ابونعیم اصفہانی ’’دلائل النبوة“ میں کہتے ہیں کہ محمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرنے کے بعد جب انصار مدینہ طیبہ میں آئے تو اسلام خوب پھیلا۔ تاہم کچھ لوگ اپنے عقیدہ شرک پر قائم تھے جن میں ایک عمرو بن جموع بھی تھے جب کہ ان کا بیٹا معاذ بن عمرو عقبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر کے آیاتھا۔ عمرو بن جموع بنو سلمہ کے معزز ترین فرد اور سرداروں میں سے ایک سردار تھے۔ انہوں نے اپنے گھر میں لکڑی سے بنا ہوا ایک بت رکھا تھا جسے مناۃ کہتے تھے۔ دیگر سرداروں کا بھی یہی حال تھا وہ اس کی عبادت کرتے اور اسے صاف ستھرا رکھتے تھے۔ جب بنو سلمہ کے کچھ نوجوان جن میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور خود عمرو کے بیٹے معاذ بھی تھے، اسلام لے آئے تو وہ اکثر عمرو بن جموع کا بت اٹھا کر باہر لے جاتے اور بنو سلمہ کے کھودے ہوئے کسی گڑھے میں جہاں لوگوں نے کوڑا کرکٹ ڈالا ہوتا تھا منہ کے بل پھینک آتے۔ ایک دن عمرو نے صبح کے وقت قوم سے کہا: تمھارا برا ہو یہ رات کو ہمارے خدا کے ساتھ زیادتی کون کرتا ہے ؟ پھر وہ بت کو تلاش کرنے نکلے جب وہ مل گیا تو اسے گھر لائے بت کو دھویا اسے صاف کیا اور خوشبو لگا کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا۔ پھر اسے کہنے لگے اللہ کی قسم ! اگر مجھے معلوم ہو گیا کہ تمہارے ساتھ یہ حشر کس نے کیا ہے تو میں اسے ذلیل کر کے رکھ دوں گا۔
اگلی شام کو جب عمر و بن جموع سو گئے تو بنو سلمہ کے نوجوان پھر آئے اور بت کو پھر وہیں پھینک آئے۔ پھر آئے دن ایسا ہونے لگا اور عمرو ہر بار اسے ڈھونڈ کر لاتے اور دھو کر اپنی جگہ رکھ دیتے۔
ایک دن حسب معمول انہوں نے بت کو دھو کر خوشبو لگا کر اور صاف کر کے اپنی جگہ رکھا اور اپنی تلوار لے کر اس کے کندھے پر لٹکا دی اور کہا: اے بت ! مجھے معلوم نہیں کہ روزانہ تیرا یہ حشر کون کرتا۔
اگر تجھ میں کوئی بھلائی ہے تو آج اس تلوار کے ساتھ خود ہی مقابلہ کر لینا۔ جب رات پڑی اور عمرو بن جموع نیند کی وادی میں جا بسے تو مسلمان نوجوان آئے۔ دیکھا تو تلوار بت کے کند ھے پر لٹک رہی تھی۔ تلوار انہوں نے اتار لی اور باہر لے جا کر ایک مرا ہوا کتا رسی کے ذریعے بت کے ساتھ باندھ دیا اور کوڑا کرکٹ کے کسی گڑھے میں پھینک آئے۔
عمرو بن جموع نے صبح جب بت کو موجود نہ پایا تو اس کی تلاش میں نکلا۔ جب وہ ملا تو دیکھا کہ بت گندگی میں پڑا ہے اور ساتھ ایک مرا ہوا کتا بھی بندھا ہے۔
عمرو بن جموع نے جب اس کی حالت زار دیکھی تو اس سے متنفر ہو گئے۔ پھر جب بنو سلمہ کے مسلمان افراد نے آپ کو مئے توحید الٰہی کا ایک گھونٹ پلایا تو آپ کی زبان پر کلمہ جاری ہو گیا اور پکے مسلمان ہو گئے۔
تحقیق الحدیث :
[سيرة ابن هشام مع الروض الأنف للسهيلي جلد دوم، ص : 278]
محمد بن اسحاق نے اس کی کوئی سند بیان نہیں کی۔
اس لیے یہ روایت ضعیف و منقطع ہے۔
عمرو بن جمورع کے حالات کے لیے دیکھیں : [الثقاف 276/3 الاصابة529/2 الاستيعاب 1167/3 اديان العرب فى الجاهلية ص : 157]