اگر فجر کی سنتیں پڑھنے کا موقع نہ ملے اور فرض نماز کی جماعت کھڑی ہو جائے تو پہلے جماعت میں شامل ہونا ضروری ہے، اور سنتوں کو بعد میں ادا کیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں درج ذیل دلائل موجود ہیں:
قرآن سے دلیل
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
📖 "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ”
(اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو، جب وہ تمہیں بلائیں اس چیز کی طرف جو تمہیں زندگی بخشے)
📖 (الأنفال: 24)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز کو ترجیح دینی چاہیے، کیونکہ جماعت میں شریک ہونا دین کا حکم ہے۔
حدیث سے دلائل
(1) فرض نماز کے وقت سنتیں نہ پڑھو، بلکہ پہلے فرض میں شامل ہو جاؤ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
📖 "إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ”
(جب فرض نماز کی اقامت ہو جائے، تو اس وقت کوئی اور نماز نہیں پڑھنی چاہیے، سوائے فرض کے)
📖 (صحیح مسلم، حدیث: 710)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اگر اقامت ہو جائے، تو سنتیں چھوڑ کر فوراً فرض میں شامل ہو جانا چاہیے۔
(2) اگر فجر کی سنتیں رہ جائیں، تو انہیں بعد میں پڑھ سکتے ہیں
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
📖 "مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيِ الفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ”
(جو شخص فجر کی سنتیں نہ پڑھ سکے، وہ طلوع آفتاب کے بعد انہیں ادا کرے)
📖 (سنن الترمذی، حدیث: 423 | سنن ابی داؤد، حدیث: 1267)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر فجر کی سنتیں رہ جائیں، تو انہیں طلوع آفتاب کے بعد بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔
صحابہ کرامؓ کے عمل سے دلیل
(1) حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا فتویٰ
حضرت ابن عمرؓ جب مسجد میں آتے اور دیکھتے کہ جماعت کھڑی ہو چکی ہے، تو سنتیں چھوڑ کر فوراً جماعت میں شامل ہو جاتے۔
📖 (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث: 7350)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کا بھی یہی طریقہ تھا کہ پہلے جماعت میں شامل ہوتے اور بعد میں سنتیں ادا کرتے۔
نتیجہ
اگر فجر کی جماعت کھڑی ہو جائے، تو فوراً جماعت میں شامل ہونا چاہیے اور سنتوں کو بعد میں پڑھ لینا جائز ہے۔
اگر وقت نہ ملے، تو انہیں طلوع آفتاب کے بعد بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔
یہی طریقہ نبی کریم ﷺ، صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کا تھا۔
لہٰذا، اگر فجر کی سنتیں رہ جائیں، تو پریشان ہونے کے بجائے فرض نماز کی جماعت میں شامل ہوں اور بعد میں سنتیں ادا کر لیں۔