عید میلاد النبیﷺ دلائل کی روشنی میں
تحریر: ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

یہ خود ساختہ عید میلاد النبی ﷺ جسے موجودہ زمانے کے مبتدعین بڑی دھوم دھام مناتے ہیں، اس کا ثبوت قرآن و حدیث اور سلف صالحینؒ سے نہیں ملتا، خیر القرون میں اس کا کہیں بھی وجود نہیں تھا۔ خود رسول اکرم ﷺ جن کے نام کی یہ عید منائی جاتی ہے، ان کے اعلان نبوت کے بعد 23 مرتبہ یہ دن آیا، لیکن آپ ﷺ نے کبھی بھی اس کو عید قرار نہیں دیا۔ اس کے لیے خصوصی محافل قائم نہیں کیں اور نہ ہی اپنے صحابہ کرامؓ کو اس کا حکم فرمایا، اسی طرح آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلفائے را شدینؓ کے دور میں اور آخری صحابی سید نا ابوطفیلؓ کی وفات تک کئی بار یہ دن آیا ، کسی صحابی نے بھی اس کو بطور عید منانے کا اہتمام نہیں کیا۔

اسی طرح امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبلؒ کے ایام ہائے زندگی میں یہ دن کئی بار آیا، لیکن کسی ایک امام نے بھی اس کو عید قرار دے کر اس کا اہتمام نہیں کیا، اور کسی ایک امام کی کتاب میں بھی اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اگر اس کا تعلق دین کے ساتھ ہوتا تو خود رسول اکرم ﷺ ، صحابہ کرامؓ اور ائمہ محدثینؒ ضرور اس کا تذکرہ کرتے ، اگر نہیں کیا تو لا محالہ یہ بدعت ہے اور بدعت مردود ہے۔

عید میلاد کے ایجاد کی تاریخ:

سب سے پہلے فاطمی امراء جو ’’رافضی العقیدۃ‘‘ تھے، انہوں نے یہ بدعت ایجاد کی۔ علامہ تقی الدین احمد بن علی المعروف بالمقریزی فرماتے ہیں:

﴿كان للخلفاء الفاطميين فى طول السنة اعياد ومواسم وهـى مـوسـم راس السنة ، وموسم اول العام ويوم عاشوراء، ومولد النبى ﷺ، ومولد على بن ابي طالب، و مولد الحسن، ومولد الحسين عليهما السلام ، و مولد فاطمة الزهراء عليها السلام و مولد الخليفة الحاضر﴾

’’فاطمی خلفاء سالوں کے لمبے عرصے میں عیدیں اور تہوار مناتے تھے اور یہ تہوار سال کے شروع میں عاشورے کے دن میلاد النبی ﷺ ، اور میلاد علی، اور میلاد حسن و حسینؓ اور میلاد فاطمہؓ اور موجودہ خلیفہ کا میلاد ہوتا تھا۔‘‘

اسی بات کو کہ یہ فاطمی خلفاء کی اختراع تھی علامہ محمد بخیت الخنفی مفتی مصر نے اپنی کتاب ’’احسن الكلام فيما يتعلق بالسنة والبدعة من الاحكام، ص 44، 45‘‘ پر ذکر کیا ہے۔

اربل میں میلاد کی ابتداء:

امام ابو محمد عبد الرحمان بن اسماعیل المعروف ابو شامہؒ فرماتے ہیں:

﴿كان اول من فعل ذلك بالموصل الشيخ عمر بن محمد الملا احد الصالحين المشهورين، وبه اقتدى في ذلك صاحب اربل وغيره .﴾
الباعث على انكار البدع والحوادث، ص: 71.

’’ موصل شہر میں سب سے پہلے عمر بن محمد الملا، جو مشہور صوفیا میں سے تھا اس نے اسے ایجاد کیا، اور اربل کے بادشاہ نے بھی اس کی اس مسئلہ میں اقتداء کی۔‘‘

اربل کے بادشاہ کا تعارف:

اس کا نام ابوسعید کوکبوی بن ابي لحسن علی بن یکشکسین بن محمد اور لقب الملك المعظم مظفر الدین تھا۔ امام سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ:

﴿واول من احدث فعل ذلك صاحب اربل الملك المظفر ابو سعید کوکبوی .﴾

’’سب سے پہلے (اربل میں) جس شخص نے میلاد کی بدعت ایجاد کی، وہ اربل کا بادشاہ الملک المظفر ابوسعید کوکبوری ہے۔‘‘

علامہ یاقوت المحمویؒ میں فرماتے ہیں۔

﴿فانه كثير الظلم، عسوف بالرعيه ، راغب في اخذ الاموال من غير وجها …. الخ﴾
معجم البلدان 38/1.

’’یہ بادشاہ بہت بڑا ظالم، رعایا پر بہت زیادہ جبر و ستم کرنے والا اور لوگوں کے اموال کو بلا وجہ غصب کرنے میں رغبت رکھنے والا تھا۔‘‘

اس فضول خرچ ظالم بادشاہ کو اس وقت محفل میلاد کے لیے قرآن وسنت کی نصوص کو مختلف تاویلات باطلہ کا لبادہ اوڑھا کر مواد فراہم کر نیوالا ایک مُلاں مل گیا، جس نے اس موضوع پر ایک کتاب ’’التنویر فی مولد السراج المنير‘‘ مرتب کر کے اس سے ایک ہزار دینار انعام حاصل کیا۔
الحاوى للفتاوى : 189/1 ، البداية والنهاية : 144/12 ، وفيات الاعيان : 449/3 و 119/4.

اس مولوی کا نام عمر بن الحسن ابو الخطاب بن دحیہ الاندلسی ہے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں:

﴿متهم في نقله .﴾

’’اپنی نقل میں متھم ہے۔‘‘
ميزان الاعتدال: 186/3.

امام ابن نجار فرماتے ہیں:

﴿رايت الناس مجتمعين على كذبه ووضعه وادعائه سماع مالم يسمعه ولقاء من لم يلقه﴾
لسان الميزان 168/5.

میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اس کے جھوٹ، وضع حدیث اور اس کے ایسے لوگوں سے سماع اور ملاقات کے دعوے جن سے اس نے کچھ نہیں سنا، اور نہ ہی ملاقات کی ہے، یہی متفق و مجتمع تھے۔‘‘
ائمہ محدثین کے فتاویٰ۔

شیخ تاج الدین عمر بن علی الفا کہانیؒ سے اس عید کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

﴿لا اعلم لهذا المولد اصلاً في كتاب ولا سنة ولا ينقل عمله عن احد من علماء الامة الذين هم القدوة في الدين، المتسكون بالاثار المتقدمين، بل هو بدعة احمدتها البطانون، وشهوة نفس اعتنى بها الاكالون﴾
الحاوى للفتاوى : 190/1 ، 191.

’’میں کتاب وسنہ میں اس میلاد کا کوئی اصل نہیں جانتا اور علماء امت جو کہ دین نمونہ اور متقدمین کے آثار کو تھامنے والے تھے، ان میں سے کسی ایک سے بھی اس کا عمل منقول نہیں، بلکہ یہ بدعت ہے جسے باطل پرست نفسانی خواہشات کے دلدادہ اور پیٹ پرستوں نے گھڑا ہے۔‘‘

❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

’’سلف صالحین رضی اللہ عنہم نے محفل میلاد کا انعقاد، اس کے تقاضے کا قیام اور رکاوٹ و مانع کے نہ ہونے کے باوجود نہیں کیا۔ اور اگر یہ محض خیر و بھلائی یا راجح بات ہوتی تو سلف صالحین رضی اللہ عنہم ہماری نسبت اس کے زیادہ حقدار تھے، وہ ہماری نسبت رسول اللہ ﷺ کی صحبت اور تعظیم میں زیادہ سخت اور نیکی کے کاموں میں زیادہ حریص تھے۔ آپ ﷺ کی صحبت اور تعظیم کا کمال، آپ ﷺ کی ظاہراً وباطناً اطاعت کرنے ، آپ ﷺ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے ، آپ ﷺ کی سنت کو زندہ کرنے ، اور جو احکامات دے کر آپ ﷺ کو بھیجا گیا اسے پھیلانے ، اور ان امور پر دل، ہاتھ اور زبان کے ساتھ جہاد کرنے میں ہے۔ اور یہی طریقہ انصار و مہاجرین جو سب سے سبقت کرنے والے اور ان کی اچھے طریقے کے ساتھ پیروی کرنے والوں کا تھا۔‘‘
اقتضاء الصراط المستقيم ومخالفة أصحاب الجهيم، ص: 295.

مجوزین میلاد کے دلائل کا جائزہ

پہلی دلیل:

صحیح بخاری میں ہے کہ عروہ نے کہا:

تو بید ابولہب کی باندی تھی، اور ابولہب نے اسے آزاد کر دیا تھا، پس اس نے نبی ﷺ کو دودھ پلایا جب ابو لہب مر گیا تو اس کے خاندان میں کسی نے اسے خواب میں بُری حالت میں دیکھا تو اس نے کہا:

تو نے کیا پایا؟ ابولہب نے کہا:

تمہارے بعد میں نے سکون نہیں پایا، سوائے اس بات کے کہ ثوبیہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ذرا سا کچھ اس میں سے پلا دیا جاتا ہوں۔ (اس نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے کہا) اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب کا فر رسول اللہ ﷺ کی ولادت پر خوشی میں لونڈی آزاد کرے تو اس کے عذاب میں تخفیف ہوگی تو مسلمان کی کیا شان ہے؟

✔ جائزہ:

◈ اولاً:

دین اسلام وحی کے علاوہ کسی چیز سے ثابت نہیں ہوتا، اس حدیث میں جس بات کا ذکر ہے، وہ خواب ہے اور خواب بھی نبی کریم ﷺ کا نہیں ۔

ايك خواب:

اگر ہمارے ان بھائیوں کے نزدیک خواب حجت شرعی ہے تو کیا اس خواب کو بھی ماننے کے لیے تیار ہیں؟ محمد بن حماد فرماتے ہیں:

میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا تو میں نے کہا:

یا رسول اللہ ! ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب کے کلام میں دیکھنے کے متعلق کیا فرماتے ہیں، کیا میں ان کے کلام کو دیکھوں اور اس پر عمل کروں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ نہیں نہیں نہیں، تین مرتبہ کہا۔ پھر میں نے کہا:

آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کی حدیث دیکھوں اور اس پر عمل کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

ہاں ہاں ہاں تین دفعہ کہا۔ پھر میں نے کہا:

یا رسول اللہ ! آپ مجھے کوئی دعا سکھائیں ، تاکہ میں اس کے ذریعے دعا کروں۔ آپ ﷺ نے مجھے دعا سکھلائی اور اسے تین مرتبہ دھرایا، جب میں بیدار ہوا تو وہ دعا بھول گیا۔
تاریخ بغداد : 425/13.

لمحہ فکریہ:

تو کیا اس خواب کو حجت شرعی مان کر ہمارے یہ بھائی فقہ حنفی سے تائب ہو کر قرآن وسنت کے دامن کے ساتھ وابستہ ہونے کے لیے تیار ہیں۔

◈ ثانياً:

کا فر کو قیامت والے دن اچھے اعمال نفع نہیں دیں گے، قرآن پاک میں ہے:

﴿وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا﴾

﴿الفرقان : 23﴾

’’اور انہوں نے جو جو اعمال کیے، ہم ان کی طرف متوجہ ہو کر انہیں بکھرے ہوئے ذروں کی طرح کر دیں گے۔‘‘

کفار کے عذاب میں تخفیف بھی نہیں ہوگی ۔ ارشاد فرمایا:

﴿إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ‎﴿٧٤﴾‏ لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ ‎﴿٧٥﴾﴾

﴿الزخرف: 74 ، 75﴾

’’یقیناً مجرم جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ہلکا کیا جائے گا ان سے عذاب اور وہ اس میں نا امید ہو کر پڑے رہیں گے۔‘‘

﴿تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ﴾

﴿لهب : 1﴾

’’ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہو گیا۔‘‘

قرآن مجید کی یہ آیت بھی تردید کر رہی ہے کہ ابو لہب کا کہنا ’’میں اپنی انگلی سے پانی چوستا ہوں‘‘ درست نہیں ، کیونکہ انگلی اسی کے ہاتھوں کا جز ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اس کے دونوں ہاتھوں ہلاک ہوں۔‘‘ اب بات ابو لہب کی درست ماننی ہے یا قرآن کی؟ فیصلہ خود کریں۔

دوسری دليل:

میلادالنبی کا جشن منانا رسول اللہ ﷺ کی دنیا میں آمد پر اظہار خوشی ہے اور خوشی منانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:

﴿قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ﴾

﴿يونس: 58﴾

’’آپ کہہ دیجئے ! کہ انہیں اللہ کے اس فضل اور اس رحمت پر خوش ہونا چاہیے، یہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جنہیں وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘

✔ جائزه:

◈ اولاً:

اس آیت کریمہ میں فضل و رحمت سے مراد قرآن مجید ہے جس کی تائید اس سے پہلی آیت کرتی ہے۔ امام ابن جریر طبری، حافظ ابن کثیر، امام بغوی، امام قرطبی، ابن العربی اور دوسرے کئی مفسرین نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔ ائمہ تفاسیر میں سے کسی بھی مفسر نے اس رحمت سے نبی کریم ﷺ کی ولادت مراد نہیں لی۔

◈ ثانيا:

قرآن مجید کی آیت ’’فلیفرحوا‘‘ سے نبی کریم ﷺ کی ولادت پر خوشی اور جشن منانے کا استدلال حقیقت میں قرآن مجید میں تحریف معنوی ہے۔ بتاؤ کس مفسر یا مترجم نے لکھا ہے کہ ’’فلیفرحوا‘‘ کا معنی ہے خوشی مناؤ، جلوس نکالو بھنگڑے ڈالو، موسیقی بجاؤ ، بسیں، ٹرک گاڑیاں، ٹرالیاں، بیل چھکڑے، اور اونٹ لے کر میدان میں آؤ، گنبد خضراء کا ماحول بناؤ اور اونٹوں پر بیٹھ کر گلی گلی گھومو، شرکیہ نعتیں پڑھو۔

◈ ثالثاً:

لوگوں کے لیے اصل رحمت نبی کریم ﷺ کی بعثت اور رسالت ہے۔

❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾

﴿الانبياء :107﴾

’’اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ۔‘‘

تو خوشی کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین کو مضبوطی سے تھام لیا جائے اور اس میں کسی قسم کا اضافہ کرنے سے اجتناب کیا جائے اور دل و جان سے اسلام کے احکامات تسلیم کریں۔ آپ ﷺ کے حقوق صحیح معنوں میں ادا کریں۔ یہی آپ سے محبت ، اطاعت اور اظہار خوشی ہے۔

تیسری دلیل:

اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت نعمت عظمیٰ اور احسان عظیم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾

﴿الضحى : 11﴾

’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا ذکر کرتے رہے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ بذات خود اپنے یوم ولادت کی تعظیم کرتے اور اس نعمت کبریٰ پر بطور شکر سوموار کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ بروایت ابو قتادہؓ رسول اللہ ﷺ سے سوموار کے روزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا:

اس دن میری ولادت با سعادت ہوئی اور اس دن مجھ پر وحی نازل کی گئی۔
صحیح مسلم، کتاب الصيام، رقم: 2750 .

✔ جائزه:

◈ اولاً:

اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا عبادت ہے جس کا طریقہ خود رسول اللہ ﷺ نے بتا دیا، کبھی آپ سجدہ شکر بجا لاتے ، تو کبھی کلمہ ’’ الحمدللہ‘‘ کا ورد فرماتے اور نعمت نبوت و رسالت سے نوازے جانے کا شکر آپ نے سوموار کا روزہ رکھ کر کیا۔ جیسا کہ روزہ یوم عاشورہ ، بطور شکریہ تھا سیدنا موسیؑ کی نجات اور ہلاکت فرعون پر۔ لہٰذا جس طریقہ سے آپ نے اپنی ولادت کا شکریہ ادا کیا تو ہمیں بھی اس طریقہ
روزہ سے اس نعمت پر اظہار خوشی کرنا چاہیے۔

◈ ثانيا:

یادر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے یوم ولادت پر قیام محافل کا حکم بھی نہیں دیا۔

◈ ثالثاً:

آپ کا یوم ولادت با سعادت پر روزہ رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ’’عید‘‘ کا دن نہیں ہے، اگر یہ عید کا دن ہوتا تو آپ کبھی بھی روزہ نہ رکھتے کیونکہ آپ ﷺ نے تو عیدین کے دنوں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں:

﴿أن رسول الله ﷺ: نهى عن صيام يومين: يوم الأضحى ويوم الفطر﴾
صحيح مسلم، کتاب الصيام، رقم: 2672 .

’’ بے شک رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دنوں کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘

لمحه فكریه:

جس ماہ میں رسول اللہ ﷺ کی پیدائش ہوئی وہ ربیع الاول ہے اور اس میں آپ کی وفات بھی ہوئی۔ اس میں خوشی کے مقابلہ غم کرنا زیادہ معقول ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جذبات سے مغلوبیت اور محبت رسول کے دعووں نے جاہل عوام کو ان محرمات کو طرف مائل کیا لیکن دعوی محبت کیسے سچا مانا جائے جبکہ حکم رسول اللہ کی مخالفت ہو رہی ہے۔ دو متضاد چیزیں کبھی اکٹھا نہیں رہ سکتیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی محبت کا میزان آپ ﷺ کی ابتاع کو قرار دیا ہے۔

﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾

﴿آل عمران: 31﴾

اللہ تعالیٰ ہر قسم کی گمراہی و ضلالت اور رسومات و بدعات سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے، سچا محب رسول ﷺ بنانے اور قرآن وسنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔ (آمین)

ڈاکٹر صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ اپنی کتاب التوحید ص : 231 پر رقمطراز ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿التتبعن سنن من كان قبلكم .﴾
صحيح بخاری، کتاب احادیث الانبياء، رقم: 3456 .

’’تم گزشتہ قوموں کے طریقوں کی اتباع ضرور کرو گے۔‘‘

ربیع الاول میں میلاد کے جشن اور جلوس:

میلاد منانا سرسرا عیسائیوں کی تقلید ہے۔ اس لیے کہ عیسائی مسیحؑ کی ولادت کا دن مناتے ہیں، اسلام میں یہ چیز نہیں ہے، لیکن اکثر جاہل مسلمان اور گمراہ علما ہر سال ماہ ربیع الاول کو میلاد شریف کے نام سے جشن اور جلوس نکالنے لگے ہیں۔ بعض تو اس طرح کے جلسے مسجد ہی میں منعقد کرتے اور بعض اپنے گھروں، میدانوں یا بازاروں میں بڑے اہتمام سے منعقد کرتے ہیں، جس میں بڑی تعداد میں گنوار لوگ حاضر ہوتے ہیں اور وہ یہ سب کچھ نصاری کی تقلید اور نقل میں کرتے ہیں۔ نصاریٰ جس طرح حضرت عیسیٰؑ کا میلاد مناتے ہیں ٹھیک اسی طرح مسلمان بھی رسول اللہ ﷺ کا میلاد مناتے ہیں اور میلاد کی ہر چیز میں ان کی تقلید کرتے ہیں، جس کہ اس طرح کے جشن اور جلوس، بدعت وخرافات اور نصاریٰ کی تقلید کے علاوہ اس میں ہزاروں طرح کے شرکیہ اعمال کیے جاتے ہیں اور منکرات کا ارتکاب کیا جاتا ہے، ایسے نعتیہ کلام پیش کیے جاتے ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کے حق میں غلو ہوتا ہے پھر آپ ﷺ کو حاضر ناظر سمجھ کر آپ ﷺ ہی سے دعائیں مانگی جاتی ہیں، غوث اعظم کے دامن کو نہ چھوڑنے کی صدا لگائی جاتی ہے، جبکہ خود رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿لا تطرونى كما أطرت النصارى ابن مريم ، فإنما عبد فقولوا: عبد الله ورسوله .﴾
صحیح بخاری، رقم : 3445 .

”دیکھو! میری تعریف میں غلو نہ کرنا جس طرح نصاری نے ابن مریم کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں بندہ ہوں ، لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو ۔‘‘

اہل میلاد کا اعتقاد:

لفظ ’’اطراء‘‘ کا معنی ہے مدح و تعریف میں غلو کرنا، میلاد النبی کے جشن و جلوس میں عموماً لوگ یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ بذات خود اس محفل میں تشریف لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی دوسری برائیاں یہ ہیں کہ ان میں لوگ اجتماعی طور پر نعت خوانی کرتے ہیں، گانے بجانے کا پورا اہتمام ہوتا ہے،صوفیوں کے اذکار اور روداد پڑھے جاتے ہیں۔ مختلف بدعتوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے، اس میں مرد و زن کا اختلاط بھی ہوتا ہے، جس سے فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے۔ لوگوں کے فواحش میں پڑنے کا پورا خطرہ رہتا ہے، اگر یہ محفلیں تمام برائیوں سے پاک بھی ہوں تو بھی لوگوں کا اس بات کے لیے جمع ہونا، اجتماعی طور پر کھانا پینا، خوشی و مسرت کا اظہار کرنا بذات خود ایک بدعت ہے اور دین میں ایک نئی چیز کی ایجاد ہے، جبکہ حدیث شریف کے الفاظ ہیں:

﴿كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة﴾

’’ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

اور آہستہ آہستہ اس طرح کے جلسوں میں منکرات و برائیوں کا در آنا یقینی بات ہے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے۔

امام ابن تیمیہؒ کا موقف :

اس سلسلہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:

’’آج کل جس طرح لوگ میلاد شریف مناتے ہیں یا تو نصاریٰ کی تقلید میں مناتے ہیں ، اس لیے کہ یہ نصاریٰ حضرت عیسیؑ کا یوم ولادت مناتے ہیں یا پھر رسول اللہ ﷺ کی محبت و تعظیم میں مناتے ہیں، جب کہ نبی کریم ﷺ کی تاریخ پیدائش میں مورخوں اور سیرت نگاروں کے مابین اختلاف ہے، اس طرح کا میلا د ہمارے سلف صالحین نے کبھی نہیں منایا اگر یہ خیر و بھلائی کی چیز ہوتی تو ہمارے اسلاف کرام ضرور ایسا کرتے ، اس لیے کہ وہ ہم سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کرنے والے اور آپ ﷺ سے محبت کرنے والے تھے۔ وہ تو آپ ﷺ کے احکام کی پیروی اور ایک ایک سنت کو زندہ کرنے کے لیے مر مٹتے تھے۔ وہ ہم سے زیادہ نیکی کے حریص تھے، یہ اس لیے کہ آپ ﷺ سے محبت و تعظیم کا ذریعہ وہ آپ ﷺ کی پیروی واتباع ، آپ کی سنتوں کے احیا، دین اسلام کے فروغ اور دل و زبان اور ہاتھ سے جہاد ہی کو سمجھتے تھے، یہی طریقہ سابقین اولین مہاجرین و انصار اور ان کے سچے متبعین کا تھا۔ اس بدعت کے رد میں متعدد کتب و رسائل لکھے گئے ہیں۔ پہلے بھی اور موجودہ دور میں بھی ، اصل میں میلاد شریف ایک بدعت ہونے کے علاوہ دوسرے اولیا وصالحین کی یوم ولادت (برتھ ڈے) منانے کا راستہ کھول دیتی ہے، جس سے شر و فساد کے مختلف دروازے کھل جاتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!