عورت کا سر پر بالوں کا جوڑا بنانا
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

عورت کے لئے سر پر بالوں کا جوڑا بنانے کا کیا حکم ہے ؟

جواب :

سر پر بالوں کا جوڑا بنانا اہل علم کے نزدیک اس تحذیر اور نہی کے ضمن میں آتا ہے جس کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں وارد ہے :
«صنفان من أهل النار لم أرهما . قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات مميلات، مائلات رؤوسهن كأسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا » [صحيح مسلم، كتاب اللباس والزينة، باب 34]
”دوزخیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا ایک وہ لوگ کہ ان کے ہاتھوں میں گائے کی دم جیسے کوڑے ہوں گے، جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے۔ دوسرے وہ عورتیں جو ننگی ہوں گی (لوگوں کی طرف) مائل ہونے والی اور مائل کرنے والی۔ ان کے سر بختی اونٹوں کی جھکی ہوئی کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے پائی جاتی ہے۔“
اس حدیث میں آگے چل کر ان عورتوں کا ذکر ہے جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہیں مگر حقیقتاً ننگی ہیں۔ خود لوگوں کی طرف مائل ہونے والیاں اور دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والیاں ہیں۔ ان کے سر بختی اونٹوں کی جھکی ہوئی کوہان کی طرح ہوں گے۔ اگر سر کے بال اوپر اکٹھے کر لئے جائیں تو اس کے متعلق نہی وارد ہے اور اگر مثلاً گردن میں کھلے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں اگر عورت کو بازار جانا ہو تو بالوں کا ایسی حالت میں رہنا تبرج (اظہار زینت) کے ضمن میں آتا ہے۔ اسی طرح بال عباء کے پیچھے سے ظاہر ہونے والی ایک علامت ہوں گے، جو کہ تبرج ہے لہٰذا فتنہ کا سبب ہونے کی وجہ سے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
(شیخ محمد بن صالح عثیمین)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے