فوت شدہ نمازوں کے لیے اذان
تحریر: عمران ایوب لاہوری

فوت شدہ نمازوں کے لیے اذان

ایسا شخص جس کی ایک سے زائد نمازیں فوت ہو چکی ہوں وہ اذان کہے اور پھر ہر نماز کے لیے اقامت کہے جیسا کہ جنگ احزاب میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں فوت ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ :
فأمر بلال فأذن ثم أقام فصلى الظهر، ثم أقام فصلى العصر، ثم أقام فصلى المغرب، ثم أقام فصلى العشاء
[ضعيف : ضعيف نسائي 21 ، إرواء الغليل 239 ، ترمذي 179 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الرجل تفوته الصلوات بأيتهن پبدا، اگر چه يه حديث ضعيف هے ليكن ديگر شواهد كي بنا پر معنا درست هے۔]
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر پڑھائی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر پڑھائی، پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مغرب پڑھائی اور پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء پڑھائی ۔“
(احمدؒ ، ابو حنیفہؒ) اذان اور اقامت دونوں فوت شدہ نماز کی قضائی میں مستحب ہیں۔
(مالکؒ ، شافعیؒ) اذان کہنا مستحب نہیں ہے۔
[شرح المهذب 91/3 ، فتح الوهاب للشيخ زكريا 33/1 ، الهداية 42/1 ، حاشية الدسوقي 191/1 ، كشاف القناع 244/1 ، سبل السلام 172/1]
(راجع) اگر انسان کسی ایسی جگہ میں ہو کہ جہاں اذان نہ کہی گئی ہو تو اذان کہی جائے گی اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اذان کہنا ضروری نہیں البتہ ہر نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے