حدیث کی وضاحت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحی یا عید الفطر کے موقع پر عیدگاہ میں خطاب کے دوران عورتوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دی اور فرمایا کہ جہنم میں زیادہ تر خواتین کو دیکھا ہے۔ جب خواتین نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم زیادہ لعنت ملامت کرتی ہو اور شوہروں کی ناشکری کرتی ہو۔ اس پر خواتین نے مزید وضاحت چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے برابر نہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں، ایسا ہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی ان کی عقل کا نقص ہے۔ پھر فرمایا کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہوتی ہے تو نماز اور روزہ نہیں رکھ سکتی، یہی اس کے دین کا نقص ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الحیض، باب ترک الحائض الصوم، حدیث: 305)
حدیث کا سیاق و سباق
یہ حدیث ایک خاص موقع پر بیان کی گئی، جب رسول اللہ ﷺ عید کے موقع پر صدقہ و خیرات کے لیے فنڈ جمع کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے خواتین سے خطاب میں مجازِ مرسل کا استعمال کیا، جہاں الفاظ کو حقیقی معنی میں لینے کے بجائے مجازی مفہوم کے ساتھ سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ (مثال: "روٹی کا مسئلہ” سے مراد روزگار کا مسئلہ ہوتا ہے، نہ کہ صرف روٹی)۔
مقصد صدقہ کی ترغیب دینا تھا
صحیح مسلم میں موجود ایک اور روایت وضاحت کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا مقصد خواتین کی دینی یا سماجی حیثیت کو کمتر دکھانا نہیں تھا بلکہ ان کو زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کی ترغیب دینا تھا تاکہ وہ جہنم کے عذاب سے بچ سکیں:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عید کے موقع پر خطبہ دیا اور پھر خواتین کے پاس جا کر فرمایا کہ صدقہ دو کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن ہیں۔ ایک خاتون نے وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم شکایت اور ناشکری زیادہ کرتی ہو۔ اس پر خواتین نے زیورات صدقہ کیے۔
(صحیح مسلم، حدیث: 2048)
عقل اور جذبات میں فرق
یہ بات واضح ہے کہ مرد اور عورت فطری طور پر کئی معاملات میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
عقلی معاملات
مرد عمومی طور پر تجزیہ، منطق اور ریاضیاتی معاملات میں زیادہ مضبوط نظر آتے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ (برٹش جرنل آف سائیکالوجی) کے مطابق، مردوں کا اوسط IQ خواتین سے 5 پوائنٹس زیادہ ہوتا ہے، جو سائنسی کامیابیوں اور نوبل انعام یافتہ افراد میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔
جذباتی معاملات
دوسری طرف خواتین فطری طور پر جذباتی ذہانت (E.Q.) میں زیادہ بہتر ہوتی ہیں، جیسا کہ ہمدردی، تعلقات اور سماجی ذمہ داریوں میں ان کی قابلیت مردوں سے زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق خواتین نے جذباتی ذہانت کے ٹیسٹ میں مردوں سے بہتر کارکردگی دکھائی۔
عورت اور مرد کی تکمیلی حیثیت
مرد اور عورت فطرت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں مرد عقلی اور تجزیاتی صلاحیتوں میں بہتر ہوتے ہیں، وہیں خواتین جذباتی اور سماجی معاملات میں مردوں کی کمی کو پورا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں کو جذباتی زندگی میں خواتین کی ضرورت ہوتی ہے اور خواتین کو عملی و عقلی رہنمائی کے لیے مردوں کی۔
شریعت میں برابری کا تصور
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"عورتیں مردوں کی شقائق ہیں”
(سنن ابو داؤد)
شقائق کا مطلب یہ ہے کہ عورت اور مرد فطرت میں ایک دوسرے کے ہم جنس اور برابر ہیں۔ شریعت میں ان کی حیثیت مساوی ہے، اور ان کے اعمال کا معیار صرف تقویٰ ہے، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقَاكُمْ
(سورہ الحجرات: 13)
"تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔”
ذہانت اور مقامِ انسانیت
نہ تو جذباتی ذہانت اور نہ ہی منطقی ذہانت انسان کی قدر و منزلت کا معیار ہے۔ اسلام میں اصل معیار تقویٰ اور نیک اعمال ہیں۔ مرد اور عورت دونوں اپنی اپنی خصوصیات اور ذمہ داریوں کے ساتھ دین میں برابر ہیں۔
نتیجہ
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو مخصوص حالات اور سیاق و سباق کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ یہ الفاظ خواتین کو کمتر ثابت کرنے کے لیے نہیں بلکہ انہیں عملی اصلاح اور خیرات کی ترغیب دینے کے لیے کہے گئے تھے۔