علم اور اہل علم کی فضیلت پر مشتمل چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

بَابُ فَضْلِ الْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ
علم اور علماء کی فضیلت کا بیان

قالَ اللهُ تَعَالَى: شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‎﴿١٨﴾
(3-آل عمران:18)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ نے گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، فرشتوں اور اہل علم نے بھی (گواہی دی ہے ) ، درآں حالیکہ وہ انصاف کے ساتھ قائم ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ انتہائی غالب،خوب حکمت والا ہے۔“
قالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ
(35-فاطر:28)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف جاننے والے ہی ڈرتے ہیں۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ‎﴿٩﴾
(39-الزمر:9)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کہہ دیجیے! کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے ؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ‎﴿١٩﴾‏
(13-الرعد:19)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” کیا پھر وہ شخص جو جانتا ہے کہ یقیناً جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہی حق ہے، وہ اس شخص کے مانند (ہوسکتا) ہے جو اندھا ہے؟ بس عقل والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ‎﴿١١﴾
(58-المجادلة:11)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا۔“

حدیث : 1

عن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من نفس عن مؤمن ربة من كرب الدنيا، نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة الحديث وفيه: ومن الحديث وفيه: ومن سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له به طريقا إلى الجنة
صحیح مسلم، کتاب الذكر والدعاء، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر، رقم: 6853.
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کی دنیا کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کی ، اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کرے گا۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو حصول علم کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے، اللہ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے. “

حدیث :2

و عن زربن حبيش قال: غدوت على صفوان بن عسال المرادي فقال ما جاء بك يازر؟ قال: ابتغاء العلم قال: أفلا أبشرك قال أبو داود قال حماد بن سلمة ولم يقل أحد منهم و رفع الحديث: إن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا بما يطلب – صحيح موقوفا على صفوان بن عسال و له حكم الرفع
مسند أبي داؤد طیالسی، رقم 1165، روایت صحیح ہے۔
”اور زر بن حبیش رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی کے پاس گیا، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیسے آئے؟ زر بن حبیش رضی اللہ عنہ نے جواب دیا علم کی طلب و تلاش میں۔ تو انہوں نے کہا، کیا میں آپ کو خوش خبری نہ دوں؟ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے مرفوع روایت بیان کی۔ بے شک فرشتے ، طالب علم کے طلب علم کی وجہ سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں۔“

حدیث :3

و عن كثير بن قيس قال: كنت جالسا مع أبى الدرداء فى مسجد دمشق ، فجائه رجل فقال: يا أبا الدرداء ، إني جئتك من مدينة الرسول لحديث بلغني أنك تحدثه عن رسو الله صلى الله عليه وسلم ، ما جئت لحاجة ، قال: فإنى سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله عزوجل به طريقا من طرق الجنة ، وإن الملائكة لتضع أجنحتها رضا لطالب العلم ، وإن العالم ليستغفر له من فى السموات ومن فى الأرض ، والحيتان فى جوف الماء ، وإن فضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب، وإن العلماء ورثة الأنبياء ، وإن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ، ورثوا العلم ، فمن أخذه أخذ بحظ وافر
سنن أبى داؤد، أول كتاب العلم ، باب في فضل العلم ، رقم: 3641۔ شیخ البانی اللہ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
”اور کثیر بن قیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق کی جامع مسجد میں بیٹھا تھا کہ ایک آدمی نے آ کر کہا، ابو درداء! میں آپ کے پاس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے ایک حدیث سننے کے لیے آیا ہوں، جس کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ آپ اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، میں کسی اور کام وضرورت کے لیے نہیں آیا۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو حصول علم کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کو جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضاء کے لیے اس کے نیچے پر بچھاتے ہیں، اور بے شک زمین و آسمان کی تمام مخلوق اور پانی میں مچھلیاں عالم کے لیے بخشش کی دعا کرتی ہیں، اور عالم کی عابد پر ایسے فضیلت ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کو باقی ستاروں پر۔ اور علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اور انبیاء نے درہم و دینار کی وراثت نہیں چھوڑی بلکہ ان کی وراثت صرف علم تھا۔ پس جس نے علم حاصل کیا ، اس نے ایک وافر حصہ حاصل کر لیا۔ “

حدیث :4

وعن حذيفة بن اليمان رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فضل العلم خير من فضل العبادة، وخير دينكم الورع
مجمع الزوائد : 1201 ۔ اس کی سند میں عبد اللہ بن عبد القدوس“ ہے اسے بخاری اور ابن حبان نے ثقہ کہا ہے جبکہ ابن معین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
” اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علم کی کثرت عبادت کی کثرت سے بہتر ہے اور بہترین دین ، تقوی ہے۔“

حدیث : 5

وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يقول: صلى الله عليه وسلم الدنيا ملعونة مدعون ما فيها إلا ذكر الله وما والاه أو عالما أو متعلما
سنن ابن ماجة، كتاب الزهد، باب مثل الدنيا، رقم : 4112، سلسلة الصحيحة، رقم : 2797 ۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: دنیا اور دنیا والے اللہ کا ذکر اور اس کا دم بھرنے والوں اور عالم ومتعلم کو چھوڑ کر سب ملعون ہیں۔“

حدیث : 6

وعن أنس بن مالك والله قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : إن مثل العلماء فى الأرض كمثل النجوم ، يهتدى بها فى ظلمات البر والبحر، فإذا انطمست النجوم أو شك أن تضل الهداة
مسند أحمد : 157/3۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روئے زمین میں علماء ان ستاروں کی طرح ہیں جن کے ذریعے بحر و بر کے اندھیروں میں راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ ستارے غروب ہو جائیں تو مسافروں کے گم گشتہ راہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ “

حدیث : 7

وعن أبى أمامة الباهلي رضي الله عنه قال: ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان ، أحدهما عابد والآخر عالم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فضل العالم على العابد كفضلي على أدناكم ، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله وملائكته وأهل السموات والأرضين حتى النملة فى جحرها وحتى الحوت ليصلون على معلم الناس الخير
سنن ترمذی، ابواب العلم، رقم : 2685۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں، ایک عابد اور ایک عالم کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عالم کو عابد پر اسی طرح برتری حاصل ہے، جس طرح مجھے تم میں سے کم ترین شخص پر۔ مزید ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے اور آسمان و زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں بلوں میں اور مچھلیاں سمندر کے اندر لوگوں کو علم سکھانے والوں کے لیے رحمت کی دعا کرتی رہتی ہیں۔ “

حدیث : 8

وعن ثعلبة بن الحكم الصحابي رضي الله عنه قال قال رسول الله : يقول الله عزوجل للعلماء يوم القيامة إذا قعد على كرسه لفصل عباده: إنى لم أجعل علمي وحلمي فيكم إلا وأنا أريد أن أغفر لكم على ما كان منكم ولا أبالي
معجم طبرانی کبیر : 78/2 ، المتبحر الرابح ، رقم : 15۔ محدث دمیاطی نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔
” اور حضرت ثعلبہ بن حکم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کرسی پر بیٹھ کر اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا تو علماء سے کہے گا کہ میں نے اپنا علم و حلم تمہیں صرف اس لیے عنایت کیا تھا کہ میں تمہارے عمل جیسے بھی ہوں تمہیں بخش دوں، میں بے پروا ہوں۔“

بَاب ثوَاب طلبِ الْعِلْمِ وَتَعْلِيمِهِ لِوَجْهِ اللهِ عَزَّوَجَلَّ

اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے تعلیم و تعلم کا ثواب

حدیث : 9

وعن صفوان بن عسال المرادي رضی اللہ عنہ قال: أتيت النبى صلى الله عليه وسلم – وهو فى المسجد متك على برد له أحمر ، فقلت: يارسول الله انى جنت أطلب العلم ، فقال مرحبا بطالب العلم، إن طالب العلم لتحفه الملائكة بأجنحتها ، ثم يركب بعضهم بعضا حتى يبلغوا السماء الدنيا من محبتهم لما يطلب
مسند أحمد : 240/4 ، معجم طبراني الكبير : 64/8 ، صحیح ابن حبان الاحسان : 310/2۔ ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ مسجد کے اندر سرخ چادر لیے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں علم حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: طالب علم کو مبارک ہو، طالب علم کو فرشتے اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں اور طلب علم سے محبت کی بنا پر اوپر تلے قطار بنائے ہوئے آسمان تک پہنچ جاتے ہیں۔ “

حدیث : 10

وعن أبى ذر رضی اللہ عنہ قال: قال لي رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : لأن تغدو فتعلم آية من كتاب الله خير لك من أن تصلي مائة ركعة ، ولأن تغدو فتعلم بابا من العلم عمل به أو لم يعمل خير لك من أن تصلي ألف ركعة
سنن ابن ماجة، مقدمه باب فضل من تعلم القرآن وعلمه، رقم : 219۔ بوصیری نے زوائد میں کہا ہے کہ اس کی سند میں عبداللہ بن زیاد اور علی بن زید بن جدعان دونوں راوی ضعیف ہیں۔ البتہ اس کے دو شاہد ترمذی میں موجود ہیں۔ علامہ دمیاطی نے اسے حسن کہا ہے۔ المتبحر رابح، رقم : 24 .
”اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا صبح کے وقت جا کر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے ایک آیت کی تعلیم دینا سو رکعت نماز ادا کرنے سے بہتر ہے اور علم کا ایک باب سکھانا اس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو ہزار رکعت نماز ادا کرنے سے بہتر ہے۔ “

حدیث :11

وعن ابن عباس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا مررتم : برياض الجنة فارتعوا . قالوا: يارسول الله وما رياض الجنة؟ قال: مجالس العلم
معجم طبرانی کبیر : 95/11۔ یہ حدیث شواہد کی بناء پر حسن ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم جنت کے باغیچوں سے گزرو تو ان میں سے کھایا پیا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جنت کے باغیچے کون سے ہیں؟ ارشاد فرمایا: علم کی محفلیں جنت کے باغیچے ہیں۔ “

حدیث :12

وعن أبى أمامة رضی اللہ عنہ عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من غدا إلى المسجد لا يريد إلا أن يتعلم خيرا أو يعلمه كان له كأجر حاج تاما حجته
معجم طبرانی کبير : 111/8 ، مجمع الزوائد: 123/1۔ ہیثمی نے کہا اس کے راوی ثقہ ہیں۔
” اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مسجد میں صرف اس لیے گیا کہ وہ اچھی بات سیکھے یا سکھائے ، اسے مکمل (یعنی صحیح الارکان ) حج ادا کرنے کا ثواب ہے۔“

حدیث :13

وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من خرج فى طلب العلم كان فى سبيل الله حتى يرجع
سنن ترمذی، کتاب العلم، باب فضل العلم ، رقم : 2647، سنن ابن ماجة، رقم: 227۔ عن أبي هريرة بوصیری نے زوائد میں کہا کہ اس کی سند مسلم کی شرط پر ہے۔
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص طلب علم کی راہ میں نکلا، وہ واپسی تک اللہ کی راہ میں شمار ہوتا ہے۔ “

حدیث : 14

وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن مما يلحق المؤمن من عمله وحسناته بعد موته علما علمه ونشره، وولدا صالحا تركه ، ومصحفا ورثه ، أو مسجدا بناه، أو بيتا لابن السبيل بناه، أو نهرا أجراه، أو صدقة أخرجها من ماله فى صحته وحياته يلحقه من بعد موته
سنن ابن ماجة، مقدمة ، باب ثواب معلم الناس الخير ، رقم : 242۔ محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کو موت کے بعد جن اعمال کا ثواب پہنچتا ہے ان میں سے کچھ عمل یہ ہیں: علم کی نشر و اشاعت، نیک اولاد، قرآن مجید کا نسخہ جو تر کے میں چھوڑا گیا ہو، مسجد کی تعمیر ، مسافر خانہ، نہر بنوانا اور ایسا مالی صدقہ جو بحالت صحت ادا کیا گیا ہو، موت کے بعد بھی اس کا ثواب پہنچتا رہتا ہے۔ “

حدیث : 15

وعن عائشة رضي الله عنها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عزوجل اوحى إلى أنه من سلك مسلكا فى طلب العلم سهلت له طريق الجنة ، ومن سلبت كريمته أثبته عليهما الجنة ، وفضل فى علم خير من فضل فى عبادة وملاك الدين الورع
صحيح: شعب الإيمان، باب في المطاعم والمشارب، رقم: 5751.
”اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے کسی راستے میں چلا، تو میں اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردوں گا، اور جس کی میں دونوں آنکھیں لے لوں اس کو ان کے بدلے میں جنت عطا کروں گا۔ اور علم میں زیادتی عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے، اور دین کی جڑ پر ہیز گاری ہے۔ “

حدیث : 16

وعن أنس: أن أهل اليمن قدموا على رسول الله قالوا: ابعث معنا رجلا يعلمنا السنة والإسلام ، قال: فأخذ بيد أبى عبيدة، قال: هذا أمين هذه الأمة
صحیح مسلم، رقم : 1297 ، مستدرك الحاكم : 267/3، مسند أحمد : 125/3 ، سلسلة الصحيحة : 1964.
”اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یمنی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ہمارے ساتھ کوئی ایسا آدمی بھیجیں جو ہمیں سنت اور اسلام کی تعلیم دے۔ آپ نے سید نا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا: یہ اس امت کا امین ہے۔“

فقہا کی کثرت باعث خیر ہے

حدیث : 17

وعن حرام بن حكيم ، عن عمه عبد الله بن سعد ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إنكم أصبحتم فى زمان كثير فقهاءه، قليل خطباؤه، قليل سواله، كثير معطوه، العمل فيه خير من العلم ، وسيأتي زمان قليل فقهاؤه ، كثير خطباؤه، كثير سواله، قليل معطوه، العلم فيه خير من العمل
مسند الشاميين : 221/2 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 3189.
” اور حرام بن حکیم اپنے چا حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ( آج) تم ایسے زمانہ میں ہو کہ جس میں فقہا زیادہ اور خطبا کم ہیں، اور سوال کرنے والے کم اور دینے والے زیادہ ہیں، اس زمانہ میں علم سے بہتر عمل ہے، لیکن عنقریب ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ اس میں فقہا کم اور خطبا زیادہ ہوں گے اور سوال کرنے والے زیادہ اور دینے والے کم ہوں گے، اس زمانے میں عمل سے بہتر علم ہوگا۔ “

تعلیم قرآن کس مقصد کے لیے دی جائے؟

حدیث : 18

وعن أبى سعيد الخدري ، أنه سمع النبى صلى الله عليه وسلم قال: تعلموا القرآن، وستلوا الله به الجنة قبل أن يتعلمه قوم يسألون به الدنيا، فإن القرآن يتعلمه ثلاثة: رجل يباهي به ورجل يستأكل به، ورجل يقرأه لله
السلسلة الصحيحة، رقم : 258 .
”اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: قرآن کی تعلیم حاصل کرو اور اس کے ذریعے اللہ تعالی سے جنت کا سوال کرو، قبل اس کے کہ ایسے لوگ (پیدا ہوں جو ) اس کی تعلیم حاصل کریں گے، لیکن اس کے ذریعے دنیا کا سوال کریں گے۔ تین قسم کے افراد قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے ہیں: وہ آدمی جو اس کے ذریعے فخر کرتا ہے، وہ آدمی جو اس کے ذریعے کھاتا ہے اور وہ شخص جو اللہ تعالی کے لیے اس کی تلاوت کرتا ہے۔ “

جس علم کو نہ پھیلایا جائے، اس کی مثال

حدیث : 19

وعن أبى هريرة ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: مثل الذى يتعلم العلم ثم لا يحدث به ، كمثل الذى يكير الكير فلا ينفق منه
المعجم الأوسط : 213/1، 689، مسند أحمد : 499/2، السلسلة الصحيحة، رقم 3479۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو آدمی علم حاصل کرتا ہے، لیکن اس کو (لوگوں کے سامنے ) بیان نہیں کرتا، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے، جو خزانہ جمع کرتا رہتا ہے، لیکن اس میں سے خرچ نہیں کرتا۔“

حصول علم کے لیے غیر مسلموں کی زبان سیکھنا

حدیث : 20

وعن خارجة بن زيد، عن أبيه ، قال : لما قدم النبى صلى الله عليه وسلم المدينة ، أتي بى إليه ، فقرأت عليه ، فقال لي: تعلم كتاب ليهود، فإنى لا آمنهم على كتابنا قال: فما مر بي خمس عشرة، حتى تعلمته، فكنت أكتب للنبي صلى الله عليه وسلم أقرأ كتبهم إليه
سنن ابوداؤد، رقم : 3645، سنن الترمذى، رقم : 119/2، مسند أحمد : 186/5، سلسلة الصحيحة رقم : 187.
اور خارجہ بن زید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو مجھے آپ کے پاس لایا گیا، میں نے آپ کو کچھ چیزیں پڑھ کر سنا ئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا: تم یہودیوں کا رسم الخط سیکھو، کیونکہ میں اپنے خطوط کے سلسلے میں ان پر مطمئن نہیں ہوں۔ ابھی تک پندرہ روز نہیں گزرے تھے کہ میں نے ان کا خط سیکھ لیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( خطوط ) لکھتا تھا اور ان کے خطوط آپ کو پڑھ کر سناتا تھا۔“

جاہل کو کیسے تعلیم دی جائے؟

حدیث : 21

وعن عبادة بن شرحبيل، قال: أصابتني سنة، فدخلت حائطا من حيطان المدينة ، ففركت سنبلة فأكلت، وحملت فى ثوبي، فجاء صاحبه ، فضربني ، وأخذ ثوبي ، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له: ما علمته إذ كان جاهلا ولا أطعمته إذ كان ساغبا أو جائعا ، وأمره ، فرد على ثوبي ، وأعطاني وسقا أو نصف وسق من طعام
سنن ابوداؤد، رقم : 408/1 409 ، سنن ابن ماجة، رقم : 44/2، مستدرك الحاكم : 133/4، مسند أحمد : 166/4 ، 167 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 2229 ۔
”اور حضرت عباد بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں قحط سالی میں مبتلا ہو گیا، میں مدینہ کے باغوں میں سے کسی ایک باغ میں داخل ہوا، ایک سٹے کو ملا اور اس سے دانے نکالے۔ کچھ دانے کھا لیے اور کچھ کپڑے میں اٹھا لیے، اتنے میں باغ کا مالک آ گیا، اس نے مجھے مارا اور میرا کپڑا چھین لیا۔ میں (شکایت لے کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ( اور ساری بات بتائی ) آپ صلى الله عليه وسلم نے (باغ کے اس مالک) سے ارشاد فرمایا: وہ جاہل تھا تو نے اسے تعلیم نہیں دی اور وہ بھوکا تھا تو نے اسے کھلایا نہیں ۔ پھر آپ نے اسے حکم دیا، اس نے میرا کپڑا مجھے لوٹا دیا اور مجھے ایک یا نصف وسق کھانے کا بھی دیا۔“

بَابُ فَضْلِ التَّفَقُةِ فِي الدِّينِ

دین میں تفقہ کی فضیلت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ‎﴿١٢٢﴾‏
(9-التوبة:122)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” تو ہر فرقے میں سے ایک گروہ دین میں سمجھ حاصل کرنے کے لیے کیوں نہ نکلا، تا کہ وہ جب اپنے قبیلے میں واپس جائیں تو انھیں خبر دار کریں، تا کہ وہ (پیچھے والے بھی اللہ سے) ڈریں۔“

حدیث :22

و عن ابن شهاب قال: قال حميد بن عبد الرحمن سمعت معاوية خطيبا يقول: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: من يرد الله به خيرا يفقهه فى الدين، وإنما أنا قاسم والله يعطى، ولن تزال هذه الأمه قائمة على أمر الله لا يضرهم من خالفهم حتى يأتى أمر الله
صحيح البخاری، کتاب العلم، باب من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين، رقم: 71.
”اور ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ حمید بن عبد الرحمان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے سنا جب کہ وہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے، اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں دینے والا تو اللہ ہی ہے۔ اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی ان کی مخالفت کرنے والا ان کو قیامت تک نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ “

حدیث : 23

و عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قيل للنبي صلی اللہ علیہ وسلم : من أكرم الناس؟ قال: أكرمهم أتقاهم قالوا: يا نبي الله ، ليس عن هذا نسألك قال: فأكرم الناس يوسف نبي الله ابن نبي الله ابن نبي الله ابن خليل الله قالوا: ليس عن هذا نسألك قال: فعن معادن العرب تسألوني؟ قالوا: نعم قال: فخياركم فى الجاهلية خياركم فى الإسلام إذا فقهوا
صحیح بخاری ، کتاب أحاديث الأنبيا، باب قول الله ، واتخذ الله ابراهيم خليلا، رقم الحديث : 3374.
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو سب سے زیادہ متقی ہو وہ سب سے زیادہ معزز ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، اللہ کے نبی! ہمارے سوال کا یہ مقصد نہیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے زیادہ معزز یوسف نبی اللہ بن نبی اللہ (یعقوب) بن نبی اللہ (اسحاق) بن خلیل اللہ (ابراہیم) تھے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم خاندان عرب کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو؟ صحابہ کرام نے عرض کیا ، جی ہاں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں اسلام میں وہ بہتر ہیں جو علم دین حاصل کریں۔ اور ایک روایت میں ہے: پھر جاہلیت میں جو لوگ شریف اور اچھی عادات و اخلاق کے تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی شریف اور اچھے سمجھے جائیں گے جب کہ وہ دین کی سمجھ بھی حاصل کریں۔“

 بَابُ الْاعْتِبَاطِ فِي الْعِلْمِ وَالْحِكْمَةِ

علم و حکمت میں رشک کرنے کا بیان

حدیث : 24

وعن عبد الله بن مسعود قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم : لا حسد إلا فى اثنتين: رجل آتاه الله مالا فسلط على هلكته فى الحق، ورجل آتاه الله الحكمة فهو يقضي بها ويعلمها
صحيح البخاری، کتاب العلم، باب الاعنتباط في العلم والحكمة، رقم الحديث : 73۔
”اور سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حسد (رشک) صرف دو باتوں میں جائز ہے، ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ تعالیٰ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہِ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو۔ اور ایک اس شخص کے بارے میں جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت و دانائی عطا کی ہو اور وہ اس کے ذریعے لوگوں کے فیصلے کرتا ہو اور (حکمت) کی تعلیم دیتا ہو۔ “

 

 بَابٌ فَضْلِ مَنْ تَرَكَ الْجِدَالُ وَإِنْ كَانَ مُحِقًا

صاحب حق ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑنے والے کی فضیلت کا بیان

حدیث : 25

وعن أبى أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أنا زعيم ببيت فى ربض الجنة لمن ترك المراء وإن كان محقا ، وببيت فى وسط الجنة لمن ترك الكذب وإن كان مازحا ، وببيت فى أعلى الجنة لمن حسن خلقه
سنن أبي داؤد، كتاب الأدب، باب في حسن الخلق، رقم الحديث: 4800، سلسلة الصحيحة، رقم : 237.
”اور سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اس شخص کے لیے جنت کے درمیان گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا ترک کر دے، اور میں اس شخص کو بھی جنت کے وسط میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو جھوٹ چھوڑ دے اگر چہ وہ جھوٹ بطور مزاح ہی تھا، اور اس شخص کو جنت کے بالا خانے میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں جس نے اپنے اخلاق سنوار لیے۔ “

بَابُ فَضْلِ مَنْ دَعَا إِلَى اللهِ تَعَالَى

اس عالم کی فضیلت کا بیان جو اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ‎﴿٣٣﴾‏
(41-فصلت:33)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور بات کے اعتبار سے اس سے اچھا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ بے شک میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ‎﴿١﴾‏ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ‎﴿٢﴾‏ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ‎﴿٣﴾‏ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ‎﴿٤﴾‏ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ‎﴿٥﴾
(96-العلق:1تا5)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اپنے رب کے نام سے پڑھ جس نے پیدا کیا۔ اس نے انسان کو ایک ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھ اور تیرا رب ہی سب سے زیادہ کرم والا ہے۔ پڑھ اور تیرا رب ہی سب سے زیادہ کرم والا ہے۔ اس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔“

حدیث : 26

و عن أبى موسى عن النبى صلى الله عليه وسلم : قال: مثل ما بعثني الله به من الهدى والعلم كمثل الغيث الكثير أصاب أرضا ، فكان منها نقية ، قبلت الماء ، فأنبتت الكلا والعشب الكثير ، وكانت منها أجادب، أمسكت الماء ، فنفع الله بها الناس فشربوا وسقوا وزرعوا، وأصابت منها طائفة أخرى ، إنما هي قيعان لا تمسك ماء ولا تنبت كلا ، فذلك مثل من فقه فى دين الله ونفعه ما بعثني الله به فعلم وعلم ، ومثل من لم يرفع بذلك رأسا ولم يقبل هدى الله الذى أرسلت به
صحيح البخارى، كتاب العلم ، باب فضل من علم و علم ، رقم الحديث : 79 .
” اور سید نا ابو موسی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے، اس کی مثال زبردست بارش جیسی ہے، جو زمین پر خوب برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو جذب کر لیتی ہے اور بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے، وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں نہ پانی روکتے ہیں نہ سبزہ اگاتے ہیں، تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور وہ چیز اس کو نفع دے جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے۔اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا۔ اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا ( یعنی توجہ نہیں کی ) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔ “

حدیث : 27

وعن سهل بن سعد رضي الله عنه ، أنه سمع النبى صلى الله عليه وسلم يقول يوم ال خير لأعطين الراية رجلا يفتح الله على يديه ، فقاموا يرجون لذلك أيهم يعطى ، فغدوا وكلهم يرجو أن يعطى، فقال: أين على ؟ فقيل : يشتكى عينيه فأمر فدعي له فبصق فى عينيه فبرأ مكانه حتى كأنه لم يكن به شيء ، فقال: نقاتلهم حتى يكونوا مثلنا؟ فقال: على رسلك حتى تنزل بساحتهم ثم ادعهم إلى الإسلام ، وأخبرهم بما يجب عليهم ، فوالله لأن يهدى بك رجل واحد خير لك من حمر النعم
صحیح بخاری ، کتاب الجهاد، باب دعاء النبي صلى الله عليه وسلم إلى الإسلام والنبوة، رقم الحديث : 2942.
” اور سید نا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میں (اسلامی) جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ذریعے سے اللہ فتح عطا فرمائے گا۔ اب سب اس انتظار میں تھے کہ دیکھیے جھنڈا کسے ملتا ہے، جب صبح ہوئی تو سب اسی امید میں رہے کہ اسے مل جائے گا لیکن آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: علی کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ ان کی آنکھوں کو تکلیف ہے، آخر آپ کے حکم سے انہیں بلایا گیا، تو آپ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگایا وہ فوراً ہی اچھے ہو گئے جیسے پہلے ان کو کوئی تکلیف ہی نہیں تھی۔ پس انہوں نے کہا: ہم ان (یہودیوں) سے اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک یہ ہمارے جیسے (مسلمان) نہ ہو جائیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابھی ٹھہرو، پہلے ان کے میدان میں اتر کر انہیں اسلام کی دعوت دے لو اور ان کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں ان کی خبر کر دو ( پھر وہ نہ مانیں تو لڑنا) اللہ کی قسم ! اگر تمہارے ذریعے ایک شخص کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے حق میں سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ “

بَابٌ فَضْلِ تَعَلُّمِ الْفَرَائِضِ وَغَيْرِهَا

علم فرائض ( میراث ) وغیر دیکھنے کی فضیلت

حدیث : 28

وعن عامر بن وايلة ، أن نافع بن عبد الحارث لقي عمر بعسفان، وكان عمر يستعمله على مكة فقال: من استعملت على أهل الوادي؟ فقال: ابن آبزي؟ قال: ومن ابن أبزى؟ قال: مولى من موالينا قال: فاستخلفت عليهم مولى؟ قال: إنه قارك لكتاب الله عز وجل وإنه عالم بالفرآئض ، قال عمر : أما إن نبيكم قد قال: إن الله تعالى يرفع بهذا الكتاب أقواما ويضع به آخرين
صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب فضل من يقوم بالقرآن ويعلمه، رقم: 1897 .
”اور سید نا عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نافع بن عبد الحارث رضی اللہ عنہ (جن کو امیر عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ کا گورنر مقرر کیا تھا ) امیر عمر رضی اللہ عنہ کو عسفان نامی جگہ پر ملے تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے وادی والوں ( مکہ مکرمہ) پر کس کو (اپنا قائم مقام) مقرر کیا ہے؟ انہوں نے کہا، ابن ابرای کو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ابن ابرای کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا، ہمارے غلاموں میں سے ایک غلام ہے۔ امیر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، آپ نے ایک غلام کو ان پر (اپنا) جانشین بنایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: وہ اللہ کی کتاب کا قاری و عالم ہے اور علم فرائض کا عالم ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یقیناً تمہارے نبی کریم کا اللہ ہم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ اس کتاب کی وجہ سے بعض قوموں کو بلند کرتا ہے اور اسی کے ذریعے بعض قوموں کو پستی کا شکار کر دیتا ہے۔ “

حدیث : 29

وعن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أرحم أمتي بأمتي أبو بكر، وأشدهم فى أمر الله عمر، وأصدقهم حياء عثمان ، وأقرؤهم لكتاب الله أبى بن كعب ، وأفرضهم ز بن ثابت، وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل ، ألا وإن لكل أمة أمينا، وإن أمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح
سنن الترمذي، أبواب المناقب، باب مناقب معاذ بن جبل و زید بن ثابت، رقم: 3711 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ مہربان ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملے (دینی امور ) میں میری امت میں سے سب سے سخت عمر ہیں اور میری امت میں سب سے زیادہ حیا دار عثمان ہیں اور میری امت میں سب سے زیادہ اللہ کی کتاب کے قاری و عالم ابی بن کعب اور ان (میری امت ) میں سے سب سے زیادہ علم فرائض ( علم میراث ) کے عالم زید بن ثابت میایی ہیں اور حالال و حرام کے سب سے زیادہ عالم معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں خبر دار ہر امت کا ایک امین (امانت دار ) ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح بھی یہ ہیں ۔ “

بَابٌ فَضْلِ مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى

ہدایت کی طرف ہونے والے (عالم) کی فضیلت

حدیث : 30

وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من دعا إلى هدى ، كان له من الأجر مثل أجور من تبعه ، لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا، ومن دعا إلى ضلالة ، كان عليه من الإثم مثل آثام من تبعه، لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا
صحیح مسلم، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، رقم: 6804.
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو ہدایت کی دعوت دیتا ہے، اس کو ان تمام لوگوں کے برابر اجر ملتا ہے، جو اس ہدایت کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ اور جو گمراہی کی طرف دعوت دیتا ہے، اس کو ان تمام لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ملتا ہے، جو اس گمراہی کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔“

بَابُ فَضْلِ مَنْ تَرَكَ عِلْمًا نَافِعًا مِنْ بَعْدِهِ

اپنے بعد علم نافع چھوڑنے والے شخص کی فضیلت کا بیان

حدیث : 31

وعن أبى هريرة ، أن رسول الله : قال إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة إلا من صدقة جارية ، أو علم ينتفع به ، أو ولد صالح يدعو له
صحيح مسلم ، كاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، رقم: 4223۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعائے خیر کرتی ہے۔ “

بَابُ فَضْلِ تَعْلِيمِ الرَّجُلِ أُمَّتَهُ وَاهْلَهُ

لونڈی اور بیوی کی تعلیم و تربیت کی فضیلت کا بیان

حدیث : 32

و عن أبى موسى رضي الله عنه قال: قال رسول الله : ثلاثة لهم أجران رجل من أهل الكتاب آمن بنبيه وآمن بمحمد . والعبد المملوك إذا أدى حق الله وحق مواليه، ورجل كانت عنده أمة فأدبها فأحسن تأديبها وعلمها فأحسن تعليمها ثم أعتقها فتزوجها فله أجران
صحيح البخاری، کتاب العلم، باب تعليم الرجل أمته وأهله، رقم: 97.
”اور سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین شخص ہیں جن کو دگنا اجر ثواب ملتا ہے، ایک اہل کتاب کا وہ شخص جو اپنے نبی پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ محمد پر ایمان لائے ، اور دوسرا وہ غلام جو اپنے مالک اور اللہ (دونوں) کا حق ادا کرے، اور تیسرا وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی ہو، وہ اس کی اچھی تربیت کرے اور اس کو عمدہ تعلیم دے، پھر اس کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اس کے لیے بھی دگنا اجر و ثواب ہے۔“

بَابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَحَالِ النَّاسِ مِنْ غيرهم

علماء کی فضیلت اور ان کے بغیر لوگوں کی حالت کا بیان

حدیث : 33

و عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله لا يقبض العلم انتراعا يستزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رء وسا جهالا ، فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا
صحيح البخاري، كتاب العلم، باب كيف يقبض العلم، رقم: 100 .
”اور سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے لیکن وہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا، حتی کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے، اور وہ علم کے بغیر جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ “

بَابٌ فَضْلِ مُلَازَمَةِ حَلْقِ الْعِلْمِ فِي الْمَسْجِدِ

مسجد میں قائم علمی حلقوں میں شمولیت اختیار کرنے کی فضیلت

حدیث : 34

وعن أبى واقد الليني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو جالس فى المسجد والناس معه إذ أقبل ثلاثة نفر، فأقبل اثنان إلى رسول الله وذهب واحد قال: فوقفا على رسول الله الله فأما أحدهما فرأى فرجة فى الحلقة فجلس فيها ، وأما الآخر فجلس خلفهم ، وأما الثالث فأدبر ذاهبا . فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ألا أخبركم عن النفر الثلاثة: أما أحدهم فأوى إلى الله تعالى فآواه الله إليه ، وأما الآخر فاستحيا فاستحيا الله منه ، وأما الآخر فأعرض فأعرض الله عنه
صحيح البخاری، کتاب العلم، باب من قعد حيث ينتهى به المجلس رقم: 66 .
” اور سید نا ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے، اور صحابہ کرام آپ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ تین آدمی وہاں آئے (ان میں سے ) دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پہنچ گئے، اور ایک واپس چلا گیا (راوی کہتے ہیں کہ ) پھر وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نے (جب) مجلس میں ایک جگہ کچھ گنجائش دیکھی تو وہاں بیٹھ گیا، اور دوسرا اہل مجلس کے پیچھے بیٹھ گیا، اور تیسرا لوٹ گیا پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تو (صحابہ کرام سے) ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ رہا ان میں سے ایک تو اس نے اللہ سے پناہ (جگہ) چاہی، اللہ نے اسے پناہ (جگہ) دے دی۔ اور دوسرے کو ( مجلس سے چلے جانے سے) شرم آئی تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے شرمایا ( کہ اسے بھی بخش دیا) اور تیسرے شخص نے( اعراض کرتے ہوئے کسی عذر کے بغیر ) منہ موڑا تو اللہ تعالیٰ نے (بھی) اس سے ناراض ہوتے ہوئے ) موڑ لیا۔ “

بَابٌ ذِكْرِ دُعَاءِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لِمَنْ بَلَغَ عَنْهُ حَدِيثًا

حدیث رسول کے مبلغ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا ذکر

حدیث : 35

و عن زيد بن ثابت قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: نضر الله امرأ سمع منا حديثا فحفظه حتى يبلغه ، فرب حامل فقه إلى من هو أفقه منه ، ورب حامل فقه ليس بفقيه
سنن أبى داؤد، كتاب العلم ، باب فضل نشر العلم، رقم: 3660۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اللہ اس آدمی کو خوش و خرم رکھے، جو ہم سے کوئی بات سنے، پھر اس کو یادرکھے، یہاں تک کہ اس کو دوسروں تک پہنچا دے، اس لیے کہ بہت سے لوگ دینی فہم کی بات آگے ایسے لوگوں کو پہنچاتے ہیں جو ان سے دینی فہم و بصیرت میں زیادہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ بہت سارے دینی بات کے حامل لوگ اس میں کما حقہ فہم و بصیرت نہیں رکھتے ۔ “

بَابُ فَضْلِ الْاعْتِصَامِ بِالسُّنَّةِ وَاتِّبَاعِ نَهْجِ السَّلَفِ الصَّالِحِ

شنت رسول کو مضبوطی سے پکڑنے اور سلف صالحین کا نہج اختیار کرنے کی فضیلت

قَالَ اللهُ تَعَالَى:قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ
(3-آل عمران:31)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” آپ کہہ دیجیے: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمھارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ‏ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ‎﴿٢١﴾‏
(33-الأحزاب:21)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بلاشبہ یقیناً تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ
(4-النساء:80)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جس نے رسول کی اطاعت کی، تو اس نے اللہ کی اطاعت کی۔“

حدیث : 36

وحدثني عبد الرحمن بن عمرو السلمي وحجر بن حجر :قالا أتينا العرباض بن سارية ، وهو ممن نزل فيه: ولا على الذين إذا ما اتوك لتحملهم قلت لا أجد ما أحملكم عليه فسلمنا ، وقلنا: أتيناك زائرين وعائدين ومقتبسين . فقال العرباض: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ، ثم أقبل علينا ، فوعظنا موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب، فقال قائل: يا رسول الله كأن هذه موعظة موذع ، فماذا تعهد إلينا؟ قال: أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن عبد حبشي ، فإنه من يعش منكم بعدى فسيرى اختلافا كثيرا ، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجد ، وإياكم ومحدثات الأمور، فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة
سنن أبى داؤد اول كتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607، سنن ابن ماجه ، کتاب السنة، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهدين، رقم: 42۔ محدث نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور عبدالرحمن بن عمر وسلمی اور حجر بن حجر بیان کرتے ہیں، ہم حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور یہ وہی ہیں جن کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی۔ ہاں ان پر بھی کوئی حرج نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں تو آپ جواب دیتے ہیں کہ تمہاری سواری کے لیے کچھ بھی نہیں پاتا ۔ پس ہم نے ان کو سلام کیا، اور عرض کیا: ہم آپ کی ملاقات و عیادت اور ( آپ سے) علم سیکھنے کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں، تو حضرت عرباض رضی اللہ عنہ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمیں نماز پڑھائی، نماز کے بعد آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں ایسا مؤثر وعظ فرمایا کہ جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور دل (اللہ کے ڈر سے) کانپنے لگے۔ تو ایک کہنے والے نے کہا، اللہ کے رسول! گویا کہ یہ وعظ ایک الوداع کرنے والے کا وعظ ہے۔ پس آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور (امیر کی) بات سنو اور اطاعت کرو اگر چہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، پس جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہا وہ بہت نہ زیادہ اختلاف دیکھے گا، پس تم میری اور خلفاء راشدین ہدایت یافتہ کی سنت کو تھامے رکھنا سنت کو مضبوطی سے پکڑو، اور سنت پر سختی کے ساتھ کوشاں رہو، اور خود کو نئے کاموں سے بچاؤ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“

باب ما ذكر فى ذهاب موسى لا فى البحر إلى الخضر عليه السلام

حضرت موسیٰ کے علم کی خاطر حضرت خضر علیہ السلام کے پا پس دریا میں جانے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا ‎﴿٦٠﴾‏ فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا ‎﴿٦١﴾‏ فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَٰذَا نَصَبًا ‎﴿٦٢﴾‏ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا ‎﴿٦٣﴾‏ قَالَ ذَٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ۚ فَارْتَدَّا عَلَىٰ آثَارِهِمَا قَصَصًا ‎﴿٦٤﴾‏ فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا ‎﴿٦٥﴾‏ قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ‎﴿٦٦﴾‏ قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ‎﴿٦٧﴾‏ وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَىٰ مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا ‎﴿٦٨﴾‏ قَالَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا ‎﴿٦٩﴾‏ قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَن شَيْءٍ حَتَّىٰ أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا ‎﴿٧٠﴾‏ فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا ۖ قَالَ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا ‎﴿٧١﴾‏ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ‎﴿٧٢﴾‏ قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا ‎﴿٧٣﴾‏ فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُّكْرًا ‎﴿٧٤﴾‏ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ‎﴿٧٥﴾‏ قَالَ إِن سَأَلْتُكَ عَن شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي ۖ قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّي عُذْرًا ‎﴿٧٦﴾‏ فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا ‎﴿٧٧﴾‏ قَالَ هَٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ۚ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا ‎﴿٧٨﴾‏ أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ‎﴿٧٩﴾‏ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا ‎﴿٨٠﴾‏ فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا ‎﴿٨١﴾‏ وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا ‎﴿٨٢﴾
(18-الكهف:60تا 82)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پھر جب وہ دونوں ان دونوں (دریاؤں) کی آپس میں ملنے کی جگہ پر پہنچے ، (تو) وہ اپنی مچھلی بھول گئے ،سو اس نے دریا میں سرنگ نما اپنا راستہ بنالیا۔ پھر جب وہ دونوں آگے گزر گئے تو اس (موسی) نے اپنے جوان سے کہا کہ ہمیں ہمارا ناشتہ دو، بلاشبہ یقیناً اپنے اس سفر سے ہم تھکاوٹ سے دو چار ہوئے ہیں۔ وہ بولا: بھلا آپ نے دیکھا جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو بے شک میں مچھلی بھول گیا، اور مجھے وہ نہیں بھلائی مگر شیطان ہی نے کہ میں اسے یاد رکھوں، اور اس نے عجیب طرح دریا میں اپنا راستہ بنایا۔ اس نے کہا: یہی تو ہے جو ہم تلاش کر رہے تھے، پھر وہ اپنے قدموں کے نشانات کی اتباع کرتے ہوئے لوٹے۔ چنانچہ ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا، جسے ہم نے اپنی طرف سے رحمت دی تھی اور ہم نے اپنے پاس سے (خاص) علم سکھایا تھا۔ موسیٰ نے اس سے کہا: کیا اس (شرط) پر میں تیری اتباع کروں کہ تو مجھے اس میں سے سکھائے جو تجھے بھلائی سکھائی گئی ہے؟ وہ بولا: بے شک تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہ کر سکے گا۔ اور جو چیز تیرے احاطہ علم ہی میں نہیں، تو اس پر صبر کیسے کرے گا ؟ اس (موسی) نے کہا: یقیناً ان شاء اللہ تو مجھے صابر پائے گا اور میں کسی بھی حکم میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ اس (خضر) نے کہا: پھر اگر تو نے میری اتباع کرنی ہے تو کسی شے کی بابت مجھ سے سوال نہ کرنا، حتی کہ میں خود ہی اس کا ذکر تجھ سے شروع کروں۔ پھر وہ دونوں چلے حتی کہ جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو اس (خضر) نے کشتی میں شگاف کر دیا، اس (موسی) نے کہا: کیا تو نے اس میں شگاف کیا کہ اس کشتی والوں کو غرق کردے؟ تو نے بڑا ہولناک (اور انوکھا) کام کیا ہے۔ اس (خضر) نے کہا: کیا میں نے کہا نہ تھا کہ تو یقیناً میرے ساتھ صبر کرنے کی استطاعت ہر گز نہیں رکھے گا۔ اس (موسی) نے کہا: میری بھول چوک پر تو مجھے نہ پکڑ ، اور میرے معاملے میں مجھے مشکل میں نہ ڈال۔ پھر وہ دونوں چلے، حتی کہ جب وہ دونوں ایک لڑکے سے ملے، تو اس (خضر) نے اسے قتل کر دیا، اس (موسی) نے کہا: کیا تو نے ایک پاک (بے گناہ) نفس کو کسی جان کے (قصاص کے ) بغیر قتل کر دیا ہے؟ یقیناً تو نے تو بہت ہی برا کام کیا ہے! اس (خضر) نے کہا: کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ بلاشبہ تو میرے ساتھ ہر گز نہیں کر سکے گا؟ اس (موسی) نے کہا: اگر اس کے بعد میں تجھ سے کسی چیز کی بابت سوال کروں تو پھر مجھے ہرگز صحبت میں نہ رکھنا، یقیناً میری طرف سے تو عذر کو پہنچ چکا ہے۔ پھر وہ دونوں چلے حتی کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے ، اس کے رہنے والوں سے طعام مانگا، تو انھوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کر دیا، پھر ان دونوں نے ایک دیوار پائی جو گرا چاہتی تھی، تو اس (خضر) نے وہ سیدھی کر دی۔ اس (موسی) نے کہا: اگر تو چاہتا تو اس پر ضرور اجرت لے لیتا۔ اس (خضر) نے کہا: یہ (اب) میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے، یقیناً میں تجھے ان (باتوں) کی حقیقت بتا تا ہوں جن پر تو صبر نہ کر سکا۔ رہی کشتی تو وہ چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کرتے تھے، لہذا میں نے ارادہ کیا کہ اس میں عیب ڈال دوں جبکہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی زبردستی لے لیتا تھا۔ اور رہا لڑکا، تو اس کے ماں باپ مومن تھے، چنانچہ ہم ڈرے کہ وہ سرکشی اور کفر کی وجہ سے انھیں مشقت میں ڈال دے گا۔ چنانچہ ہم نے چاہا کہ ان دونوں کا رب انھیں (ایسا) بدل دے جو اس سے پاکیزگی میں بہتر اور مہربانی میں قریب تر ہو۔ اور رہی دیوار تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی، اور اس کے نیچے ان کے لیے خزانہ تھا اور ان کا باپ صالح تھا، چنانچہ تیرے رب نے چاہا کہ وہ دونوں ( یتیم ) اپنی جوانی کو پہنچیں اور تیرے رب کی رحمت کے سبب اپنا خزانہ نکال لیں اور میں نے یہ اپنی رائے سے نہیں کیا، یہ ان باتوں ) کی حقیقت ہے جن پر تو صبر نہ کر سکا۔“

حدیث : 37

وعن ابن عباس أنه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري فى صاحب موسى : قال ابن عباس: هو خضر ، فمر هما أبى بن كعب، فدعاه ابن عباس، فقال: إني تماريت أنا وصاحبى هذا فى صاحب موسى الذى سأل موسى السبيل إلى نقيه: هل سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يذكر شأنه؟ قال: نعم ، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: بينما موسى فى ملإ من بني إسرائيل ، جانه رجل ، فقال: هل تعلم أحدا أعلم منك ؟ قال موسى: لا ، فأوحى الله إلى موسى: بلى عبدنا خضر ، فسأل موسى السبيل إليه ، فجعل الله له الحوت آية وقيل له ، إذا فقدت الحوت فارجع فإنك ستلقاه، وكان يتبع أثر الحوت فى البحر ، فقال لموسى فتاه ارعيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت و ما انسنيه إلا الشيطن ان اذكره قال ذلك ما كنا تبع فارتد على أثارهما قصصا فوجدا خضرا فكان من شأنهما الذى قص الله عز وجل فى كتابه
صحيح بخاري كتاب العلم، رقم: 74.
”اور سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی حر بن قیس بن حصن فزاری کے ساتھ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث ہوئی۔ سیدنا ابن عباس نے کہا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے اسی اثناء میں ان کے پاس سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا گذر ہوا تو ابن عباس رضی اللہ عنہ انھیں بلا کر کہنے لگے کہ میں اور میرے یہ رفیق سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے اس ساتھی کے متعلق بحث کر رہے ہیں کہ جس سے انھوں نے ملاقات کا ارادہ کیا تھا۔ کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ایک دن موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا کہ آپ (دنیا میں ) کسی ایسے آدمی کو جانتے ہیں جو آپ سے بڑھ کر عالم ہو؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: نہیں ! اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں! ہمارا بندہ خضر ہے جس کا علم تم سے زیادہ ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر علیہ السلام سے ملنے کی کیا صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملنے کی علامت قرار دیا اور ان سے کہا کہ جہاں یہ مچھلی تم سے گم ہو جائے تو (ادھر کو ) لوٹ جاؤ، تب سید نا خضر علیہ السلام سے تمہاری ملاقات ہوگی، چنانچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام (چلے اور ) دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے، تو اس وقت ان کے ساتھی نے کہا، کہ کیا آپ نے دیکھا تھا جب ہم پتھر سے ٹیک لگا کر آرام کر رہے تھے وہیں میں مچھلی بھول گیا تھا، دراصل شیطان ہی نے مجھے بھلا دیا کہ میں آپ سے اس کا ذکر کروں ۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی، تب وہ اپنے نشانات قدم پر (پچھلے پاؤں) باتیں کرتے ہوئے لوٹے (وہاں) انھوں نے سیدنا خضر علیہ السلام کو پایا۔ پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان کیا ہے۔“

حصول علم کے لیے دعائیں

قَالَ الله تَعَالَى: وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ‎
(20-طه:114)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” آپ کہہ دیجیے اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما “

حدیث : 38

وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : اللهم انفعنى بما علمتني وعلمني ما ينفعني ، وزدني علما
سنن ابن ماجه ، باب الإنتفاع بالعلم والعمل به رقم: 251۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:
اَللَّهُمَّ انْفَعَنِى بِمَا عَلَّمْتَنِي وَعَلِمْنِى مَا يَنْفَعُنِي، وَزِدْنِي عِلْمًا
”اے اللہ! جو تو نے مجھے سکھایا ہے اسے میرے لیے نفع مند بنا، اور مجھے ایسا علم عطا فرما جو میرے لیے نفع بخش ہو اور میرے علم میں اضافہ فرما۔“

حدیث : 39

عن زيد بن أرقم صلى الله عليه وسلم قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: اللهم انى اعوذبك من علم لا ينفع ، ومن قلب لا يخشع، ومن نفس لا تشبع، ومن دعوة لا يستجاب لها
صحیح مسلم، باب الذكر والدعاء، رقم : 6906 .
” اور سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ اِنّى اَعُوْذُبِكَ مِنْ عِلْمٍ لا يَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبِ لا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ دَعَوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا
”اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع نہ دے، اور اس دل سے جو ڈرے نہ ، اور اس نفس سے جو سیر نہ ہو، اور اس دعا سے جو قبول نہ کی جائے۔“

حدیث : 40

وعن ابن عباس أن النبى صلى الله عليه وسلم فأخبر فقال: اللهم فقهه فى الدين
صحیح بخاری، باب وضع الماء عند الخلاء ، رقم: 143۔ صحیح مسلم، باب فضائل عبدالله بن عباس رقم: 6368 ۔
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (جب آپ کو بتلایا گیا کہ میں نے آپ کی طہارت کے لیے پانی رکھا ہے تو ) نبی مکرم ، شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی: اَللَّهُمَّ فَقَهْهُ فِي الدِّينِ اے اللہ ! اسے دین کی سمجھ عطا فرما۔“
فائدہ لہذا دعا کرنی چاہیے: اللَّهُمَّ فَقِهْنِي فِي الدِّينِ ”اے اللہ ! مجھے دین کی سمجھ عطا فرما۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1