عقیقے کا مستحب ہونا
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

بچہ خواہ مذکر ہو یا مؤنث اس کی طرف سے عقیقے کا جانور ذبح کرنے کا کیا حکم ہے ؟ کیا مذکر بچے کی طرف سے دو بکریاں ذبح کرنا واجب ہے ؟ جب وہ اس کی طرف سے ایک بکری ذبح کرے اور اس کو ایک عرصہ گزر چکا ہو تو اس کاکیا حکم ہے ؟ اور اگر دادا اپنے پوتے کا عقیقہ کرتے ہوئے عقیقے کا جانور ذبح کرے تو اس کاکیا حکم ہے ؟ اگر عقیقے کے جانور خریدنے میں دوسرے لوگ تعاون کریں تو اس کاکیا حکم ہے ؟ عقیقے کی دعوت پر ولیمہ منعقد کرنے کا کیا حکم ہے ؟ اور ایسا کرنے میں اس پر کیا طریقے کار واجب ہوگا ؟

جواب :

عقیقہ اس قربانی اور ذبیحے کا نام ہے جس کو بچے کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے اور یہ سنت مؤکدہ ہے ۔ بعض علماء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے اس کو واجب کہتے ہیں :
كل غلام مرتهن بعقيقته تذبح يوم سابعه و يسمي [صحيح سنن ابن ماجه ، رقم الحديث 3165 ]
”ہر بچہ اپنے عقیقے کا گروی ہے ، اس (کی پیدائش) کے ساتویں دن عقیقے کا جانور ذبح کیا جا ئے اور اس کانام رکھا جائے ۔ “
لیکن یہ حدیث تو صرف اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ عقیقہ کرنا تاکیدی امر ہے ، ورنہ اس میں اصل یہی ہے کہ یہ واجب نہیں ۔ اس میں سنت یہ ہے کہ مذکر بچے کی طرف سے دو بکریاں یا دو بھڑیں ، اور بچی کی طرف سے ایک ، اور اگر مذکر بچے کی طرف سے ایک بکری پر اکتفا کرے گا تو ان شاء اللہ یہ بھی کافی ہوگی ۔ اسی طرح ان کے درمیان اس طرح فرق کرنا بھی جائز ہے کہ پہلی بکری ایک ہفتے کے بعد ذبح کرے اور دوسری دو ہفتوں کے بعد ذبح کرے جو کہ پہلی کے علاوہ ہے ۔ عقیقے میں اصل یہ ہے کہ عقیقہ کرنا والد کے ذمہ واجب ہے ، اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہ اس نے اس کو بچے جیسی نعمت سے نوازا ہے ۔ تاہم اگر بچے کا دادا ، یا بھائی اور ان دونوں کے علاوہ کوئی اور بھی اس کے عقیقہ کا جانور خرید کر ذبح کر دے تو یہ کفایت کر جائے گا ۔ اسی طرح اگر ان میں سے کوئی عقیقہ کا جانور خریدنے میں کچھ تعاون کرے تو یہ بھی جائز ہے ۔ عقیقے کے گوشت کے متعلق سنت یہ ہے کہ وہ ایک تہائی خود استعمال کرے اور ایک تہائی اپنے دوستوں کو ہدیہ دے اور ایک تہائی مسلمانوں پر صدقہ کرے ، اور عقیقے کی دعوت پر اپنے دوستوں اور قریبی رشتہ داروں کو مدعو کرنا بھی جائز ہے ، نیز عقیقے کا تمام گوشت صدقہ کر دینا بھی جائز ہے ۔

(عبداللہ بن عبد الرحمن الجبرین حفظہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1