تمہیدی مثال: سائن بورڈ کی حقیقت کو نظرانداز کرنا
فرض کریں، آپ ایک اندھیری اور طوفانی رات میں ایک انجان راستے پر سفر کر رہے ہیں۔ بادل گرج رہے ہیں، بجلی کڑک رہی ہے، اور راستے میں اچانک ایک سڑک دو طرفہ ہو جاتی ہے۔ آپ شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کون سا راستہ منزل تک لے جائے گا۔ ایسے میں آپ کو ایک سائن بورڈ نظر آتا ہے جس پر راستے کی سمت بتائی گئی ہے۔
اب اگر آپ سائن بورڈ کے خوبصورت پول سے متاثر ہو کر اس کی تعریف میں مشغول ہو جائیں یا اسے دیکھ کر گاڑی کے گرد چکر کاٹنے لگیں، لیکن اس پر لکھی سمتوں کو نظرانداز کر دیں، تو کیا آپ منزل تک پہنچ سکیں گے؟ یقینی طور پر نہیں۔
فطرت اور سیکولر سوچ کی تشبیہ
یہی صورتحال فطرت اور مخلوقات کے معاملے میں ہے۔ کائنات کی تمام اشیاء اور فطری مظاہر اپنی جمالیاتی خوبصورتی اور کمالات کے ساتھ ایسے سائن بورڈز کی طرح ہیں جو انسان کو اُس کے خالق تک پہنچنے کا راستہ دکھاتے ہیں۔ لیکن اگر انسان ان مظاہر کے پیغام کو نظرانداز کر کے صرف ان کی خوبصورتی یا مادی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرے تو وہ اپنے حقیقی مقصد یعنی اللہ تک پہنچنے میں ناکام رہتا ہے۔
فطرت کو سیکولرلائز کرنے کا مطلب
1. نقلی (مذہبی) علوم میں بگاڑ
- جب مذہبی علوم کو خالقِ کائنات سے علیحدہ کر کے محض دنیاوی مقاصد تک محدود کر دیا جاتا ہے تو دین کی روحانی اور آخرت سے متعلق اہمیت کم ہو جاتی ہے۔
- اس طرز فکر کے تحت دنیاوی معاملات جیسے سیاست، سماج، اور معاشرتی نظام پر غیر ضروری زور دیا جاتا ہے۔
- جمال الدین افغانی، سر سید احمد خان، اور دیگر مسلم مفکرین نے اس تصور کو فروغ دیا کہ مذہب کا دائرہ دنیاوی سطح تک محدود ہے۔
2. عقلی علوم اور فطرت
- خدا اور فطرت کے تعلق کو ختم کرنا: فطری مظاہر کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے خدا کے ساتھ ربط کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔
- حسی مشاہدے کو فوقیت دینا: سائنسی طریقہ کار کے تحت مظاہرِ فطرت کو صرف مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کی گئی، جس میں خدا کے متحرک کردار کو بالکل فراموش کر دیا گیا۔
مادی مطالعے کی حدود
سائنس فطرت کے مظاہر کی صرف مادی پہلوؤں کی وضاحت کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، کسی سیب کے رنگ یا خوشبو کی مکمل وضاحت سائنس کے بس سے باہر ہے۔ اسی طرح، سائنسی مساواتوں میں شامل مفروضات اور مستقلات وہ نادیدہ حقائق ہیں جو خدا کے متحرک کردار کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
خدا کا متحرک کردار
خدا نہ صرف اس کائنات کا خالق ہے بلکہ ہر لمحے اسے تھامے ہوئے ہے۔ وہ محض ماورائی (Transcendent) نہیں بلکہ ہر چیز میں موجود (Immanent) ہے۔ ہر فطری مظہر میں خدا کی کاریگری شامل ہے، چاہے وہ کوئی معمول کا واقعہ ہو یا معجزہ۔
سیکولر تصور فطرت: مغربی اثرات کا نتیجہ
مغربی دنیا نے مذہب کو محدود کر کے خدا کے متحرک کردار کو نظرانداز کیا۔ بدقسمتی سے مسلم مفکرین نے بھی اس مغربی سوچ کو اپنا لیا اور فطرت کو خدا کے بغیر سمجھنے کی کوشش کی۔
نتیجہ
فطرت کو سیکولرلائز کرنا، درحقیقت، خدا کے زندہ اور متحرک کردار کو محدود کرنا ہے۔ یہ رویہ انسان کو اس کی اصل منزل یعنی اللہ کی معرفت سے دور کر دیتا ہے۔ خدا صرف غیرمعمولی واقعات میں ظاہر نہیں ہوتا بلکہ ہر روز ہونے والے معمول کے مظاہرِ فطرت بھی اس کی نشانی ہیں۔ یہ دنیا اللہ کی تخلیق کی گواہی دینے والے شواہد سے بھری ہوئی ہے، اور ہمیں فطرت کو اس کے پیغام کے ساتھ دیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔