر 17: خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور حاجت روائی

امام حاکم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

’’میں نے سنا کہ ابو علی نیسابوری کہہ رہے تھے: میں سخت پریشانی سے دوچار تھا۔ میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔ یوں محسوس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے فرما رہے تھے: یحییٰ بن یحییٰ کی قبر کی طرف جاؤ، وہاں استغفار کرو اور دعا کرو، تمہاری ضرورت پوری ہو جائے گی۔ میں نے اگلے دن یہ کام کیا، تو میری پریشانی حل ہو گئی۔‘‘
(تاریخ الإسلام للذہبی: 729/5، ت: بشار، تہذیب التہذیب لابن حجر: 299/11)

تبصرہ:

◈ یہ واقعہ ایک خواب پر مبنی ہے، اور سوائے انبیاء کے خوابوں کے، کسی بھی شخص کا خواب شرعی دلیل نہیں بن سکتا۔
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی شخص کا خواب دین کا حصہ نہیں ہے، کیونکہ یہ وحی کا درجہ نہیں رکھتا۔

دلیل نمبر18: ابو فتح قواس سے برکت حاصل کرنا

امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ہم ابو فتح قواس سے برکت حاصل کیا کرتے تھے، حالانکہ ابھی وہ بچے تھے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب: 325/14، وسندہ صحیح)

تبصرہ:

◈ اس بیان کا مقصد زندہ شخص سے دعا کی برکت حاصل کرنا ہے، نہ کہ قبر سے تبرک لینا۔
◈ زندہ نیک شخص سے دعا کروانا یا اس کی صحبت میں رہنا جائز اور شرعی طور پر ثابت ہے، اس پر کسی کا اختلاف نہیں۔

دلیل نمبر19: سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر دعا

امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’میں نے اہل علم و فضل کی ایک جماعت کو دیکھا کہ جب انہیں کسی پریشانی کا سامنا ہوتا، تو وہ ان (سیدنا طلحہ بن عبیداللہ) کی قبر پر جا کر سلام کرتے، اس جگہ دعا مانگتے۔ وہ قبولیتِ دعا کو محسوس کرتے تھے۔ ہمارے مشایخ نے یہ خبر دی کہ انہوں نے بھی اپنے سے پہلے لوگوں کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔‘‘
(الآحاد والمثاني: 163/1)

تبصرہ:

◈ یہ نامعلوم لوگوں کا عمل ہے، جسے دین کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
◈ جب صحابہ کرام اور تابعین عظام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر دعا نہیں کرتے تھے، تو کسی اور کی قبر پر ایسا کرنے کا جواز کیسے ہو سکتا ہے؟
◈ خیر القرون (یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے دور) میں قبروں پر جا کر دعا مانگنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

مضمون کا خلاصہ

قبروں سے تبرک کا مسئلہ اور اس کے دلائل کا جائزہ

اس مضمون میں قبروں سے تبرک حاصل کرنے اور ان کے وسیلے سے دعائیں مانگنے کے مختلف دلائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مضمون میں مختلف شخصیات کے اقوال اور واقعات کو پیش کیا گیا اور پھر ان پر مفصل تبصرہ کیا گیا، جن میں سے اکثر دلائل ضعیف یا غیر مستند ثابت ہوئے۔

اہم نکات:

قبروں سے تبرک حاصل کرنا بدعت ہے: قرآن و سنت اور صحابہ کرام کے عمل میں قبروں سے تبرک کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ یہ عمل بعد کے زمانے میں پیدا ہوا اور خیر القرون میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ضعیف روایات کا استعمال: مضمون میں ذکر کی گئی کئی روایات، جیسے امام شافعی، امام طبرانی، اور دیگر علما کی طرف منسوب واقعات، سند کے اعتبار سے ضعیف یا منقطع ہیں۔ ان کی بنیاد پر دین میں کوئی عمل داخل نہیں کیا جا سکتا۔
خوابوں کی بنیاد پر شرعی احکام کا قیام: خواب کی بنیاد پر شرعی مسائل طے نہیں کیے جا سکتے، سوائے انبیاء کے خواب کے۔ بعد کے علماء اور بزرگوں کے خوابوں کو شرعی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
قبروں پر دعا کی قبولیت کا دعویٰ: یہ دعویٰ کہ کسی قبر پر دعا زیادہ قبول ہوتی ہے، بے بنیاد ہے۔ دعا کی قبولیت کا اصل سبب دعا کرنے والے کا خشوع و خضوع ہے نہ کہ کسی قبر کا متبرک ہونا۔
صحابہ کرام کا طرز عمل: اگر قبروں سے تبرک حاصل کرنا یا ان کے وسیلے سے دعا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ کرام ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر دعا کرتے، لیکن ان سے ایسا کوئی عمل ثابت نہیں ہے۔

نتیجہ:

قبروں سے تبرک حاصل کرنے اور ان کے وسیلے سے دعا مانگنے کے عمل کا قرآن و سنت میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہ عمل بدعات میں شامل ہے، جو بعد کے زمانے میں پیدا ہوا اور اسے عوام میں مقبولیت ملی۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دین کی اصل تعلیمات یعنی قرآن و سنت اور صحابہ کرام کے طریقے پر عمل پیرا ہوں، اور اس قسم کی بدعات سے اجتناب کریں تاکہ عقیدہ توحید کی حفاظت کی جا سکے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے