قارئین کے سوالات
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

(سوال :) کیا بیٹے کے فوت ہونے یا اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد باپ اس کی بیوی، یعنی اپنی سابقہ بہو سے نکاح کر سکتا ہے؟
(جواب:) بیٹے کے فوت ہو جانے یا اپنی بیوی کو طلاق دے دینے کی صورت میں والد اپنی سابقہ بہو کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتا۔ ایسا کرنا حرام ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ﴾ (النساء : ۲۳)
’’اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں (تمہارے اوپر حرام کر دی گئی ہیں )۔‘‘
لہٰذا سسر اپنی بہو کے ساتھ کسی بھی صورت میں نکاح نہیں کر سکتا۔

(سوال :) کیا قنوت وتر جمع کے صیغے کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہے؟
(جواب:) جی ہاں ! سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قنوت وتر کے یہ الفاظ سکھائے تھے:
اللهم اهدنا فيمن هديت،‏‏‏‏ وعافنا فيمن عافيت،‏‏‏‏ وتولنا فيمن توليت،‏‏‏‏ وبارك لنا فيما أعطيت،‏‏‏‏ وقنا شر ما قضيت، إنك تقضي ولا يقضى عليك،‏‏‏‏ وإنه لا يذل من واليت،‏‏‏‏ تباركت وتعاليت ’’اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں شامل کر کے ہدایت دے جن کو تو ہدایت دے چکا ہے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل کر کے عافیت دے جن کو تو عافیت دے چکا ہے اور تو اُن لوگوں میں شامل کر کے ہمارا دوست بن جا جن کا تو دوست بن چکا ہے اور تو نے ہمیں جو کچھ دیا ہے، اس میں برکت دے اور ہمیں اپنے برے فیصلے سے بچا لے۔ بلاشبہ تو ہی فیصلہ کرتا ہے، تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور بلاشبہ جس کا تو دوست بن جائے، وہ ذلیل نہیں ہوتا۔ تو بہت برکت اور بہت بلندی والا ہے۔‘‘ (المعجم الكبير للطبراني: ۷۳/۳، ح: ۲۷۰۰، وسنده صحيح)

(سوال :) کیا سیدہ مریم اور سیدہ آسیہ علیہا السلام دونوں جنت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہوں گی ؟
(جواب:) سیدہ مریم اور سیدہ آسیہ بنت مزاحم علیہا السلام دونوں کا جنت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہونا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ اس بارے میں جتنی بھی روایات ہیں، ان میں سے کوئی بھی اصولِ محدثین کے مطابق پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔

ملاحظہ فرمائیں :

(1) سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ فرماتے ہوئے سنا: أشعرت أن الله قد زوجني في الجنة مريم بنت عمران وكلثمم أخت موسي وامرأه فرعون ”کیا آپ کو معلوم ہےکہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں مریم بنت عمران، موسیٰ علیہ السلام کی بہن کلثم اور فرعون کی بیوی (آسیہ ) سے میرا نکاح کر دیا ہے۔“ (المعجم الكبير للطبراني:۲۵۹/۸، ح:۸۰۰۶، الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: ۱۸۰/۷)

(تبصرہ:)
یہ جھوٹی روایت ہے کیونکہ :
(۱) اس کی سند میں خالد بن یوسف السمتی راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
امام ابن عدی (الکامل :۴۵/۳)، حافظ ذہبی (میزان الاعتدال :۶۴۸/۱) اور حافظ ہیثمی (مجمع الزوائد:۲۱۸/۹) نے اسے’’ضعیف ‘‘ کہا ہے۔

(۲) عبدالنور بن عبداللہ راوی ’’وضاع‘‘، یعنی حدیثیں خود گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے والا ہے۔ اس کے بارے میں امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : كان غاليا في الرفض، ويضع الحديث، خبثا ’’یہ شخص غالی رافضی تھا، حدیثیں گھڑتا تھا اور خبیث النفس تھا۔‘‘ (الضعفاء الكبير للعقيلي: ۱۱۴/۳، ت: ۱۰۸۷)

(۳) یونس بن شعیب راوی کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ ”منکر الحدیث“ کے الفاظ جرح استعمال کرتے ہیں۔ (الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: ۱۸۰/۷، وسنده حسن)

امام عقیلی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
حديثه غير محفوظ ’’اس کی حدیث غیر محفوظ ہے۔‘‘ (الضعفاء الكبير للعقيلي: ۴۵۹/۴)

(2) سعد بن جنادہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن الله زوجني فى الجنة، ومريم بنت عمران، وامرأة فرعون، وأخت موسي ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں میرا نکاح مریم بنت عمران، فرعون کی بیوی اور موسیٰ کی بہن سےکر دیا ہے۔‘‘ (المعجم الكبير للطبراني:۵۲/۶، ح:۵۴۸۵)

(تبصرہ:)
اس کی سند سخت ’’ضعیف‘‘ ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فيه من لم أعرفھم ’’اس سند میں کئی راوی ایسے ہیں جنہیں میں نہیں پہچانتا۔‘‘ (مجمع الزوائد: ۲۱۸/۹)
ان مجہولوں کے علاوہ اس میں یہ تین راوی ’’ضعیف‘‘ بھی ہیں :
(۱) محمد بن سعدالعوفی کمزور راوی ہے۔

خطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان لينا في الحديث ’’یہ حدیث میں کمزور تھا۔‘‘ (تاريخ بغداد: ۳۲۲/۵)

(۲) سعد بن محمد العوفی کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ذاك جھمي . . . لو لم يكن ھذا أيضا، لم يكن ممن يستأھل أن يكتب عنه
’’یہ جہمی تھا۔۔۔ اگر یہ مسئلہ نہ بھی ہو تو یہ اس قابل نہیں کہ اس کی حدیث لکھی جائے۔‘‘ (تاريخ بغداد: ۱۲۶/۹، وسنده حسن)

(۳) الحسین بن الحسن بن عطیہ العوفی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے۔ اس کو امام یحییٰ بن معین، امام ابوحاتم الرازی، امام ابن عدی، امام ابن سعد، امام عقیلی اور امام ابن حبان رحمہم اللہ نے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔

(3) ابن ابی رواد کہتے ہیں :
دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم على خديجة في مرضها الذي توفيت فيه، فقال لها : بالكره مني ما الذي أرى منك يا خديجة، وقد يجعل الله في الكره خيرا كثيرا، أما علمت أن الله قد زوجني معك في الجنة مريم بنت عمران، وكلثم أخت موسى، وآسية امرأة فرعون ؟ قالت : وقد فعل الله ذلك يا رسول الله ؟ قال : نعم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مرض الموت میں ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا: مجھے آپ کی یہ حالت دیکھ کر دکھ ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اس دکھ میں بہت زیادہ بھلائی رکھ دے گا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں میرا نکاح آپ کے ساتھ ساتھ مریم بنت عمران،کلثم اخت موسیٰ اور آسیہ زوجہ فرعون کے ساتھ کر دیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! کیا اللہ تعالیٰ نے ایسا کر دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۴۵۱/۲۲، ح: ۱۱۰۰)

(تبصرہ:)
اس کی سند بھی سخت ’’ضعیف‘‘ ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منقطع الاسناد، وفيه محمد بن الحسن بن زبالة، وھو ضعيف
’’اس کی سند منقطع ہے، نیز اس میں محمد بن الحسن بن زبالہ راوی ضعیف ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد: ۲۱۸/۹)
محمد بن الحسن بن زبالہ راوی ’’کذاب‘‘ اور ’’متروک‘‘ ہے۔

(4) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ مرض الموت میں مبتلا تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يا خديجة ! إذا لقيت ضرائرك فأقرئهن مني السلام، فقالت : يا رسول الله ! وهل تزوجت قبلي ؟ قال : لا، ولكن الله زوجني مريم بنت عمران، وآسية امرأة فرعون، وكلثم أخت موسى ’’اے خدیجہ ! جب آپ اپنی سوتنوں سے ملنا تو میری طرف سے انہیں سلام کہنا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! کیا آپ نے مجھ سے پہلے بھی کسی سے شادی کی تھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے (جنت میں) میرا نکاح مریم بنت عمران، آسیہ زوجہ فرعون اور کلثم اخت موسی سے کر دیا ہے۔‘‘ (تاريخ ابن عساكر: ۱۱۸/۷۰)

(تبصرہ:)
یہ من گھڑت اور خانہ ساز روایت ہے۔
اس کا راوی ابوبکر سلمی بن عبداللہ الہٰذلی ’’متروک الحدیث ‘‘ہے۔ (تقريب التھذيب لابن حجر: ۸۰۰۲)

(5) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مریم بنت عمران اور سیدہ آسیہ کے بارے میں فرمایا: وھما من أزواجي يوم القيامة ’’یہ دونوں روز قیامت میری بیویاں ہوں گی۔‘‘ (تاريخ ابن عساكر: ۱۱۸/۷۰)

(تبصرہ:)
اس کی سند بھی سخت ’’ضعیف‘‘ ہے کیونکہ : اس میں محمد بن عمر بن صالح الکلاعی راوی موجود ہے :
جس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منكر الحديث عن ثقات الناس
’’یہ شخص ثقہ لوگوں سے منکر احادیث بیان کرتا ہے۔‘‘ (الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: ۲۰۹/۶)

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منكر الحديث جدا، استحق ترك الاحتجاج بحديثه إذا انفرد
’’اس کی حدیث سخت منکر ہوتی ہے۔  جب یہ کسی حدیث کو بیان کرنے میں منفرد ہو تو یہ ناقابل حجت ہوتا ہے۔ (المجروحين:۲۹۱/۲)

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔ (البداية والنھاية:۲۲۲/۸)

اس راوی کو حافظ ہیثمی رحمہ اللہ بھی ’’ضعیف‘‘ ہی قرار دیتے ہیں۔ (مجمع الزوائد للھيثمي:۹۳/۳)

الحاصل:
سیدہ مریم اور سیدہ آسیہ علیہا السلام کا جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیویاں بننا کسی صحیح حدیث میں مذکور نہیں۔

اس بارے میں کوئی روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔

السنہ جہلم شمارہ ۳۵، ص۲۲۔۲۶

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!