فوت شدہ بچے کے عقیقہ کا شرعی حکم

سوال:

اگر کوئی بچہ پیدا ہو اور پھر فوت ہو جائے، تو کیا اس کا عقیقہ کیا جائے گا؟ خاص طور پر اگر وہ سات دن سے پہلے یا سات دن کے بعد فوت ہو، تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ ، فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

فوت شدہ بچے کا عقیقہ نہ کرنے کا موقف:

◈ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ فوت شدہ بچے کا عقیقہ نہیں کیا جائے گا۔
◈ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عقیقہ زندہ موجود بچوں کے لیے ہوتا ہے، اور جو بچہ فوت ہو گیا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔
◈ فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ کا موقف بھی یہی ہے کہ فوت شدہ بچے کا عقیقہ نہیں کیا جاتا۔

فوت شدہ بچے کا عقیقہ کرنے کا موقف:

◈ دیگر علماء کی رائے یہ ہے کہ عقیقہ بچے کی ولادت سے متعلق سنت ہے، چاہے وہ زندہ رہے یا فوت ہو جائے۔
◈ اس رائے کے مطابق، ساتویں دن عقیقہ کرنا مسنون ہے، لیکن اگر بچہ ساتویں دن سے پہلے فوت ہو جائے تو بھی اس کا عقیقہ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ ایک صدقہ اور شکر گزاری کا عمل ہے۔
◈ حنابلہ، شوافع، امام ابن حزم، ابن باز، اور ابن عثیمین رحمہم اللہ کا رجحان بھی اسی رائے کی طرف ہے کہ فوت شدہ بچے کا عقیقہ کیا جا سکتا ہے۔

عملی وضاحت:

◈ عقیقہ کا مقصد شکرانہ اور صدقہ ہے، اور اس میں بچے کے زندہ رہنے یا نہ رہنے کی تخصیص احادیث میں ذکر نہیں کی گئی۔
◈ ساتویں دن کو عقیقہ کے لیے مسنون دن قرار دیا گیا ہے، لیکن اگر کوئی بچہ سات دن سے پہلے فوت ہو، تو اس کا عقیقہ کرنا بھی جائز ہے۔

نتیجہ:

فوت شدہ بچے کا عقیقہ کرنے یا نہ کرنے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے:

  • اگر آپ عقیقہ نہ کریں تو یہ بھی درست ہے، کیونکہ فوت شدہ بچہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔
  • اگر آپ عقیقہ کریں، تو یہ ایک صدقہ ہوگا، اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، خاص طور پر اگر آپ اس نیت سے کریں کہ یہ اللہ کے لیے شکرانہ ہے۔

یہ معاملہ نیت اور فقہی ترجیح پر مبنی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1