سوال :
عورت کا مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟
جواب :
یہ بات طے شدہ ہے کہ عورت کا مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے میدان عمل میں اترتا مذموم اختلاط اور خلوت کا سبب بنتا ہے اور یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ اس کے نتائج خطرناک اور پھل کڑوا ہوتا ہے اور انجام انتہائی برا اور ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ عورتوں کا مردوں کے ساتھ میدان عمل میں اترنا ان قرآنی آیات (احکام) سے متصادم ہے جو عورت کا دائرہ عمل گھر کی چار دیواری تک محدود بناتی ہیں اور اسے ایسے اعمال بجا لانے کی تلقین کرتی ہیں جن کے لئے عورت کی تخلیق ہوئی اور جو اس کے ساتھ مخصوص ہیں اس طرح ہی وہ مردوں کے ساتھ اختلاط سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ ایسے صحیح اور صریح دلائل و براہین جو اجنبی عورتوں سے خلوت اپنانے، انہیں دیکھنے، شرعی محرمات کے وسائل و اسباب کے ارتکا ب کو حرام قرار دیتے ہیں مکم اور کثیر تعداد میں ہیں جو کہ انجام بد سے دوچار کرنے والے مرد و زن کے اختلاط کے حرام ہونے کے بارے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ ان دلائل میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :
«وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ٭ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا» [33-الأحزاب:33]
”(اے نبی کی بیویو !) اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیمی زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے بناؤ سنگار نہ دکھاتی پھرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔ اے نبی کی بیویو ! اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ تم سے وہ ہر قسم کی گندگی و پلیدی کو دور کر دے اور تمہیں(ہر طرح سے) خوب پاک صاف کر دے۔ تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو حدیثیں پڑھی جاتی ہیں یاد رکھو۔ یقیناًً اللہ تعالیٰ مخفی سے مخفی بات تک کو جانے والا ہے۔“
نیز فرمایا :
«يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَحِيمًا» [33-الأحزاب:59]
”اے نبی ! اپنی بیویوں سے، اپنی صاجزادیوں اور عام مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ د یجئیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی، پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔“
مزید ارشاد ہوتا ہے :
«قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ٭ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ» [24-النور:30]
”(اے نبی !) ایمان والوں سے کہہ دیجئیے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں یقیناًً اللہ تعالیٰ کو سب کچھ کی خبر ہے اور آپ مسلمان عورتوں سے فرما دیجئیے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے۔“
ایک اور جگہ پر ہے :
«وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ» [33-الأحزاب:53]
”اور تم جب ان (ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«إياكم والدخول على النساء، قيل يا رسول الله صلى الله عليه وسلم : أفرأيت الحمو ؟ قال : الحمو الموت» [رواه الترمذي فى كتاب الرضاع وأحمد 4/ 49]
”اپنے آپ کو (اجنبی) عورتوں کے پاس جانے سے بچاؤ، پوچھا گیا یا رسول اللہ ! خاوند کے بھائی کے متعلق کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تو موت ہے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلم نے اجنبی عورت کے ساتھ اختلاط سے مطلقاً منع کرتے ہوئے فرمایا :
«إن ثالثهما الشيطان»
”ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے۔“
عورت کو اجنبی مرد کے ساتھ سفر کرنے سے منع فرمایا تاکہ فساد کا سدباب کیا جا سکے، گناہ کا دروازہ بند ہو اور شر کے اسباب کا خاتمہ کیا جا سکے اور دونوں کو شیطانی مکاریوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«اتقوا الدنيا واتقوا النساء، فإن أول فنتة بني إسرائيل كانت فى النساء»
دنیا سے بچو ! اور عورتوں سے بچو ! اس لئے کہ بنی اسرائیل میں پہلا فتنہ عورتوں کی وجہ سے ہوا۔
«ما تركت بعدي فنتة أضر على الرجال من النساء» [رواه مسلم فى كتاب الذكر والدعاء باب 29]
”میں نے اپنے بعد اپنی امت میں مردوں کے لئے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔“
مذکورہ بالا آیات مبارکہ اور احادیث نبویہ اس امر کی واضح دلیل ہیں کہ ایسے اختلاط سے دور رہنا ضروری ہے جو کہ فتنہ و فساد کو جنم دیتا ہو۔ خاندانوں کو تباہ کرتا ہو اور معاشرے کو برباد کرنے کا سبب بنتا ہے۔ جب ہم بعض اسلامی ممالک میں عورت کی حیثیت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلنے اور اپنی فطری ذمہ داریوں سے ہٹ کر دیگر کاموں میں مشغول ہونے کی بناء پر ذلت و پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکی ہے مغرب اور مغرب کے مقلد ممالک میں بعض دانشور اب دوبارہ عورت کو اس کے اس فطری دائرہ عمل میں لانے کے لئے نعرہ زن ہیں۔ وہ فطری کردار و عمل جس کے لئے قدرت نے اس کی تخلیق کی اور جس کے لئے جسمانی و عقلی طور پر اس کی ترکیب فرمائی، لیکن یہ وقت بیت جانے اور سب کچھ کھونے کے بعد ہو رہا ہے۔
اگر خواتین گھریلو کام کاج میں حصہ لیں، درس و تدریں اور عورتوں سے متعلق دیگر شعبہ ہائے حیات میں کام کریں تو انہیں مردوں کے ساتھ مصروف عمل ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں رہے گی۔ ہم اللہ رب العزت کے حضور دعاگو ہیں کہ وہ تمام بلاد اسلامیہ کو دشمنان اسلام اور ان کے تباہ کن منصوبوں سے محفوظ فرمائے۔ تمام ذمہ داران اور اصحاب قلم و قرطاس کو اس امر کی توفیق بخشے کہ وہ ایسے امور کی طرف مسلم عوام کی راہنمائی کریں جو دین و دنیا میں ان کے معاملات کی اصلاح کر سکیں۔ وہ اپنے رب کے احکام کو نافذ کریں جو ان کا خالق ہے اور انکی بھلائی سے بخوبی آگاہ ہے۔
اللہ تعالیٰ تمام دیار اسلام کے ذمہ دار حضرات کو ہر وہ کام کرنے کی توفیق ارزاں فرمائے جس میں بندگان رب اور بلاد اسلامیہ کا بھلا ہو۔ ان کے معاش اور معاد کے معاملات کی درستگی ہو۔ وہ ہم سب کو، جملہ اہل اسلام کو اور مسلم حکمرانوں کو گمراہ کن فتنوں اور اپنی ناراضگی کے اسباب سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین۔ «انه ولي ذلك والقادر عليه .»
(شیخ ابن باز)