عیدین ایام تشریق اور رمضان کے استقبال کے لیے ایک یا دو دن پہلے روزے رکھنا حرام ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

عیدین ایام تشریق اور رمضان کے استقبال کے لیے ایک یا دو دن پہلے روزے رکھنا حرام ہے
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهى رسول الله عن صوم يوم الفطر والنحر
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر اور عیدالاضحی کے روزے سے منع فرمایا ہے ۔“
[بخاري: 1991 ، كتاب الصوم: باب صوم يوم الفطر ، مسلم: 827 ، أحمد: 34/3 ، شرح السنة: 451 ، ابن ماجة: 1721]
اس مسئلے پر علماء کا اجماع ہے ۔
[شرح مسلم للنووى: 271/4 ، نيل الأوطار: 246/3]
(جمہور، شافعیؒ) عیدین کے دنوں میں روزے کی نذر منعقد نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی قضا لازم ہے۔
(ابو حنیفہؒ) نذر منعقد ہو جاتی ہے اور ان دنوں کی قضا بھی لازم ہے لٰہذا اگر کوئی ان دنوں میں نذر کا روزہ رکھ لے تو درست ہے۔
[المغنى: 398/4 ، الحاوى: 455/3 ، الأم: 144/2 ، بدائع الصنائع: 78/2 ، نيل الأوطار: 246/3]
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے کہا:
كل فهذه الأيام التى كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يا مرنا بإفطارها وينهانا عن صيامها ، قال مالك وهى أيام التشريق
”کھاؤ ، ان دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں روزہ چھوڑنے کا حکم دیا کرتے تھے اور روزہ رکھنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ ان دنوں سے مراد ایام تشریق (یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کے دن) ہیں ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2113 ، كتاب الصيام: باب صيام أيام التشريق ، أبو داود: 2418 ، أحمد: 197/4 ، دارمي: 24/2 ، حاكم: 435/1 ، بيهقي: 297/4 ، ابن خزيمة: 2149]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
أيام التشريق أيام أكل وشرب
”ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔“
[مسلم: 1141 ، أبو داود: 2813 ، تسائي: 170/7 ، أحمد: 58/5 ، طحاوي: 245/2 ، بيهقي: 297/4]
(ابن حزمؒ) ایام تشریق میں روزے جائز نہیں۔
[المحلى بالآثار: 451/4]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
لا يتقد من أحدكم رمضان بصوم يوم أو يومين إلا أن يكون رجل كان يصوم صوما فليصم ذلك اليوم
”تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے (شعبان کی آخری تاریخوں میں ) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے ، البتہ اگر کسی کو ان میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو اس دن بھی روزہ رکھ سکتا ہے ۔“
[بخارى: 1914 ، كتاب الصوم: باب لا يتقد من رمضان بصوم يوم ولا يومين ، مسلم: 1082 ، أبو داود: 2335 ، ترمذي: 684 ، نسائي: 149/4 ، ابن ماجة: 1650 ، أحمد: 234/2]
اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے. إذا انتصف شعبان فلا تصوموا ”جب شعبان نصف ہو جائے تو تم روزے نہ رکھو۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2049 ، كتاب الصوم: باب فى كراهية ذلك ، ترمذى: 738 ، ابن ماجة: 1651 ، أحمد: 442/2 ، عبد الرزاق: 7325 ، دارمي: 17/2 ، ابن حبان: 3589 ، شرح معاني الآثار: 82/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1