علم حدیث کے راویوں کی جانچ اور پہچان میں مہارت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"التفقہ فی معانی الحدیث نصف العلم، ومعرفۃ الرجال نصف العلم۔”
"آدھا علم حدیث کے معانی کی فہم ہے اور باقی آدھا علم رجال (راویانِ حدیث) کی معرفت ہے۔”
(المحدث الفاصل بین الراوی والواعی للرامہرمزی: ١/٣٢٠، الجامع لاخلاق الراوی للخطیب: ٢/٢١١، وسندہ، صحیحٌ)
راویوں کے مراتب کی وضاحت
اللہ تعالیٰ نے ایسے علمائے حدیث پیدا کیے ہیں جنہوں نے مضبوط دلائل کے ساتھ ثقہ اور ضعیف، ضابط اور غیر ضابط راویوں میں فرق بیان کر دیا ہے۔ فن رجال مکمل تحقیق اور بصیرت پر مبنی ہے۔ ائمہ رجال بہت گہری تحقیق کے بعد راویوں کے بارے میں جرح و تعدیل کرتے تھے۔ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"أنکرت قول یحیی بن معین فیہ (یوسف بن خالد السمتی) أنّہ زندیق، حتّی حمل إلی کتاب قد وضعہ فی التجہّم بابا بابا، ینکر المیزان فی القیامۃ، فعلمت أنّ یحیی بن معین کان لا یتکلّم إلّا علی بصیرۃ۔”
"میں یوسف بن خالد سمتی کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کے زندیق کہنے کو شک کی نظر سے دیکھتا رہا حتی کہ میرے سامنے اس کی کتاب آئی جس میں اس نے عقیدہ جہمیت کو بیان کیا تھا اور قیامت میں میزان کے انکار کی بات کی تھی۔ تب مجھے یقین ہو گیا کہ امام یحییٰ بن معین ہمیشہ علم و بصیرت کے ساتھ بات کرتے تھے۔”
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: ٩/٢٢٢)
امام یحییٰ بن محمد بن صاعد کی علمی خدمات
ائمہ محدثین میں سے ایک عظیم شخصیت، امام یحییٰ بن محمد بن صاعد البغدادی رحمہ اللہ ہیں۔ ان کی ولادت ٢٢٨ھ میں ہوئی۔ انہوں نے علم حدیث کے حصول میں کئی بڑے محدثین سے علم حاصل کیا، جیسے کہ محمد بن سلیمان بن لوینا، احمد بن منیع البغوی، امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہم اللہ وغیرہ۔
شاگرد اور علمی سند
آپ کے شاگردوں میں عبد اللہ بن محمد البغوی، امام دارقطنی، امام ابن شاہین، امام طبرانی اور امام ابن عدی رحمہم اللہ شامل ہیں۔ آپ کی توثیق میں امام خلیلی، امام ابراہیم الحربی اور امام دارقطنی جیسے ائمہ نے آپ کو "ثقہ” قرار دیا۔
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "کان أحد حفّاظ الحدیث وممّن عنی بہ ورحل فی طلبہ۔”
”آپ رحمہ اللہ حفاظ ِ حدیث میں سے تھے، نیز آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے حدیث کی طلب کا بہت اہتمام کیا اور اس کے لیے سفر بھی کیا۔”
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی: ١٤/٢٣١)
امام یحییٰ کی جرح و تعدیل میں مہارت
حافظ ذہبی رحمہ اللہ آپ کو حافظ، امام، اور ثقہ کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ امام یحییٰ کی جرح و تعدیل اور علل پر ٹھوس کلام ان کی وسعت علم اور مہارت کی گواہی دیتی ہے۔
"ولہ کلام متین فی الجرح والتعدیل والعلل یدلّ علی تبحّرہ وسعۃ علمہ۔”
”آپ رحمہ اللہ نے جرح و تعدیل اور علل کے بارے میں بڑی عمدہ و ٹھوس کلام کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بڑے متبحر اور وسیع العلم شخص تھے۔”
(تاریخ الاسلام للذہبی: ١٣/٥٧٦)
محمد بن نعیم الضبی کا بیان ہے کہ ابو علی حسین بن علی الحافظ، امام یحییٰ کو فہم اور حفظ میں دوسروں پر ترجیح دیتے تھے۔
"سمعت أبا علی (الحسین بن علی) الحافظ یقدّم أبا محمد بن صاعد علی أبی القاسم بن منیع وأبی بکر بن داود فی الفہم والحفظ۔”
”میں نے ابوعلی حسین بن علی الحافظ کو سنا، وہ ابو محمد بن صاعد رحمہ اللہ کو فہم اور حفظ میں ابوالقاسم بن منیع اور ابوبکر بن داؤد دونوں پر ترجیح دے رہے تھے۔”
(تاریخ بغداد للخطیب: ١٤/٢٣١، وسندہ، صحیحٌ)
علمی سفر اور توثیق
امام یحییٰ نے علم کے حصول کے لیے بصرہ، کوفہ، شام اور مصر کا سفر کیا اور وہاں کے مشہور محدثین سے علم حاصل کیا۔
ابوبکر الابہری رحمہ اللہ کا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک عورت نے امام یحییٰ سے کنویں میں گر کر مرنے والی مرغی کے بارے میں فتویٰ مانگا تو امام یحییٰ نے مؤثر جواب دیا۔ خطیب بغدادی اس واقعے پر کہتے ہیں کہ شاید امام یحییٰ نے اختلافی مسئلہ ہونے کے باعث فتویٰ نہ دیا۔
ہذا القول تظنّن من الأبہریّ ، وقد کان یحیی ذا محلّ من العلم عظیم ، ولہ تصانیف فی السنن وترتیبہا علی الأحکام ، یدلّ من وقف علیہا وتأمّلہا علی فقہہ ، ولعلّ یحیی لم یجب المرأۃ لأنّ المسألۃ فیہا خلاف بین أہل العلم ، فتورّع أن یتقلّد قول بعضہم أو کرہ أن ینصب نفسہ للفتیا ، ولیس ہو من المرتسمین بہا ، وأحبّ أن یسئل ذلک إلی الفقہاء المشتہرین بالفتاوی والنظر ، واللّٰہ أعلم !
”یہ قول ابہری کا اپنا خیال ہے، ورنہ امام یحییٰ(ابن صاعد) رحمہ اللہ کا علمی مقام بہت بڑا تھا۔ آپ رحمہ اللہ نے حدیث اور ان کی فقہی ترتیب پر بہت سے کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کتابوں کو دیکھنے اور ان میں غور کرنے والے شخص کو معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ رحمہ اللہ فقیہ شخص تھے۔ شاید آپ رحمہ اللہ نے اس عورت کو جواب اس لیے نہ دیا کہ اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف تھا اور انہوں نے اس بارے میں کسی ایک کی رائے کی تقلید کرنا پسند نہ کیا ہو یا اس وجہ سے اپنے آپ کو فتویٰ دینے سے روکا ہو کہ آپ اس سلسلے میں بڑے بڑے معروف لوگوں میں سے نہ تھے۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ اس بارے میں معروف مفتیان اور فقہاء سے سوال کیا جائے۔”
(تاریخ بغداد للخطیب: ١٤/٢٣١)
جرح و تعدیل میں مقام اور تصانیف
حافظ ذہبی نے امام یحییٰ کو ان افراد میں شمار کیا ہے جن کے اقوال جرح و تعدیل میں معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ امام ابن عدی نے بھی آپ سے جرح و تعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں۔
تصانیف
آپ کی تصانیف میں "مسند ابی بکر الصدیق” اور "حدیث عبد اللہ بن مسعود” شامل ہیں۔
خلاصہ
یہ مضمون علم حدیث میں راویوں کی تحقیق و معرفت کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے، جسے علم رجال کہا جاتا ہے۔ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کے مطابق، علم حدیث کا نصف حصہ احادیث کی فہم اور نصف حصہ راویوں کی معرفت پر مشتمل ہے۔ مضمون میں امام یحییٰ بن محمد بن صاعد جیسے عظیم محدث کی علمی خدمات، ان کے اساتذہ، شاگرد، اور ان کی توثیق و توصیف کو بیان کیا گیا ہے۔ امام یحییٰ نے بصرہ، کوفہ، شام اور مصر میں علم حاصل کیا اور ان کے بارے میں ائمہ نے انہیں "ثقہ” اور علم و بصیرت کا حامل قرار دیا۔ حافظ ذہبی اور امام خطیب بغدادی جیسے جلیل القدر علماء نے ان کی جرح و تعدیل میں مہارت اور تصانیف کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔