فلسفہ کی جانب بنے ہوئے ذہن کے ساتھ جانا
احمد جاوید صاحب کے مطابق فلسفہ کو سمجھنے کے لیے پہلے سے ایک واضح ذہن ہونا ضروری ہے، کیونکہ فلسفہ بذاتِ خود ذہن سازی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ فلسفے میں موجود تناقضات اور تضادات ایک نوآموز ذہن کو کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچنے دیتے۔ اس نقطہ نظر پر ڈاکٹر جمیل اصغر جامعی صاحب نے سوال اٹھایا کہ یہ بات مروجہ فلسفہ تعلیم سے متصادم معلوم ہوتی ہے، جو خالی الذہن ہو کر علم حاصل کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
احمد جاوید صاحب کا جواب
- علم ہمیشہ ایک خاص تصورِ علم کے تحت آتا ہے۔
- قومیں یا افراد، جب علم حاصل کرتے ہیں یا اس کو فروغ دیتے ہیں، تو وہ کسی نہ کسی نظریہ علم کی پیروی کرتے ہیں۔
- اسی لیے فلسفہ یا کسی بھی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ایک تصور علم کا تعین کیا جائے، ورنہ ذہن ایک لا متناہی تضادات کے بہاؤ میں الجھ سکتا ہے۔
فلسفے کی تخریب اور ماورائیت
عمار ناصر صاحب کے بقول فلسفہ اخلاقیات یا مابعد الطبیعیات جیسے بڑے موضوعات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے بنیادی مآخذ کو تسلیم کریں۔ وہ ایک دلچسپ مثال بیان کرتے ہیں:
"ایک با کرامت پیر نے گاؤں میں فصل اکھاڑ کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، لیکن دوبارہ لگانے میں بے بس تھا۔”
یہ فلسفے کی فطرت کو ظاہر کرتا ہے: فلسفہ پرانی بنیادوں کو ہٹا سکتا ہے، لیکن نئی بنیادوں کو مضبوطی سے قائم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
نتیجہ: فلسفہ کو اپنانا چاہیے لیکن اس کی حدود کو سمجھتے ہوئے۔
تصورِ علم: تعریف اور مثالیں
تصور علم (Epistemology) کسی فرد یا قوم کے نظریہ علم کو متعین کرتا ہے۔ مختلف شعبوں میں یہ تصور الگ ہوتا ہے:
انجینئرنگ کے طالب علم کے لیے:
- ایک نظریہ یہ ہو سکتا ہے کہ کائنات خود بخود وجود میں آئی اور مادی اصول اس کی بنیاد ہیں۔
- دوسرا نظریہ یہ ہو سکتا ہے کہ کائنات کسی ماورائی ہستی کی تخلیق ہے، اور مادی قوانین ایک اعلیٰ حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
دینی طالب علم کے لیے:
دین کے طالب علم کا تصور علم وحی پر مبنی ہوگا، جو مابعد الطبیعیاتی حقائق کو عقل اور شعور سے جوڑتا ہے۔
تصور علم کے حصول کے ذرائع
سوال:
صحیح تصور علم کیسے متعین کیا جائے؟ کیا کسی خاص نظریے کو اپنانے سے اس کو درست ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی؟
جواب:
- وہ تصور علم منتخب کریں جو کم از کم تضادات رکھتا ہو اور زیادہ معنویت کا حامل ہو۔
- ایسا نظریہ جو عقل و شعور کے اعلیٰ معیار پر پورا اترے۔
- تصور علم، علم پر مقدم ہے؛ یہ علم کا نتیجہ نہیں بلکہ علم کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔
اسلامی تصور علم
اسلامی علمیات کے مطابق قابلِ اعتماد ذرائع علم تین ہیں:
- حواس خمسہ
- عقل
- خبرِ صادق (وحی)
اسلامی تصور علم میں عقل کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہ تنہا حقیقت کے ادراک کے لیے کافی نہیں۔ وحی، جو خبرِ صادق ہے، عقل کی رہنمائی کرتی ہے اور اسے گمراہی سے بچاتی ہے۔ مسلم مفکرین نے ہمیشہ عقل اور وحی کے درمیان اعتدال قائم رکھنے پر زور دیا ہے۔
مطلق سچائی اور ریپروڈیوسیبلٹی پر اعتراضات
اعتراضات:
- کیا مطلق سچائی ممکن ہے؟
- کیا مطلق سچائی کو ثابت کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
- ہر نظریہ یا اصول، چاہے وہ ریپروڈیوسیبل ہو، حتمی طور پر نامکمل رہتا ہے۔
- جدید ریاضیاتی منطق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کوئی بھی مکمل نظریہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی نفی سامنے نہ آئے۔
- اضافی ذرائع سے کشید کیے گئے تمام قضیے مطلق نہیں ہو سکتے۔
نتیجہ
کسی بھی فلسفے یا تصور علم کو اپنانے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کی حدود، معروضات، اور تضادات کو سمجھا جائے۔ اسلامی علمیات میں عقل، حواس، اور وحی کے درمیان توازن ہی ایک مکمل تصور علم فراہم کرتا ہے۔